سپریم جوڈیشل کونسل نے مستعفی جج مظاہر علی نقوی کے خلاف ریفرنس پر 33 صفحات پر مشتمل اپنے تفصیلی فیصلے میں نتیجہ اخذ کیا ہے کہ سید مظاہر علی نقوی مسکنڈکٹ کے مرتکب قرار پائے گئے ہیں، انہیں جج کے عہدے سے ہٹا دیا جانا چاہیے تھا اور ان کے نام کے ساتھ اعزازی جسٹس یا جج کا لفظ استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق تفصیلی فیصلے میں بتایا گیا ہے کہ 5 ججوں پر مشتمل سپریم جوڈیشل کونسل کو سابق جج کی طرف سے مس کنڈکٹ کی متعدد مثالیں ملیں ہیں اور اس سے عدلیہ کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔

یاد رہے کہ مظاہر علی نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل کے آرٹیکل 209(6) کے تحت اپنے خلاف 9 شکایات پر کارروائی شروع کرنے سے ایک دن قبل ہی استعفیٰ دے دیا تھا مگر کونسل نے اپنی کارروائی جاری رکھنے کا فیصلہ کیا تھا، چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ اس غلط فہمی کو دور کرنا ضروری ہے کہ عدلیہ کا ادارہ قانون سے بالاتر ہے۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم جوڈیشل کونسل نے پاکستان بار کونسل (وکلا کی سب سے بڑی نگران تنظیم) کے ساتھ ساتھ چاروں صوبائی بار کونسلوں اور ایڈووکیٹ میاں داؤد کی کو سراہا تھا جنہوں نے قانون کی حکمرانی اور احتساب کے اصولوں کو برقرار رکھنے کے لیے شکایات درج کرائیں۔

مظاہر علی نقوی کے خلاف شکایت کنندگان کی طرف سے کم از کم 5 الزامات لگائے گئے تھے، سپریم جوڈیشل کونسل کا تفصیلی فیصلے میں کہنا تھا کہ ہم یہ نتیجہ اخذ کرنے میں مجبور ہیں کہ مظاہر علی نقوی نے ججوں کے ضابطہ اخلاق کی کئی شقوں کی خلاف ورزی کر کے اپنے عہدہ کے حلف کی خلاف ورزی کی ہے۔

کونسل نے وضاحت کی کہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مظاہر علی نقوی نقوی میں لالچ نہیں تھا، ان کا اپنے سرکاری اور نجی معاملات میں طرز عمل جج سے متوقع نامناسب رویے کے مطابق تھا اور اس طرح انہوں نے ضابطہ اخلاق کے آرٹیکل 2، 3 کی خلاف ورزی کی ہے، سپریم جوڈیشل کونسل کی رائے میں یہ واضح ہے کہ انہوں نے آرٹیکل 4 کی خلاف ورزی کی ہے کیونکہ ان کے اعمال ذاتی فائدے سے متاثر ہوئے تھے۔

فیصلے میں بتایا گیا کہ مظاہر علی نقوی چوہدری محمد شہباز کے دائر کردہ مقدمے میں اپنے ذاتی فائدے کے لیے ملوث تھے جن سے مظاہر علی نقوی نے لاہور کے 100 سینٹ جان پارک خریدے اور انہوں نے جان بوجھ کر شہباز اور ان کے بچوں کو ان کی کچھ قیمتی جائیداد سے محروم کر دیا تھا، اس طرح انہوں نے آرٹیکل 6 کی بھی خلاف ورزی کی۔

واضح رہے کہ آرٹیکل 6 کے مطابق جج کو جہاں تک ممکن ہو، اپنی طرف سے یا دوسروں کی طرف سے، قانونی چارہ جوئی میں یا ایسے معاملات میں ملوث ہونے سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے جو صنعت، تجارت یا لین دین جیسی قانونی کارروائی کا باعث بن سکتے ہیں۔

غیر مناسب فائدہ حاصل کرنے کے لیے اپنے عہدے کے اثر و رسوخ کو استعمال کرنا، چاہے وہ فوری ہو یا مستقبل میں، ایک سنگین غلطی ہے، جج کو نجی اداروں یا افراد پر مالی یا دیگر ذمہ داریاں عائد کرنے سے گریز کرنا چاہیے جو انہیں اپنے فرائض کی انجام دہی میں شرمندہ کر سکتے ہیں۔

کونسل کے فیصلے کے مطابق غیر واضح تحائف جس میں 5 کروڑ روپے ، بیٹوں کے لیے معمولی قیمت پر وصول کیے گئے دو کمرشل پلاٹ، دو رہائشی پلاٹس اور بیٹی کے لیے 5 ہزار پاؤنڈز حاصل کرکے مظاہر علی نقوی نے آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی کی ہے۔

سپریم جوڈیشل کونسل نے کہا کہ استغاثہ کے گواہ صفدر خان، ایک تاجر اور لاہور سمارٹ سٹی (پرائیویٹ) لمیٹڈ کے مالک زاہد رفیق نے کارروائی کے دوران مظاہر علی نقوی کی 100 سینٹ جانز پارک کی قیمت اور اسے حاصل کرنے کے لیے ڈویلپر ( لاہور سمارٹ سٹی) کی طرف سے 5 کروڑ روپے کی ادائیگی کا جواز پیش کرنے میں مدد کرنے کی پوری کوشش کی۔

مزید کہا کہ لیکن وہ یہ بتانے میں مکمل طور پر ناکام رہے، کیوں ایک رجسٹرڈ کمپنی نے نمایاں واجب الادا رقم کا تصفیہ کیا، جو مبینہ طور پر محمد صفدر سے قرض لی گئی تھی، اور انہیں ادا نہیں کی۔

سپریم جوڈیشل کونسل نے کہا کہ وہ گواہ صفدر خان اور زاہد رفیق دونوں کی شہادتوں پر اعتبار نہیں کریں گے جبکہ دوسری جانب مظاہر علی نقوی نے اس حوالے سے اپنے تحریری جواب میں کوئی معقول وجہ پیش نہیں کی اور گواہی دینے سے بھی گریز کیا۔

کونسل نے نوٹ کیا کہ اپنے جواب میں مظاہر علی نقوی نے یہ نہیں بتایا کہ ایک کمپنی نے 100 سینٹ جانز پارک خریدنے کے لیے اتنی بڑی رقم کیوں ادا کی تھی؟ انہوں نے مزید کہا کہ ایک جج کی جانب سے پراپرٹی ڈویلپر سے اتنی بڑی رقم قبول کرنا، جس نے دعویٰ کیا کہ وہ شاید ہی انہیں جانتا تھا، ملکیت کے حوالے سے بہت سنگین سوالات کو جنم دیتا ہے، کونسل کے مطابق چونکہ رقم کی ادائیگی کے لیے کوئی قابل عمل وضاحت سامنے نہیں آئی تھی، اس لیے سپریم جوڈیشل کونسل نے یہ فرض کیا کہ ایک جج کے لیے اتنی ناقابل فہم سخاوت اس امید کے ساتھ دی گئی تھی کہ اس کا بہت اچھا بدلہ دیا جائے گا۔

کونسل نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ مظاہر علی نقوی کو 16 مارچ 2020 کو سابق چیف جسٹس گلزار احمد نے عہدے کا حلف دیا اور دو سال سے بھی کم عرصے میں انہیں چار جائیدادیں ملیں، تین اسلام آباد اور ایک راولپنڈی میں۔

سپریم جوڈیشل کونسل نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ جن تنظیموں سے انہوں نے چار جائیدادیں حاصل کیں وہ اس کے اراکین کو رہائش فراہم کرنے کے لیے قائم کی گئی تھیں، مظاہر علی نقوی نے یہ وضاحت نہیں کی کہ انہوں نے جائیدادیں کیوں حاصل کیں؟ جب کہ وہ یقینی طور پر ان تمام مقامات میں رہائش پذیر بھی نہیں تھے۔

پسِ منظر

خیال رہے کہ 27 اکتوبر کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5 رکنی سپریم جوڈیشل کونسل نے اکثریتی بنیاد پر سپریم کورٹ کے اس کے وقت کے جج مظاہر علی اکبر نقوی کو مس کنڈکٹ کی شکایت پر شوکاز نوٹس جاری کیا تھا اور 14 روز میں جواب طلب کرلیا تھا۔

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم جوڈیشل کونسل میں جسٹس طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد امیر بھٹی اور بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نعیم اختر شامل ہیں۔

اجلاس کے بعد جاری اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف 10 شکایتیں جمع کرادی گئی تھیں اور کونسل نے دو کے مقابلے میں 3 کی اکثریتی رائے سے شوکاز نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس پر 14 روز میں انہیں جواب دینے کا کہا گیا ہے۔

سپریم جوڈیشل کونسل کے اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ اس فیصلے کی مخالفت کرنے والے ججوں نے کہا کہ انہیں سابق جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف شکایتوں کا جائزہ لینے کے لیے مزید وقت درکار ہے۔

11 نومبر کو جمع کرائے گئے ابتدائی جواب میں سابق جسٹس مظاہر نقوی نے جانبدارانہ اور متعصب رویے کی شکایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس طارق مسعود اور چیف جسٹس نعیم اختر کو خود کو بینچ سے الگ کر کے معاملے کی سماعت نہیں کرنی چاہیے۔

