• KHI: Fajr 5:45am Sunrise 7:07am
  • LHR: Fajr 5:25am Sunrise 6:52am
  • ISB: Fajr 5:33am Sunrise 7:02am
  • KHI: Fajr 5:45am Sunrise 7:07am
  • LHR: Fajr 5:25am Sunrise 6:52am
  • ISB: Fajr 5:33am Sunrise 7:02am

لاہور ہائیکورٹ کے ایک فیصلے سے الیکشن پھر ڈی ریل ہو سکتے تھے، چیف جسٹس

شائع March 8, 2024
قاضی فائز عیسی —فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
قاضی فائز عیسی —فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی نے کہا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے ایک فیصلے سے الیکشن پھر ڈی ریل ہو سکتے تھے۔

سپریم کورٹ کے جسٹس سردار طارق مسعود کی ریٹائرمنٹ پر فل کورٹ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ فوجی عدالتوں میں انٹرا کورٹ اپیلوں میں میری رائے ہے کہ جسٹس سردار طارق مسعود پر غیر ضروری اعتراض کیا گیا، جسٹس سردار طارق مسعود نے فوجی عدالتوں کے معاملہ پر اپنے نوٹ میں کوئی رائے نہیں دی تھی، جسٹس سردار طارق مسعود نے اعتراض ہونے پر بینچ میں بیٹھنے سے انکار کیا تھا۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے قاضی فائز عیسی نے بتایا کہ جسٹس سردار طارق مسعود نے پریکٹس پروسیجر کمیٹی میں بڑا اہم کردار ادا کیا، جسٹس سردار طارق کہتے تھے 40 سے 50 کیس میری عدالت میں لگا دیں، ان کی عدالت زیادہ فیصلے سنانے کے لیے ہی مشہور ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جسٹس سردار طارق مسعود لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بننے کے حقدار تھے، انہیں چیف جسٹس نہ بنا کر صوبے کا نقصان ہوا لیکن اس کا فائدہ سپریم کورٹ کو ہوا کیونکہ یہ سپریم کورٹ آگئے۔

انہوں نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کے ایک فیصلے سے الیکشن پھر ڈی ریل ہو سکتے تھے،ہم نے چھٹیوں پر جانے سے پہلے رات کو بیٹھ کر اس آرڈر کے خلاف کیس سنا، ہم تب وہ کیس تین سینئر ججز پر مشتمل بینچ بنا کر سننا چاہتے تھے۔

قاضی فائز عیسی نے کہا کہ جسٹس اعجاز الاحسن نے بیٹھنے سے انکار کردیا تھا، ہم نے ان کے بعد دوسرے سینئر جج کو ساتھ بٹھایا اور رات 12 بجے فیصلہ سنایا، ایسا نہ ہوتا تو صدرِ پاکستان اور الیکشن کمیشن کی دی تاریخ پر الیکشن ڈیل ریل ہوسکتے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ سپریم کورٹ میں ججز کی خالی اسامیوں کا احساس ہے، ججز کی تعیناتیوں کے حوالے سے رولز میں ترامیم پر غور ہو رہا ہے، وقت آ گیا ہے کہ ججز کی تقرری کے لیے جوڈیشل کمیشن کا الگ سیکریٹریٹ ہو۔

عدلیہ کی آزادی میں جج کا تمام طاقتور حلقوں سے بلاخوف ہونا شامل ہے، جسٹس سردار طارق مسعود

قبل ازیں جسٹس سردار طارق مسعود نے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ آئین پاکستان قانون کی حکمرانی اور اختیارات کی تقسیم کا اصول وضع کرتا ہے، آئین کے بنیادی اصولوں پر عمل کے لیے آزاد عدلیہ بہت ضروری ہے، آئین میں عدلیہ کی آزادی پر خصوصی توجہ دی گئی ہے، عدلیہ کی آزادی کا مطلب صرف انتظامیہ سے علیحدہ ہونا نہیں بلکہ عدلیہ کی آزادی میں جج کا تمام طاقتور حلقوں سے بلاخوف ہونا بھی شامل ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جج کی تعیناتی یا مدت ملازمت طاقتور حلقوں کی قبولیت پر منحصر ہو گی تو عدلیہ کی آزادی بے معنی جملہ بن کر رہ جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ میں تمام حاضرین کا تہہ دل سے مشکور ہوں، میں نے ابتدائی تعلیم ایسے اسکول سے حاصل کی جہاں بیٹھنے کو ٹاٹ تک میسر نہ تھے، بارش ہوتی تو ہمارے اسکول میں چھٹی ہو جاتی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ آج میرے عدالتی منصب کا آخری دن ہے مگر ایک نئی زندگی کا آغاز بھی ہے، میں پیشہ وارانہ امور کے باعث شریک حیات اور بچوں کو وقت نہیں دے پایا۔

جسٹس سردار طارق مسعود کا کہنا تھا کہ میری شریک حیات نے میرا بھرپور ساتھ دیا ، کبھی میری مصروفیات کا شکوہ نہیں کیا۔

انہوں نے بتایا کہ جہاں استغاثہ بنیادی ذمہ داری میں ناکام ہوئی میں نے ہمیشہ ملزم کو شک کا فائدہ پہنچایا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 10 دسمبر 2024
کارٹون : 9 دسمبر 2024