سینیٹ کی 19 نشستوں پر پولنگ، اسحٰق ڈار، فیصل واڈا اور وزیر خزانہ اورنگزیب کامیاب

اسحٰق ڈار نے اسلام آباد میں ٹیکنوکریٹ کی نشست پر کامیابی حاصل کی— فوٹو: نادر گرامانی
اسحٰق ڈار نے اسلام آباد میں ٹیکنوکریٹ کی نشست پر کامیابی حاصل کی— فوٹو: نادر گرامانی
— ضیا الدین
— ضیا الدین

ملک کے ایوان بالا کی خالی 30 میں سے 19 نشستوں پر ہونے والی پولنگ میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) سمیت اتحادی جماعتوں نے کلین سوئپ کر لیا جبکہ جبکہ خیبرپختونخوا میں انتخابات ملتوی کردیے گئے۔

’ڈان نیوز‘ کے مطابق الیکشن کمیشن بلوچستان اورپنجاب کی خالی نشستوں پر 18 امیدواروں کے بلامقابلہ منتخب ہونے کا نوٹیفکیشن پہلے ہی جاری کر چکا ہے جس کے بعد آج باقی 30 نشستوں پر پولنگ ہوئی۔

حکمران اتحاد کے امیدوار کامیاب

اسلام آباد سے ٹیکنوکریٹ کی نشست پر مسلم لیگ(ن) کے رہنما اور وزیر خارجہ اسحٰق ڈار نے 222 ووٹ حاصل کیے جبکہ ان کے مدمقابل انصر محمود نے 81 ووٹ حاصل کیے۔

اسلام آباد سے ہی جنرل نشست پر مسلم لیگ(ن) کے ہی رانا محمود الحسن نے 224 ووٹ حاصل کیے جبکہ ان کے مقابل اپوزیشن کے امیدوار فرزند علی شاہ نے 79 ووٹ حاصل کیے، کل 310 ووٹ پول ہوئے جس میں سے 7 ووٹ مسترد ہوئے۔

پنجاب میں سینیٹ انتخابات میں ٹیکنوکریٹ کی سیٹ پر وزیر خزانہ محمد اورنگزیب 128 ووٹ لے کر کامیاب ہو گئے۔

مسلم لیگ(ن) مصدق ملک نے 121ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کی جبکہ ڈاکٹر یاسمین راشد صرف ووٹ 106حاصل کر سکیں۔

سینیٹ کی اقلیتی نشست پر پیپلزپارٹی کے پنجومل بھیل کامیاب جبکہ خواتین کی نشست پر پیپلز پارٹی کی ہی روبینہ قائم خانی اور قرۃ العین مری منتخب ہو گئیں۔

اسی طرح ٹیکنوکریٹ کی نشست پر پیپلز پارٹی کے سرمد علی اور ضمیر گھمرو سینیٹر منتخب ہو گئے۔

سندھ سے جنرل نشست پر آزاد امیدوار فیصل واڈا بھی سینیٹر منتخب جبکہ ایم کیو ایم کے عامر چشتی نے بھی جنرل نشست پر کامیابی حاصل کی۔

سندھ سے جنرل نشست پر پیپلز پارٹی کے کاظم علی شاہ، مسرور احسن، ندیم بھٹو، اشرف علی جتوئی اور دوست علی جیسر سینیٹر منتخب ہو گئے۔

سندھ کے غیرحتمی و غیرسرکاری نتائج کے مطابق سینیٹ الیکشن میں سندھ سے ایم کیو ایم اور آزاد امیدوار نے ایک، ایک جبکہ پیپلزپارٹی نے 10نشستیں حاصل کر لیں۔

پنجاب اسمبلی سے خواتین کی مخصوص نشستوں پر مسلم لیگ(ن) کی انوشے رحمٰن اور بشریٰ انجم نے کامیابی حاصل کی۔

انوشے رحمٰن نے 125 اور بشریٰ انجم نے 123 ووٹ حاصل کیے۔

صوبائی الیکشن کمشنر پنجاب و ریٹرننگ آفیسر اعجاز انور چوہان نے اقلیتی نشست پر طاہر خلیل کو کامیاب قرار دے دیا۔

