سپریم کورٹ نے اعلٰی عدلیہ کے سابق ججز کے خلاف کارروائی نا کرنے کے فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کرتے ہوئے فریقین کو نوٹس جاری کر دیے ہیں۔

ڈان نیوز کے مطابق سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے کی ۔

دوران سماعت اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ وفاقی حکومت نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت انٹرا کورٹ اپیل دائر کی ہے۔

جسٹس جمال خان مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ کیا اپیل وزارت قانون کی جانب سے دائر کی گئی ہے؟ کیا اجازت لی گئی ہے؟ اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سیکریٹری قانون کا بیان حلفی لگایا گیا ہے، اس کیس کے فیصلے کے وقت وفاقی حکومت کو 27 اے کا نوٹس جاری نہیں کیا گیا تھا، سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق اٹارنی جنرل کو 27 اے کا نوٹس جاری کرنا لازمی تھا۔

جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ اگر آپ فریق نہیں تھے تو پہلے فریق بننے کی اجازت لینا ہوگی، اگر اپ فریق تھے تو پھر اپ 27 اے کے نوٹس کا مسئلہ اپیل میں اٹھا سکتے ہیں۔

جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت اس فیصلے سے کیسے متاثر ہو رہی ہے؟ جسٹس امین الدین خان نے دریافت کیا کہ کیا حکومت کا مسئلہ پینشن کی ادائیگی ہے؟

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ پینشن کی ادائیگی تو چھوٹا مسئلہ ہے۔

’ریٹائرڈ یا مستعفی جج کو عہدے سے کیسے ہٹایا جا سکتا ہے؟‘

جسٹس جمال مندوخیل نے مزید کہا کہ آئین واضح ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل جج کے خلاف کارروائی کرسکتی ہے، اگر شکایت درست نکلے تو جج کو عہدے سے برطرف کیا جاتا ہے لیکن ریٹائرڈ یا مستعفی جج کو عہدے سے کیسے ہٹایا جا سکتا ہے؟

اس پر جسٹس حسن اطہر رضوی نے کہا کہ جو شخص جج ہی نہیں رہا اس کے خلاف جوڈیشل کونسل کی کارروائی بے سود ہوگی۔

بعد ازاں عدالت نے فریقین کو جاری نوٹسز اپیل کے قابل سماعت ہونے سے مشروط قرار دیتے ہوئے سماعت 2 ہفتے کے لیے ملتوی کردی۔

یاد رہے کہ 24 جنوری کو وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے سامنے ایک انٹرا کورٹ اپیل دائر کی جس میں عافیہ شہربانو ضیا کے 2023 کے فیصلے کو اس بنیاد پر چیلنج کیا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 209 کو ریٹائرڈ یا مستعفی جج پر ناقابل عمل بنا کر سپریم جوڈیشل کونسل کو عملی طور پر بے کار کردیا گیا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں