طالبان کی ملک میں موجودگی کا دعویٰ، بیرسٹر سیف کا خواجہ آصف سے مستعفی ہونے کا مطالبہ

بیرسٹر سیف نے خواجہ آصف سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا— فائل فوٹوز: ڈان نیوز/ اے ایف پی
بیرسٹر سیف نے خواجہ آصف سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا— فائل فوٹوز: ڈان نیوز/ اے ایف پی

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے معاون خصوصی اور طالبان مذاکرات کا حصہ رہنے والے بیرسٹر سیف نے ملک میں طالبان کی موجودگی کے وزیر دفاع خواجہ آصف کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔

بیرسٹر سیف نے ڈان نیوز کے پروگرام ’دوسرا رخ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے پاکستان میں طالبان کی پاکستان میں موجودگی کے تاثر کو مسترد کردیا۔

انہوں نے کہا کہ خواجہ آصف میں جرات ہے تو وہ جنرل باجوہ اور جنرل فیض کو پارلیمنٹ بلاکر دکھائیں، اگر بلانے کا شوق ہے تو بسم اللہ، بلائیں، پھر دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جنرل باجوہ اور جنرل فیض نے جواب دیا تو خواجہ آصف کو منہ چھپانے کی جگہ نہیں ملے گی۔

تحریک انصاف کے رہنما نے کہا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کا فیصلہ ریاست کا فیصلہ تھا، جنرل قمر جاوید باجوہ اور جنرل فیض حمید نے اپنے کسی رشتے دار کی شادی میں شرکت کے لیے تو طالبان کو بلانے کے لیے افغانستان کے ساتھ مذاکرات نہیں کیے تھے۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ مذاکرات کے نتیجے میں طالبان کو پاکستان آنے کی اجازت نہیں دی گئی، طالبان کو پاکستان میں آنے کی اجازت دینا جھوٹ اور بے بنیاد بات ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ خواجہ آصف کسی ایک طالب کا نام بتائیں جو پاکستان میں موجود ہے، کسی ایک طالب کا نام اور ایڈریس تو بتا دے کہ وہ فلاں جگہ پر بیٹھا ہے، انہیں طالبان کی پاکستان میں موجودگی سے متعلق بیان پر مستعفی ہوجانا چاہیے۔

بیرسٹر سیف نے وفاق کے ساتھ مل کر چلنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے وفاق کے ساتھ مل کر چلنا ہے اس میں کوئی دوسری رائے نہیں۔

انہوں نے کہا کہ وفاق کسی سیاسی جماعت نہیں بلکہ عوام کا ہے اور تمام تر تحفظات کے باوجود ہم نے وفاق کے ساتھ تعلق رکھنا ہے۔

وزیر دفاع بھی اگر اپنا دفاع نہیں کر سکے پھر تو اللہ ہی حافظ ہے، فیصل کریم کنڈی

دوسری جانب پیپلز پارٹی کے رہنما فیصل کریم کنڈی نے خواجہ آصف کو دھمکیاں موصول ہونے کے بیان پر حیرت کا اظہار کیا ہے۔

ڈان نیوز کے پروگرام دوسرا رخ میں گفتگو کرتے ہوئے فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ اگر وزیر دفاع بھی کہے کہ مجھے دھمکیاں دی جا رہی ہیں، وزیر دفاع ‪بھی اگر اپنا دفاع نہیں کر سکے پھر تو اللہ ہی حافظ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ خواجہ آصف سمجھتے ہیں کہ جنرل باجوہ اور جنرل فیض کو بلانا چاہیے تو وہ حکومت کا حصہ ہیں، وہ وزیراعظم اور کابینہ سے بات کر کے فیصلہ کریں۔

گزشتہ دنوں خواجہ آصف نے نجی ٹی وی سے پروگرام کے دوران انکشاف کیا تھا کہ طالبان کو ملک میں لانے پر جب میں نے جنرل باجوہ اور جنرل فیض کو پارلیمنٹ میں بلانے کی بات کی تو مجھے دھمکیاں دی گئی ہیں کہ آپ کو اس کے نتائج بھگتنا ہوں گے۔

اس حوالے سے پاکستان تحریک انصاف نے بھی دھمکیاں ملنے کی مذمت کرتے ہوئے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر پیغام میں کہا تھا کہ خواجہ آصف چاہے ناجائز مینڈیٹ پر ایم این اے بنا ہو لیکن جنرل (ر) باجوہ کی جانب سے ملک کے وزیر دفاع کو دھمکیاں دینے کی ہم پرزور مذمت کرتے ہیں۔

واضح رہے کہ گزشتہ دنوں پریس کانفرنس کے دوران وزیر دفاع نے ملک میں طالبان کی واپسی اور بڑھتی دہشت گردی کا ذمے دار بانی پی ٹی آئی، سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کو قرار دیا تھا۔

انہوں نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ دہشت گردی کا میاں نواز شریف کے دور میں خاتمہ ہو گیا تھا لیکن سب سے بڑی کوتاہی اس وقت ہوئی جب عمران خان نے اپنے آخری چند مہینوں میں ہزاروں کی تعداد میں دہشت گردوں کو آنے دیا، اس میں ایک شخص مسلم تھا جس کو سوات کا قصائی کہتے تھے، اس کو انہوں نے معافی تھی، اس کے علاوہ بھی ایک بندے کو معافی دی، جن کے ہاتھوں پر سینکڑوں بندوں کا خون تھا ان کو معافی دے دی۔

وزیر دفاع نے کہا تھا کہ اسمبلی میں جنرل باجوہ اور جنرل فیض نے آ کر بریفنگ دی کہ جو بندے آئے ہیں وہ ٹھیک آئے ہیں، میں اس بریفنگ میں شامل تھا، عمران خان کی حکومت تھی ، وہاں باقی پی ٹی آئی بیٹھی تھی اور وہ اس بات کو بہت بڑی کامیابی سمجھتے تھے، یہ ساری دہشت گردی وہ لے کر آئے ہیں۔

خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ اس وقت سوات، شمالی و جنوبی وزیرستان، چترال یا وانا میں جو بھی دہشت گرد ہیں وہ تحریک انصاف لے کر آئی ہے، انہوں نے ان دہشت گردوں کو معافی دی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ پی ٹی آئی والوں نے نے دہشت گرد اپنی سیکنڈ ڈیفنس لائن رکھی ہوئی ہے ، یہ ان کی دفاعی لائن ہے، ان ہزاروں لوگوں کو کون لایا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں