افغانستان کی عبوری حکومت کے ترجمان نے کہا ہے کہ پاکستانی سرحد سے متصل افغانستان کے صوبہ پکتیکا اور خوست میں فضائی حملے کیے گئے ہیں جس میں 8 فراد ہلاک ہوگئے ہیں۔

افغان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں الزام لگایا کہ پاکستانی طیاروں نے افغان سرزمین پر فضائی حملہ کیا، تاہم پاکستانی دفتر خارجہ اور انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) نے ابھی تک اس پر کوئی آفیشل بیان جاری نہیں کیا۔

ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے دعویٰ کیا کہ ہلاک ہونے والے تمام 8 افراد خواتین اور بچے تھے، انہوں نے کہا کہ ’رات کو تقریباً 3 بجے پاکستانی طیاروں نے اپنی سرحد کے قریب افغان صوبے خوست اور پکتیکا میں شہری آبادی کو نشانہ بنایا ہے۔‘

ذبیح اللہ مجاہد نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ طیاروں نے پکتیکا کے برمل ضلع میں لامان کے علاقے اور خوست کے سپیرا ضلع میں افغان دبئی کے علاقے پر بمباری کی۔

افغان ترجمان نے الزام لگایا کہ عام شہریوں کے گھروں کو نشانہ بنایا گیا ہے، انہوں نے کہا کہ پکتیکا میں 3 خواتین اور 3 بچے مارے گئے ہیں اور ایک گھر منہدم ہوا جبکہ صوبہ خوست میں 2 خواتین خوست میں چل بسیں اور ایک گھر بھی تباہ ہوا۔

یہ واقعہ ایسے وقت میں ہوئے ہیں جب اس واقعے سے ایک روز قبل صدر آصف علی زرداری نے 16 مارچ کو شمالی وزیرستان میں سیکیورٹی فورسز کی ایک چوکی پر دہشت گردانہ حملے میں 2 افسران سمیت 7 فوجیوں کی شہادت کے بعد جوابی کارروائی کے عزم کا اظہار کیا تھا۔

پاک فوج کے افسران کی نماز جنازہ میں شرکت کرنے کے بعد میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ شہداء کا خون رائیگاں نہیں جائے گا، ملک میں دہشت گردی کرنے والوں کو منہ توڑ جواب دیں گے، پاکستانی سرزمین پر اگر کسی نے حملہ کیا تو جوابی حملہ کرنے سے دریغ نہیں کریں گے۔

شمالی وزیرستان میں ہونے والے حملے کی ذمہ داری حافظ گل بہادر گروپ نے قبول کی تھی، سیکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ گل بہادر گروپ کے جنگجو افغان سرحد سے کام کرتے ہیں جن میں سے زیادہ تر خوست سے ہیں۔

واضح رہے کہ صوبہ پکتیکا پاکستان کے جنوبی وزیرستان ضلع کے قریب واقع ہے جبکہ خوست شمالی وزیرستان کے قریب واقع ہے۔

افغان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے ایکس اکاؤنٹ پر پوسٹ کیے گئے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ ’پاکستانی کا مؤقف ہے کہ حملوں میں عبداللہ شاہ کو نشانہ بنایا گیا تھا لیکن وہ پاکستانی میں رہتے ہیں، ایک ہی قبیلے کے لوگ سرحد کے دونوں طرف رہتے ہیں اور اکثر سرحد کے دونوں جانب سفر کرتے ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’امارت اسلامیہ ان حملوں کی شدید مذمت کرتی ہے اور انہیں غیر سنجیدہ ایکشن اور افغانستان کی سرزمین کی خلاف ورزی قرار دیتی ہے۔‘

ترجمان نے مزید کہا کہ پاکستان کو اپنے مسائل اور پرتشدد واقعات پر قابو پانے میں ناکامی کا الزام افغانستان پر نہیں لگانا چاہیے، اس طرح کی کارروائیاں سنگین نتائج کا باعث بن سکتی ہیں جنہیں پاکستان کنٹرول نہیں کرسکتا۔

کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے بھی ان حملوں کی تصدیق کی ہے۔

یہ حملے حالیہ دنوں میں پاکستان اور افغان طالبان کے حکمرانوں کے درمیان بڑھتے ہوئے رابطوں کے درمیان ہوئے ہیں۔

یاد رہے کہ کابل میں پاکستانی ناظم الامور نے گزشتہ ہفتے قندھار کا سفر کیا تاکہ جنوبی قندھار کے طالبان گورنر ملا شیرین اخوند سے ملاقات کی جا سکے جو طالبان کے سربراہ کے قریبی ساتھیوں میں سے ایک ہیں۔

شہیدوں کے خون کا بدلہ لیا ہے، سابق وزیر بلوچستان

بلوچستان کے سابق نگراں وزیر اطلاعات جان اچکزئی نے کہا کہ ’پاکستان نے شہداء کے خون کا بدلہ لیا ہے اور سرحد کے قریب دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کو نشانہ بنایا ہے۔‘

ایکس پر ایک پوسٹ میں انہوں نے کہا کہ ’اگر پاکستان میں کوئی دہشت گرد حملہ ہوا تو ہم افغانستان کو اس کا بھرپور جواب دیں گے، یاد رکھیں ایک پاکستانی کی جان ہمارے لیے پورے افغانستان سے زیادہ قیمتی ہے۔‘

سابق نگراں وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے شمالی وزیرستان حملے میں شہید ہونے والے فوجیوں کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہوئے کہا کہ فوج افغانستان سے پیدا ہونے والی دہشت گردی کی شیطانی قوتوں سے لڑ رہی ہے، اس بزدلانہ دہشت گردی کے حملے کا بدلہ لیا جائے گا۔’

افغان صحافی بلال سروری نے ان حملوں کو پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں ایک ’سنگین باب‘ قرار دیا۔

بلال سروری (جو اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد افغانستان سے فرار ہو گئے تھے) نے ایکس پر لکھا کہ نئی پاکستانی حکومت اور افغان طالبان کے درمیان تعلقات سنگین نوعیت پر پہنچ گئے ہیں، پاکستان کو اب طالبان پر اپنی سرمایہ کاری پر افسوس کرنا چاہیے۔

کرم میں سرحد پار جھڑپوں میں ایک اہلکار شہید، 2 زخمی

دوسری جانب خیبر پختونخوا کے ضلع کرم کے علاقے پاراچنار میں سرحد پار جھڑپوں میں ایک اہلکار شہید، 2 زخمی ہوگئے ہیں۔

کرم ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او) مظہر جہاں نے ڈان ڈاٹ کام کو ہلاکتوں کی تصدیق کرتے ہوئے مزید کہا کہ سرحد پار سے فائرنگ جاری ہے۔

انہوں نے کہا کہ سیکورٹی فورسز ’ہائی الرٹ‘ پر ہیں جبکہ مقامی قبائلی رہنما بھی فورسز کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں، ڈی پی او نے مزید کہا کہ تمام ہسپتالوں پر ایمرجنسی نافذ کر دی گئی۔

طوری بنگش قبیلے کے بزرگ جلال بنگش نے ’افغانستان سے ہونے والے بے بنیاد حملے‘ کی مذمت کی۔

انہوں نے کہا کہ مستقبل میں پاکستانی سرزمین پر ایسے حملوں سے گریز کیا جائے۔

یاد رہے کہ دو روز قبل افغانستان میں پاکستان کے خصوصی نمائندے آصف درانی نے کہا تھا کہ پاکستان کے پاس شواہد ہیں کہ ٹی ٹی پی کو افغان پراکسیز کے ذریعے بھارت سے پیسے مل رہے ہیں، اندازے کے مطابق ٹی ٹی پی کے 5 ہزار سے 6 ہزار عسکریت پسندوں نے افغانستان میں پناہ لے رکھی ہے۔

انہوں نے اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک کے زیر اہتمام ایک پروگرام میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر ہم ان کی فیملیز کو شامل کریں تو یہ تعداد 70 ہزار تک پہنچ جائے گی‘۔

گزشتہ سال جنوری میں دفتر خارجہ نے ان رپورٹس کو واضح طور پر مسترد کر دیا تھا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ پاکستان نے افغانستان کے صوبہ ننگرہار میں فضائی حملہ کیا تھا۔

اس کےعلاوہ اس سال کے شروع میں ایران نے پاکستان میں حملے کیے تھے۔

یہ حملے ایران کے پاکستانی سرزمین پر کیے گئے حملوں کے نتیجے میں ہوئے تھے جہاں ایرانی فورسز کی جانب سے پاکستان کے صوبے بلوچستان میں شدت پسند گروہ ’جیش العدل‘ کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔

ایرانی حملے کے نتیجے میں پاکستان کی جانب سے جوابی حملے کیے گئے تھے۔

کشیدگی کو کم کرنے اور سفارتی تعلقات بحال کرنے سے قبل دونوں ممالک کے درمیان تعلقات دوبارہ خراب ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں