اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججوں کے خط کے معاملے پر 300 سے زیادہ وکلا نے سپریم کورٹ سے آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت انٹیلی جنس اپریٹس کی جانب سے عدالتی امور میں مداخلت کرنے کے الزامات کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا۔

اتوار کو جاری بیان میں ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے زیر قیادت کوئی بھی کمیشن ان الزامات کی تحقیقات کو ضروری آزادی اور اختیارات سے محروم کردے گا۔

آئین کا آرٹیکل 184(3) سپریم کورٹ کے اصل دائرہ اختیار کا تعین کرتا ہے اور اسے پاکستان کے شہریوں کے بنیادی حقوق کے نفاذ کے حوالے سے عوامی اہمیت کے حامل معاملات میں سپریم کورٹ کو دائرہ اختیار استعمال کرنے کے قابل بناتا ہے۔

واضح رہے کہ 27 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز نے ججز کے کام میں خفیہ ایجنسیوں کی مبینہ مداخلت اور دباؤ میں لانے سے متعلق سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھا تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس سمن رفت امتیاز کی جانب سے لکھا گیا۔

اس کے ایک دن بعد، مختلف حلقوں سے اس کی تحقیقات کے لیے کالز سامنے آئیں، جس کے درمیان چیف جسٹس آف پاکستان (سی جے پی) قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ کے ججز کا فل کورٹ اجلاس طلب کیا۔

جمعرات کو وزیر اعظم شہباز شریف نے چیف جسٹس عیسیٰ سے ملاقات کی، جہاں دونوں نے کابینہ کی منظوری کے بعد عدالتی امور میں مداخلت کے خدشات کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے کا فیصلہ کیا۔

30 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے الزامات پر ایک رکنی انکوائری کمیشن بنانے کی منظوری دے دی گئی، جسٹس (ر) تصدق جیلانی کو کمیشن کا سربراہ مقرر کر دیا گیا۔

وفاقی کابینہ نے انکوائری کمیشن کی شرائط کار (ٹی اوآرز) کی بھی منظوری دی، ٹی او آرز کے مطابق انکوائری کمیشن معزز جج صاحبان کے خط میں عائد کردہ الزامات کی مکمل چھان بین کرے گا اور تعین کرے گا کہ یہ الزامات درست ہیں یا نہیں۔ انکوائری کمیشن تعین کرے گا کہ کوئی اہلکار براہ راست مداخلت میں ملوث تھا؟

کمیشن اپنی تحقیق میں سامنے آنے والے حقائق کی بنیاد پر کسی ایجنسی، محکمے یا حکومتی ادارے کے خلاف کارروائی تجویز کرے گا۔ کمیشن کو یہ بھی اختیار ہوگا کہ وہ انکوائری کے دوران ضروری سمجھے تو کسی اور معاملے کی بھی جانچ کرسکے گا۔

تاہم آج ملک بھر سے 300 سے زائد وکلا بشمول ایمان زینب مزاری حاضر، زینب جنجوعہ، عبدالمعیز جعفری، سلمان اکرم راجا، تیمور ملک اور سابق چیف جسٹس اور کمیشن کے سربراہ تصدق جیلانی کے صاحبزادے ثاقب جیلانی نے ایک عوامی بیان جاری کیا۔

مکمل بیان مزاری حاضر اور زینب جنجوعہ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر بھی شیئر کیا۔

اس میں کہا گیا ہے کہ جن تمام لوگوں نے اس پر دستخط کیے انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کے الزامات کی روشنی میں قانون کی حکمرانی، عدلیہ کی آزادی اور انصاف تک رسائی کے لیے ہماری غیر متزلزل عزم اور پوری دلی حمایت کا اظہار کرنے کے لیے بیان جاری کیا۔

ہم اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن، اسلام آباد بار ایسوسی ایشن، سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن، پاکستان بار کونسل، خیبرپختونخوا بار کونسل اور بلوچستان بار کونسل کی طرف سے منظور کی گئی قراردادوں کی اس حد تک توثیق کرتے ہیں کہ وہ عدلیہ کی آزادی کو برقرار رکھنے کا عزم ظاہر کرتی ہیں اور ہائی کورٹ کے 6 ججوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے ان کے جرأت مندانہ اقدام کو سراہتے ہیں اور ایسے اصولوں کو برقرار رکھنے کے لیے مناسب کارروائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔

بیان میں کہا گیا کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب اس طرح کے الزامات لگائے گئے ہوں، جسٹس (ریٹائرڈ) شوکت عزیز صدیقی نے اسی طرح کے الزامات لگائے تھے اور اس کے نتیجے میں اور انہیں بغیر رسمی کارروائی کیے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔

سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے مقدمے پر سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے بیان میں بتایا گیا کہ یہ پاکستان میں عدلیہ کے تاریخی کردار پر فرد جرم تھا اور یہ اس حد تک قابل ستائش ہے کہ اس میں اعتراف کیا گیا ہے کہ عدلیہ کی آزادی کے بارے میں عوامی تاثر متعصبانہ رہا ہے۔

اس میں مزید کہا گیا کہ شوکت عزیز کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے نے سابق جج کو بری کردیا۔

بیان میں بتایا گیا کہ تاہم ان میں سے کوئی بھی فیصلہ متاثرین کو انصاف فراہم کرنے کے قابل نہیں، درحقیقت، ماضی کی غلطیوں کا اعتراف ایک قابل تعریف قدم ہے، تاہم اب وقت آگیا ہے کہ اصلاحات کے لیے ٹھوس اقدامات کی طرف بڑھا جائے، اس معاملے میں فوری اور شفاف طریقے سے کام کرنے میں ناکامی سے عدلیہ کی آزادی پر عوام کے اعتماد کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔

بیان کے مطابق جب ججز کو منظم طریقے سے ڈرایا جاتا ہے تو پورا نظام عدل ایک دھوکا بن جاتا ہے اور اپنی ساکھ کھو دیتا ہے، انصاف کے متلاشی وکلا عدالتوں کے سامنے قانونی چارہ جوئی اس امید کے ساتھ کرتے ہیں کہ ان کی سماعت غیر جانبدار ثالث سنے گا جو انصاف کی فراہمی کے خواہاں ہوں گے، اگر جج بغیر کسی خوف کے انصاف فراہم کرنے میں آزاد نہیں ہیں تو پھر وکلا سمیت پورا قانونی نظام کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔

بیان میں پاکستان بار کونسل اور تمام بار ایسوسی ایشنز پر زور دیا گیا کہ وہ عدلیہ کی آزادی کو مستحکم کرنے اور اجتماعی لائحہ عمل طے کرنے کے لیے فوری بنیادوں پر وکلا کنونشن بلائیں۔

بیان میں عدالت عظمیٰ سے یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ وہ آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت اس معاملے کا اپنے دائرہ اختیار میں نوٹس لے کیونکہ یہ مسئلہ عوامی مفادات اور بنیادی حقوق کے نفاذ سے متعلق ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ اس معاملے سے عوام کے سامنے شفاف طریقے سے نمٹا جانا چاہیے کیونکہ یہ عدلیہ کی آزادی پر عوام کا اعتماد ہے جسے بحال کرنے کی ضرورت ہے۔

بیان میں بتایا گیا کہ شفافیت اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ اس معاملے کو سیاست زدہ نہ کیا جائے، ہم سپریم کورٹ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ تمام دستیاب ججوں پر مشتمل ایک بینچ تشکیل دے جو اس معاملے کی سماعت کرے اور کارروائی کو عوام کے لیے براہ راست نشر کیا جائے۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اس طرح کی کارروائی کا دائرہ محدود نہیں ہونا چاہیے اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے خط میں لگائے گئے الزامات کے ساتھ ساتھ سابق جسٹس شوکت صدیقی کی طرف سے لگائے گئے الزامات کی بھی انکوائری ہونی چاہیے۔

اس کارروائی میں اگر ثابت ہو تو ایگزیکٹیو اہلکاروں کی طرف سے کی گئی خلاف ورزیوں کی ذمہ داری بھی عائد کرنی چاہیے اور عدلیہ کی آزادی کو محفوظ بنانے اور عدلیہ کے ادارے پر عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لیے ذمہ داروں کو جوابدہ بھی ٹھہرایا جانا چاہیے۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ بدھ کی فل کورٹ میٹنگ کے بعد سپریم کورٹ کی جانب سے جاری ہونے والی پریس ریلیز میں کہا گیا کہ اس بات پر اتفاق رائے ہوا کہ چیف جسٹس وزیراعظم سے ملاقات کریں گے، لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ انکوائری کمیشن کی تشکیل پر اتفاق رائے ہو گیا ہے۔

