چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے اعلیٰ عدلیہ کے خلاف مبینہ مہم پر وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی جانب سے صحافیوں و یوٹیوبرز کو نوٹس بھیج کر مبینہ طور پر ہراساں کیے جانے کا از خود نوٹس لیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس نے سپریم کورٹ کا 3 رکنی بینچ بھی تشکیل دے دیا جو کل پیر (29 جنوری) کو اس معاملے کی سماعت کرے گا، چیف جسٹس فائز عیسیٰ کی سربراہی میں بینچ جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل ہے۔

چیف جسٹس نے ازخود نوٹس پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ (پی اے ایس) اور اسلام آباد ہائی کورٹ جرنلسٹ ایسوسی ایشن (آئی ایچ سی جے اے) کی جانب سے مشترکہ قرارداد کی منظوری اور دونوں تنظیموں کے نومنتخب نمائندوں کے ساتھ چیمبر میں ملاقات کے بعد لیا۔

صحافیوں کو ہراساں کرنے کے حوالے سے پی اے ایس کی درخواست پر اس کیس کو 2021 میں دائر ایک اور کیس کے ساتھ سنا جائے گا۔

عدالت نے اٹارنی جنرل پاکستان، چیئرمین پیمرا، ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے اور آئی جی اسلام آباد پولیس کو بھی ذاتی طور پر عدالت میں پیش ہونے کی ہدایت کی ہے۔

یہ قرارداد پی اے ایس اور آئی ایچ سی جی اے کے نمائندوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ان رپورٹس کے خلاف مشترکہ اجلاس میں منظور کی گئی کہ ایف آئی اے کے سائبر ونگ نے ججز کے خلاف توہین آمیز مہم کا نوٹس لینے کے بعد تقریباً 47 صحافیوں کو نوٹسز جاری کیے ہیں۔

قرارداد میں اس بات پر افسوس کا اظہار کیا گیا کہ ایف آئی اے کے نوٹسز نے ایک غلط تاثر قائم کیا گیا ہے اور ان رپورٹرز کے لیے تشویش کا باعث ہے جو سپریم کورٹ کی کارروائی کو کور کرتے ہیں، یہ آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت دیے گئے حقوق کی سراسر خلاف ورزی ہے۔

دونوں منتخب تنظیموں نے صحافیوں کو نوٹسز بھجوائے جانے کی مذمت کرتے ہوئے حکام سے مطالبہ کیا کہ انہیں ہراساں نہ کیا جائے اور نوٹس فوری طور پر واپس لیے جائیں، بصورت دیگر صحافیوں کی نمائندہ تنظیموں سے رابطہ کرکے آئندہ لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔

پسِ منظر

واضح رہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان اور ریاستی اداروں کے خلاف غلط معلومات اور منفی پروپیگنڈے کی تشہیر پر گزشتہ روز ایف آئی اے نے 47 صحافیوں اور یوٹیوبرز کو نوٹس جاری کرتے ہوئے آئندہ ہفتے طلب کر لیا تھا۔

ایف آئی اے کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ سوشل میڈیا پر چیف جسٹس اور ریاستی اداروں کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے اور غلط معلومات کی تشہیر میں ملوث افراد کے خلاف اب تک 115 انکوائریاں رجسٹر کی جا چکی ہیں اور 65 نوٹسز بھی دیے جا چکے ہیں، ان ان نوٹسز کی سماعت 30 اور 30 جنوری کو ہو گی۔

جن 65 افراد کو نوٹسز جاری کیے گئے ہیں ان میں 47 صحافی اور یوٹیوبرز بھی ہیں جن میں چند نامور صحافی بھی شامل ہیں۔

جن 47 افراد کو نوٹسز جاری کیے گئے ان میں اسد طور، پارس جہانزیب، اقرار الحسن، صدیق جان، مطیع اللہ، سید اکبر حسین، دانش قمر، ثاقب بشیر، سجاد علی خان، سید حیدر رضا مہدی، شاہین صہبائی، سرل المیڈا، رضوان احمد خان، عدیل راجا، ریاض الحق، صابر شاکر، سید احسان حسن نقوی، محمد فہیم اختر، ثاقب حسین، سہیل رشید، ناصر محمود شامل ہیں۔

اس کے علاوہ احتشام وکیل جبران ناصر، احتشام نصیر، سبطین رضا، شیراز افضل، محمد افضل، محمد افضال بیلا، نصرین قدوائی، طیب اعجاز، انیلا منیر، ذیشان علی، حافظ شاکر محمود، ایاز احمد، طارق متین، سلمان سنگر، اظہر مشوانی، عدنان امل زیدی، عمران ریاض، اوریا مقبول جان، زاہد قیوم وڑائچ، عارف حمید بھٹی، نذر محمد چوہان، فضل جاوید، محمد اکرم، سارہ تاثیر اور متین حسنین کو بھی نوٹس جاری کیے گئے ہیں۔

یاد رہے کہ وزارت داخلہ نے ججز کے خلاف سوشل میڈیا پر جاری مہم کا نوٹس لیتے ہوئے اس کی روک تھام کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دی تھی۔

یہ کمیٹی پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز (پیکا) ایکٹ 2016 کے سیکشن 30 (تفتیش کے اختیار سے متعلق) کے تحت تشکیل دی گئی تھی۔

ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے کی سربراہی میں قائم کی گئی چھ رکنی کمیٹی میں انٹر سروسز انٹیلی جنس، انٹیلی جنس بیورو، اسلام آباد پولیس کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے نمائندے اور کوئی ایک شریک رکن شامل ہیں۔

کمیٹی ججز کے خلاف سوشل میڈیا پر جاری مذموم مہم میں ملوث ذمہ داران کا تعین کرے گی اور ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے تجاویز بھی مرتب کرے گی۔

ایف آئی اے ہیڈ کوارٹر کو کمیٹی سیکرٹریٹ کے طور پر استعمال کیا جائے گا اور کمیٹی 15 روز میں اپنی رپورٹ وزارت داخلہ کو جمع کروائے گی۔

تبصرے (0) بند ہیں