20 نومبر کو سابق جسٹس مظاہر نقوی نے اپنے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کا سامنا کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور جوڈیشل کونسل کی جانب سے جاری کردہ شوکاز نوٹس کو بھی چیلنج کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ کارروائی کا آغاز غیرعدالتی اور کسی قانونی اختیار کے بغیر تھا۔

اس کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل نے سابق جسٹس مظاہر کو ایک نیا شوکاز نوٹس جاری کر کے پندرہ دن کے اندر جواب داخل اور اپنا دفاع کرنے کی ہدایت کی تھی۔

4 دسمبر کو سابق جسٹس مظاہر نے ایک بار پھر سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا اور پہلے سے دائر آئینی پٹیشن کی پیروی کا ارادہ ظاہر کرتے ہوئے سپریم کورٹ کی جانب سے جاری کردہ نظرثانی شدہ شوکاز نوٹس کو رد کرنے کی کوشش کی تھی۔

6 دسمبر کو انہوں نے سپریم کورٹ کے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ، 2023 میں درج مقررہ وقت گزر جانے کے باوجود شوکاز نوٹس کے اجرا کو چیلنج کرنے والی اپنی درخواستوں پر خاموشی اختیار کرنے کی جانب تین سینئر ترین ججوں پر مشتمل سپریم کورٹ کی کمیٹی کی توجہ مبذول کرائی تھی۔

13 دسمبر کو جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی نے چیف جسٹس آف پاکستان اور سپریم کورٹ کے دیگر تمام ججوں کے نام ایک کھلے خط میں کہا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے مجھ سے روا رکھا گیا سلوک توہین آمیز ہے۔

یاد رہے کہ 2020 میں سپریم کورٹ کے جج بننے والے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کا نام ایک مبینہ آڈیو لیک میں سامنے آنے کے بعد ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) میں پاکستان بار کونسل سمیت دیگر کی جانب سے مس کنڈکٹ کے الزام پر متعدد شکایتی درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔

مسلم لیگ (ن) لائرز فورم پنجاب کی جانب سے جمع کرائی گئی درخواست میں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی پر ججوں کے ضابطہ اخلاق کی سنگین خلاف ورزیوں کا الزام لگایا گیا تھا۔

اسی طرح سے لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل میاں داؤد نے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کر کے ان کے اثاثوں کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔

ریفرنس میں کہا گیا تھا کہ جج نے اپنے بیٹوں اور بیٹی کی بیرون ملک تعلیم اور ایک تاجر زاہد رفیق سے ’مالی فائدہ‘ حاصل کرنے کے لیے اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کیا، ’جج، پی ٹی آئی اور اس کے قائد عمران خان کے ساتھ اپنے تعلقات کو کھلے عام ظاہر کرتے ہیں‘، وہ اپنی ذاتی رنجشوں کی وجہ سے دوسری سیاسی جماعتوں کے خلاف خطرناک ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔

اس کے بعد قومی اسمبلی نے آمدن سے زائد اثاثے رکھنے کے الزامات کا سامنا کرنے والے جسٹس مظاہر علی نقوی کا کیس پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو بھجوا دیا تھا۔

سپریم کورٹ میں شکایات جمع ہونے پر سپریم جوڈیشل کونسل کے اس وقت کے سربراہ اور سابق چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے جسٹس سردار طارق مسعود سے رائے طلب کی تھی۔

جسٹس مظاہر علی نقوی نے اس سے قبل سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے نام خط میں اپنے خلاف ہونے والی کارروائی کو بدنیتی پر مبنی مہم قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ میرے خلاف فضول اور غیر سنجیدہ شکایات درج کی گئی ہیں جو عدلیہ کے خلاف بدنیتی پر مبنی مہم کا حصہ ہیں۔

سپریم کورٹ کے جج نے لکھا تھا کہ الزام لگایا گیا ہے کہ جائیداد ریونیو ریکارڈ اور انکم ٹیکس گوشواروں میں ظاہر کی گئی قیمت کے مقابلے میں قیمت سے زیادہ ہے۔

جسٹس مظاہر علی نقوی نے کہا تھا کہ دنیا کی عدالتیں صدیوں سے اس بنیادی اصول پر کام کر رہی ہیں کہ انصاف نہ صرف ہونا چاہیے بلکہ ہوتا ہوا بھی نظر آنا چاہیے لیکن بدقسمتی سے افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ مجھے میرے معاملے میں ایسا نظر نہیں آتا۔

تبصرے (0) بند ہیں