بیان کے مطابق وکلا نے اس طرز عمل پر اپنے گہرے عدم اطمینان اور مایوسی کا اظہار کیا جو کہ خود عدلیہ کی آزادی کے اصول کے خلاف ہے۔

بیان میں روشنی ڈالی گئی کہ انکوائری کمیشن کو تحقیقات کرنےکے لیے وفاقی حکومت کی طرف سے مطلع کردہ ٹی او آرز کے مطابق کام کرنا ہوگا، مزید یہ کہ انکوائری کا ٹائم فریم اور رپورٹ کو پبلک کیا جائے گا یا نہیں یہ اختیار بھی حکومت کے پاس ہے۔

اس میں کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت کو دیے گئے اس طرح کے اختیارات کے پیش نظر، انکوائری کمیشن عدلیہ کی آزادی پر عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لیے ضروری آزادی اور اختیارات سے محروم ہو جائے گا۔

اس کے مطابق، وفاقی حکومت کے دائرہ اختیار میں کی جانے والی انکوائری ان اصولوں کی خلاف ورزی کرتی ہے جن کا تحفط یہ انکوائری کرنے کی کوشش کر رہی ہے، ہم نوٹ کرتے ہیں کہ اس طرح کا کوئی بھی انکوائری کمیشن اور اس کی کارروائی مکمل طور پر ساکھ کو متاثر کرے گی۔

بیان میں سپریم کورٹ پر زور دیا گیا کہ وہ گائیڈ لائنز مرتب کرے اور سپریم کورٹ تمام ہائی کورٹس کے ساتھ مل کر شفاف ادارہ جاتی میکانزم قائم کرے تاکہ عدلیہ کی آزادی کو مجروح کرنے کی کسی بھی کوشش کی اطلاع دی جا سکے اور اس سے مؤثر اور شفاف طریقے سے نمٹا جا سکے تاکہ مستقبل میں کوئی بھی عدلیہ کی آزادی پر اعتراض نہ کرے۔

8 فروری کے انتخابات میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار اور دستخط کنندگان میں سے ایک بیرسٹر ملک نے کہا کہ تصدق جیلانی کے بیٹے ثاقب جیلانی عوامی بیان پر دستخط کرنے والے پہلے فرد تھے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر ان کا کہنا تھا کہ سابق چیف جسٹس تصدق جیلانی کے بیٹے ثاقب جیلانی اور میں ایک ساتھ پلے بڑھے ہیں، اب ہم سیاست پر ایک دوسرے سے سخت اختلاف کرتے ہیں لیکن ہم قانونی اصلاحات اور عدلیہ کی حقیقی آزادی کو یقینی بنانے کی ضرورت پر متفق ہیں۔

خط

اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کی جانب سے جاری خط میں کہا گیا ہے کہ ہم بطور اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز سپریم جوڈیشل کونسل سے ایگزیکٹیو ممبران بشمول خفیہ ایجنسیوں کے ججز کے کام میں مداخلت اور ججز کو دباؤ میں لانے سے متعلق رہنمائی چاہتے ہیں۔

خط میں کہا گیا ہے کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے نتیجے میں سامنے آیا جس میں سپریم کورٹ کی جانب سے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی سال 2018 میں برطرفی کو غلط اور غیر قانونی قرار دیا گیا اور کہا کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو ریٹائرڈ تصور کیا جائے گا۔

سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو اس وقت برطرف کر دیا گیا تھا جب ان کی جانب سے یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں بینچز کی تشکیل اور احتساب عدالت اسلام آباد میں مقدمات کے ٹرائل میں مداخلت کرتے ہیں۔

خط کے مطابق ان الزامات کے بعد اس وقت کی وفاقی حکومت اور آرمی چیف کی جانب سے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف شکایات دائر کی گئی تھیں۔

اس میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے اپنے حالیہ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی جج کو سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے تحقیقات کیے بغیر برطرف نہیں کیا جا سکتا، سپریم کورٹ نے اپنے حالیہ فیصلے میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی برترفی کو بدنیتی پر مبنی قرار دیا ہے۔

خط کے مطابق سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے سے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے موقف کی جیت ہوئی ہے تاہم غیر قانونی برطرفی کا ازالہ ممکن نہیں، کیا اس وقت واقعی خفیہ ایجنسی کے اہلکار عدالتی معاملات میں مداخلت کر رہے تھے؟ اس کا جواب نہیں مل سکا ہے، اگر خفیہ ایجنسی کے اہلکار واقعی عدلیہ کی آزادی کو مجروح کرنے میں ملوث تھے تو کیسے ان کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کیا جا سکتا ہے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات رونما نہ ہوں۔

متن کے مطابق سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے بھی میڈیا انٹرویوز میں خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں کی عدالتی معاملات میں مداخلت کے الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ دہرایا ہے۔

خط میں کہا گیا کہ ہم جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے الزامات کی تحقیقات کے مطالبے کی حمایت کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان تحقیقات کا دائرہ اختیار وسیع کر کے اس بات کا بھی تعین کیا جائے کہ آیا آج بھی خفیہ ایجنسی کے اہلکار عدالتی معاملات میں مداخلت کرتے ہیں یا نہیں۔

خط میں کہا گیا ہے کہ ججز کا موجودہ کوڈ آف کنڈکٹ اس حوالے سے رہنمائی کرنے سے قاصر ہے کہ ججز کی جانب سے خفیہ اداروں کے اہلکاروں کی جانب سے عدلیہ کی آزادی کو مجروح کرنے کا کا کیا ردعمل دیا جائے، ہم سمجھتے ہیں کہ اس بات کی تحقیقات انتہائی اہم ہیں کہ کیا ریاست کی جانب سے عدلیہ کے کام میں مداخلت کی پالیسی اب بھی جاری ہے جس پر خفیہ ایجنسی کے اہلکار عمل درآمد کرواتے ہیں؟

ججز کی جانب سے لکھے گئے خط میں اسلام آباد کی عدلیہ کو خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے درپیش دھمکی امیز واقعات کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔

خط میں لکھا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے تین رکنی بینچ نے بانی پی ٹی آئی کے خلاف ٹیرین وائٹ کیس کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے سے متعلق فیصلہ محفوظ کیا تھا، چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں درخواست کو قابل سماعت قرار دیا تھا تاہم بینچ میں شامل دیگر 2 ججز کی جانب سے چیف جسٹس کے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے درخواست کو ناقابل سماعت قرار دے دیا تھا۔

خط میں کہا گیا کہ جن ججز کی جانب سے درخواست کو ناقابل سماعت قرار دیا گیا تھا ان کو خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں کی جانب سے دوستوں اور خاندان کے افراد کے ذریعے دھمکیاں دی گئیں اور دباؤ میں لانے کی کوشش کی گئی۔

اس میں کہا گیا کہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو اس حوالے سے آگاہ کیا گیا جس پر چیف جسٹس کی جانب سے کہا گیا کہ انہوں نے خفیہ ایجنسی کے حکام سے بات کی ہے جنہوں نے یقین دہانی کرائی ہے کہ ایجنسی کی جانب سے سرکاری سطح پر ججز سے کبھی رابطہ نہیں کیا جائے گا تاہم خفیہ ایجنسی کی جانب سے مداخلت جاری رہی۔

خط میں کہا گیا ہے کہ مئی 2023 میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے ایک جج کے بہنوئی کو مسلح افراد کی جانب سے اغوا کرلیا گیا، 24 گھنٹے بعد جب وہ رہا ہو کر واپس آیا تو اس نے بتایا کہ اغوا کاروں کی جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا کہ وہ خفیہ ایجنسی کے اہلکار ہیں۔

ججز نے اپنے خط میں کہا کہ 10 مئی 2023 کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی جانب سے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو خط لکھ کر عدلیہ کے معاملات میں مداخلت کے حوالے سے آگاہ کیا گیا اور مطالبہ کیا گیا کہ اس حوالے سے توہین عدالت کی کارروائی کا آغاز کیا جائے تاکہ اسلام آباد ہائی کورٹ اپنے فرائض آزادانہ اور ایگزیکٹیو اور خفیہ ایجنسیوں کی مداخلت کے بغیر سر انجام دے سکے لیکن آج تک ایسی کوئی کارروائی شروع نہیں کی گئی۔

خط کے مطابق 19 مئی 2023 کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کی جانب سے اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال سے ملاقات کی گئی اور عدالتی معاملات میں مداخلت کے حوالے سے آگاہ کیا گیا تھا، چیف جسٹس آف پاکستان کے ساتھ اجلاس میں سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز الاحسن بھی موجود تھے، اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کو کہا گیا تھا کہ چیف جسٹس آف پاکستان اپنے دیگر ججز کے ساتھ مشاورت کے بعد ان معاملات میں مداخلت کریں گے، اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کی جانب سے اسی دن اس وقت کے سپریم کورٹ کے سینیئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے بھی ملاقات کی گئی تھی۔

