وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) 22 فروری تک اپنی ویب سائٹ پر انتخابات سے متعلق اہم دستاویزات — فارم 45، 46 اور 47 — جاری کرنے کی اپنی ذمہ داری کو پورا کرنے کے حوالے سے بڑھتی نگرانی کی زد میں ہے جب کہ یہ اقدام انتخابات کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے اہم سمجھا جاتا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق الیکشنز ایکٹ 2017 کا سیکشن 95 ریٹرننگ افسران کو پابند کرتا ہے کہ وہ ووٹوں کو یکجا کرنے کے 24 گھنٹوں کے اندر جامع انتخابی نتائج الیکشن کمیشن میں جمع کرائیں، اس کے بعد الیکشن کمیشن کے پاس ان دستاویزات کو عوام کے لیے قابل رسائی بنانے کے لیے انتخابات کے بعد 14 دن کا وقت ہوتا ہے۔

مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے قانون سازوں نے الیکشن کمیشن پر زور دیا کہ وہ قانونی ڈیڈ لائن کو پورا کرے جب کہ الیکشن کمیشن کے ذرائع نے اصرار کیا کہ ایسا ہونے کا امکان نہیں ہے۔

جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے ڈان کو بتایا کہ قانونی تقاضے کو پورا کرنے میں الیکشن کمیشن کی ناکامی 8 فروری کے انتخابات کی قانونی حیثیت پر سوالیہ نشان لگا دے گی۔

انہوں نے خبردار کیا کہ فارم 45 کے ساتھ چھیڑ چھاڑکی کوشش ’سنگین غداری‘ ہوگی، تاہم انہوں نے اتفاق کیا کہ یہ پہلا موقع نہیں ہوگا کہ الیکشن کمیشن قانونی ڈیڈ لائن پوری کرنے میں ناکام ہوگا۔

نیشنل پارٹی کے سینیٹر طاہر بزنجو نے بھی مطالبہ کیا کہ قانونی تقاضے کو لازمی پورا کیا جانا چاہیے، الیکشن کمیشن کی جانب سے اہم دستاویزات بر وقت ویب سائٹ پر اپ لوڈ کرنے میں ناکامی انتخابی نتائج کے خلاف موجودہ تناؤ اور شکوک و شبہات کو مزید بڑھادی گی۔

تاخیر سے مزید نقصان ہوگا’

دوسری جانب آزاد انتخابی مبصر گروپ پٹن کولیشن 38، ایک نے بھی الیکشن کمیشن کو یاد دلایا کہ 22 فروری اہم دستاویزات اس کی ویب سائٹ پر شائع کرنے کی آخری تاریخ ہے۔

اپنے ایک بیان میں اس نے کہا کہ ’ہم انتہائی تشویش کے ساتھ نوٹ کرتے ہیں کہ اس سلسلے میں تاخیر سے پہلے ہی سخت جانچ پڑتال، تنقید اور دباؤ کے شکار الیکشن کمیشن کی ساکھ کو مزید نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے بلکہ اس سے انتخابی جمہوریت اور ریاستی اداروں پر عوامی اعتماد کو بھی شدید نقصان پہنچائے گا۔

الیکشن کمیشن ’ڈیڈ لائن پوری نہیں کرے گا‘

ادھر الیکشن کمیشن کے ایک سینئر عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ انتخابی نگران ادارے کی جانب سے آج (22 فروری جمعرات) کو دستاویزات اپنی ویب سائٹ پر رکھنے کا امکان نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ فارم 45 اور 47 کے درمیان فرق کے الزامات سے متعلق تقریباً 300 درخواستیں ہائی کورٹس نے الیکشن کمیشن کو ارسال کرتے ہوئے ان پر فیصلوں کی ٹائم لائن بھی طے کی ہیں۔

انہوں بتایا کہ بہت سے درخواست گزاروں کے پاس ایسے 45 فارم تھے جو جواب دہندگان کے پاس موجود فارم سے مختلف تھے، انہوں نے کہا کہ ان دستاویزات کی صداقت کی تصدیق میں کچھ وقت لگے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں