ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ نے رائے دی کہ ذوالفقار بھٹو کو فیئر ٹرائل کا موقع نہیں ملا۔

’ڈان نیوز‘ کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدارتی ریفرنس پر محفوظ رائے دی، اس موقع پر چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔

چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں 9 رکنی بینچ نے صدارتی ریفرنس پر کورٹ روم نمبر ون میں رائے دی، آغاز میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اچھی خبر ہے کہ لارجربینچ کی رائے متفقہ ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم ججز قانون کے مطابق فیصلہ کرنے اور ہر شخص کے ساتھ یکساں انصاف کے پابند ہیں، عدلیہ میں خود احتسابی ہونی چاہیے، ماضی کی غلطیوں کو درست کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔

عدالت کی جانب سے ریمارکس دیے گئے کہ تاریخ میں کچھ کیسز ہیں جنہوں نے تاثر قائم کیا عدلیہ نے ڈر اور خوف میں فیصلہ دیا، ماضی کی غلطیاں تسلیم کیے بغیر درست سمت میں آگے نہیں بڑھا جا سکتا۔

چیف جسٹس قاضی فائر عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا لاہور ہائی کورٹ میں ٹرائل فوجی آمر ضیا الحق کے دور میں ہوا، کسی حکومت نے پیپلزپارٹی کی حکومت کا بھیجا گیا ریفرنس واپس نہیں لیا، صدر نے ریفرنس دائر کرکے بھٹو فیصلے کو دیکھنا کا موقع دیا، صدر مملکت نے ریفرنس بھیجا جسے بعد کی حکومتوں نے واپس نہیں لیا۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ ریفرنس مں 5 سوالات اٹھائے گئے تھے، پہلا سوال یہ تھا کہ کیا ٹرائل آئین کے بنیادی انسانی حقوق کے مطابق تھا؟ رائے یہ ہے کہ ذوالفقار بھٹو کو فیئر ٹرائل کا موقع نہیں ملا، نہ ہی ٹرائل آئین اور قانون کے مطابق ہوا، اُن کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں ٹرائل اور سپریم کورٹ میں اپیل میں بنیادی حقوق کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ ذوالفقار علی بھٹو کا ٹرائل شفاف نہیں تھا، اُن کی سزا آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق کے مطابق نہیں تھی۔

چیف جسٹس قاضی فائر عیسیٰ نے مزید ریمارکس دیے کہ دوسرا سوال یہ تھا کہ کیا فیصلہ عدالتی نظیر ہوسکتا ہے؟ رائے یہ ہے کہ پوچھے گیا دوسرا سوال واضح نہیں اس لیے رائے نہیں دے سکتے، دوسرے سوال میں قانونی سوال نہیں اٹھایا گیا۔

انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ تیسرا سوال یہ تھا کہ کیا فیصلہ جانبدارانہ نہیں تھا؟ رائے یہ ہے کہ آئینی تقاضے پوری کیے بغیر ذوالفقار بھٹو کو سزا دی گئی۔

’فیصلہ تبدیل کرنے کا کوئی قانونی طریقہ کار موجود نہیں‘

سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی سزا کا فیصلہ تبدیل کرنے کا کوئی قانونی طریقہ کار موجود نہیں ہے، ‏آئین اور قانون ایسا مکینزم نہیں فراہم کرتا کہ بھٹو کیس کا فیصلہ اب کالعدم قراردیا جائے، ذوالفقار علی بھٹو کیس میں نظرثانی درخواست خارج ہو چکی، فیصلہ حتمی ہو چکا، ہماری رائے یہی ہے کہ بھٹو کو فئیر ٹرائل کا بنیادی حق نہیں ملا۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ چوتھا سوال سزا کا اسلامی اصولوں کے مطابق جائزہ لینے کا تھا، اسلامی اصولوں پر کسی فریق نے معاونت نہیں کی، اسلامی اصولوں کے مطابق فیصلہ ہونے یا نہ ہونے پر رائے نہیں دے سکتے۔

عدالت نے مزید ریمارکس دیے کہ پانچواں سوال یہ تھاکہ کیا شواہد سزا سنانے کے لیے کافی تھے؟ رائے یہ ہے کہ ذوالفقارعلی بھٹوکی سزا آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق کے مطابق نہیں تھی، ریفرنس میں مقدمہ کے شواہد کا جائزہ نہیں لے سکتے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ یہ مفاد عامہ کا معاملہ ہے، تفصیلی رائے بعد میں دی جائے گی۔

آج سپریم کورٹ نے تاریخی فیصلہ دیا، بلاول بھٹو

کمرہ عدالت میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کی جانب سے رائے سنانے جانے کے دوران بلاول بھٹو آبدیدہ ہوگئے۔

بعدازاں سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ آج سپریم کورٹ نے بھٹو صدارتی ریفرنس پر تاریخی فیصلہ دیا، ہم تفصیلی فیصلے کے منتظر ہیں، تفصیلی فیصلے کے بعد بھرپور بات کر سکوں گا۔

انہوں نے کہا کہ عدالت نے مانا کہ بھٹو کو فیئر ٹرائل نہیں ملا، عدالت نے کہا ماضی کی غلطیوں کو درست کرنے کےلیے فیصلہ سنارہےہیں، 44 سال بعد تاریخ درست ہورہی ہے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ سپریم کورٹ نے کیس میں متفقہ رائے دی ہے، متفقہ فیصلے پرجج صاحبان اور وکلا کا شکرگزار ہوں۔

انہوں نے کہا کہ اس فیصلے سے پاکستان میں جمہوری و عدالتی نظام مضبوط ہوگا، امید ہے فیصلے سے ہمارا نظام صحیح سمت میں آگے جائے گا۔

قبل ازیں 4 مارچ کو سپریم کورٹ میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس پر سماعت مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا گیا تھا۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ نے مقدمے کی سماعت کی تھی، بینچ میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحیی آفریدی، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی شامل تھے۔

دورانِ سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا تھا کہ کیا صدارتی ریفرنس میں مختصر رائے بھی دی جا سکتی ہے؟ جس پر پیپلزپارٹی کے وکیل رضا ربانی نے جواب دیا تھا کہ عدالت ایسا کر سکتی ہے، سپریم کورٹ مکمل انصاف کی فراہمی کیلئے آرٹیکل 187 کا استعمال کر سکتی ہے۔

پس منظر

یاد رہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری نے ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کے فیصلے کےخلاف اپریل 2011 میں ریفرنس دائر کیا تھا، صدارتی ریفرنس پر پہلی سماعت 2 جنوری 2012 کو ہوئی تھی جو اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 11 رکنی لارجر بینچ نے کی تھیں۔

تاہم حال ہی میں اس کیس کو دوبارہ سماعت کے لیے مقرر کیا گیا اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی زیر سربراہی 12 دسمبر کو 9 رکنی بینچ نے مقدمے کی دوبارہ سماعت کا آغاز کیا تھا۔

‏سابق وزیر اعظم ذوالفقار بھٹو سے متعلق صدارتی ریفرنس 5 سوالات پر مبنی ہے، صدارتی ریفرنس کا پہلا سوال یہ ہے کہ ذوالفقار بھٹو کے قتل کا ٹرائل آئین میں درج بنیادی انسانی حقوق مطابق تھا؟

دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا ذوالفقار بھٹو کو پھانسی کی سزا دینے کا سپریم کورٹ کا فیصلہ عدالتی نظیر کے طور پر سپریم کورٹ اور تمام ہائی کورٹس پر آرٹیکل 189 کے تحت لاگو ہوگا؟ اگر نہیں تو اس فیصلے کے نتائج کیا ہوں گے؟

تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنانا منصفانہ فیصلہ تھا؟ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنانے کا فیصلہ جانبدار نہیں تھا؟

چوتھے سوال میں پوچھا گیا ہے کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سنائی جانے والی سزائے موت قرآنی احکامات کی روشنی میں درست ہے؟

جبکہ پانچواں سوال یہ ہے کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف دیے گئے ثبوت اور گواہان کے بیانات ان کو سزا سنانے کے لیے کافی تھے؟

تبصرے (0) بند ہیں