خط میں کہا گیا ہے کہ سال 2023 کی گرمیوں میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک جج اپنی سرکاری رہائش گاہ میں منتقل ہوئے، معمول کی مینٹیننس کرتے ہوئے انکشاف ہوا کہ گھر کے ڈرائنگ روم کی دیوار میں لگی لائٹ میں وڈیو کیمرہ نصب ہے جس میں سم کارڈ بھی موجود ہے، وڈیو کیمرہ ڈرائنگ روم کی فوٹیج کسی کو بھیج رہا ہے، ایسا ہی ایک کیمرہ جج کی رہائش گاہ کے ماسٹر بیڈ روم میں بھی نصب تھا، ان کیمروں سے منسلک یو ایس بی کو برآمد کیا گیا جس میں جج اور ان کے اہل خانہ کی نجی ویڈیوز موجود تھیں۔

اس میں کہا گیا کہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو بھی اس معاملے سے آگاہ کر دیا گیا تھا، آج تک یہ پتا نہیں چل سکا کہ وہ کیمرے کس نے نصب کیے تھے اور ججز کی نجی زندگی کی ویڈیوز بنانے کا ذمہ دار کس کو ٹھہرایا جائے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو ریلیف تو مل گیا ہے تاہم یہ کافی نہیں ہے، بطور ججز ہماری ذمہ داری بغیر کسی خوف و خطر کے آئین و قانون کے مطابق انصاف کی فراہمی ہے، ججز کا کوڈ اف کنڈکٹ ان معاملات سے نمٹنے کے لیے کوئی رہنمائی فراہم نہیں کرتا، اگر کوئی جج خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے اس قسم کے اقدام کے الزامات عائد کرتا ہے تو ثبوت بھی اسے ہی فراہم کرنا ہوتے ہیں، ثبوتوں کی فراہمی سے متعلق بھی کوڈ آف کنڈکٹ رہنمائی فراہم نہیں کرتا، یہ بھی واضح نہیں ہے کہ کیا جج انفرادی طور پر خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے دھمکیوں اور دباؤ کو روکنے کی کوشش کریں گے یا عدلیہ بطور ادارہ اس کو روکنے کے لئے اقدامات اٹھائے گا؟

خط میں کہا گیا ہے کہ ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ایک انفرادی جج کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی طرح بہادر ہونے کی ضرورت نہیں جنہوں نے تن تنہا ایگزیکٹیو کا مقابلہ کیا، یا جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی طرح جنہوں نے انصاف کے حصول کے لیے طویل عرصہ جہدوجہد کی، اگر عدلیہ کی آزادی سماجی بنیادی حقوق کی حفاظت اور قانون کے مطابق انصاف فراہم کرنے کے لیے ناگزیر ہے تو عدلیہ کی آزادی کو بچانے اور حفاظت کرنے کے لیے ایک اداری جواب کی ضرورت ہے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی جانب سے خط میں کہا گیا ہے کہ ہم درخواست کرتے ہیں کہ عدالتی امور میں انٹیلی جنس اہلکاروں کی مداخلت اور عدلیہ کی آزادی کو مجروح کرنے کے لیے ججوں کو دھمکانے کے معاملے پر غور کرنے کے لیے ایک جوڈیشل کنونشن بلایا جائے۔

اس میں کہا گیا کہ اس طرح کا کنونشن اس بارے میں مزید معلومات فراہم کر سکتا ہے کہ آیا دیگر ہائی کورٹس کے ججوں کو اوپر بیان کیے گئے تجربات سے ملتا جلتا تجربہ ہوا ہے؟ اس طرح کی ادارہ جاتی مشاورت سے سپریم کورٹ کو اس بات پر غور کرنے میں مدد مل سکتی ہے کہ عدلیہ کی آزادی کو کس طرح بہتر طریقے سے تحفظ فراہم کیا جائے، عدلیہ کی آزادی کو مجروح کرنے والوں کے لیے ذمہ داری کا تعین کرنے کے لیے ایک طریقہ کار وضع کیا جائے اور انفرادی ججوں کے فائدے کے لیے یہ واضح کیا جائے کہ انھیں کب کیا کرنا چاہیے۔

تبصرے (0) بند ہیں