غیرحتمی نتائج کے مطابق 19 نشستوں میں سے مسلم لیگ(نٌ) نے 6، پیپلز پارٹی نے 11 اور متحدہ قومی موومنٹ نے ایک نشست حاصل کی جبکہ ایک نشست آزاد امیدوار فیصل واڈا کے نام رہی۔

96 رکنی ایوان بالا میں اب مسلم لیگ(ن) کے ارکان کی تعداد 19 ہو گئی ہے جبکہ پیپلز پارٹی کے سینیٹ اراکین کی تعداد 24 تک پہنچ گئی ہے جبکہ تحریک انصاف کے ارکان کی تعداد 20 ہے۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے نو منتخب سینیٹرز کو کامیابی پر مبارکباد اور نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سینیٹ کے انتخابات جمہوری عمل کا تسلسل ہیں اور امید ہے نومنتخب سینیٹرز آئین کی سربلندی اور ملکی ترقی کیلئے اپنا کردار ادا کریں گے۔

اپنے بیان میں وزیراعظم نے کہا کہ نو منتخب سینیٹرز عوامی فلاح و بہبود اور ملکی ترقی و خوشحالی کے لیے مؤثر قانون سازی میں حصہ لیں گے اور وفاقی اکائیوں کی مضبوطی اور جمہوری اقدار کی پاسداری کے لیے سینیٹرز کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے۔

خیبرپختونخوا میں سینیٹ انتخابات ملتوی

دریں اثنا خیبرپختونخوا میں سینیٹ انتخابات ملتوی کردیے گئے ہیں، اسمبلی میں سینٹ انتخابات کے لیے انتظامات مکمل کرلیے گئے تھے، پولنگ عملہ بھی موجود تھا تاہم اسمبلی میں مقررکردہ وقت (9 بجے) سینیٹ انتخابات شروع نہ ہوسکے۔

دریں اثنا خیبرپختونخوا اسمبلی میں مخصوص نشستوں پر حلف نہ لینے کے معاملے پر اپوزیشن نے سینیٹ انتخابات ملتوی کرنے کی درخواست جمع کرادی تھی، بعدازاں صوبائی الیکشن کمشنر نے انتخاب ملتوی کرنے کا اعلان کردیا۔

درخواست اپوزیشن کے احمد کریم کنڈی نے صوبائی الیکشن کمیشنر کے پاس جمع کرائی جس میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ ہمارے 25 ارکان سے ابھی تک حلف نہیں لیا گیا، الیکشن ملتوی کیا جائے۔

صوبائی الیکشن کمشنر نے اپوزیشن کی درخواست پر چیف الیکشن کمشنر سے رابطہ کرلیا تھا جبکہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور بھی صوبائی اسمبلی پہنچ گئے تھے جہاں انہوں نے سینیٹ انتخابات سے متعلق ارکان سے مشاورت کی۔

واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے خیبرپختونخوا میں سینیٹ انتخابات مخصوص نشستوں پر منتخب ممبران کے حلف سے مشروط کیے تھے۔

پنجاب اسمبلی

پنجاب اسمبلی میں بھی سینیٹ الیکشن کے لیے ووٹنگ کا عمل صبح 9 بجے شروع ہوا جوکہ شام 4 بجے تک جاری رہا، صوبائی الیکشن کمشنر اعجاز انور چوہان پنجاب اسمبلی میں موجود تھے جبکہ مسلم لیگ (ن) کے بلال یامین نے پہلا ووٹ کاسٹ کیا تھا۔

اس موقع پر خلیل طاہر سندھو نے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ خواتین کے حوالے سے پارٹی نے 2 ترجیحات دی ہیں، ٹیکنوکریٹ کی نشست پر بھی پارٹی کی جانب سے 2 ترجیحات دی گئیں ہیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ تمام تر انتظامات کی ذمہ داری الیکشن کمیشن کی ہے، ووٹ ایک امانت ہے، اس کو خفیہ ہی رکھا جانا چاہیے، مجھے سینیٹ میں جانے کی خوشی بھی ہے اور پنجاب اسمبلی سے جانے کی اداسی بھی۔

سندھ اسمبلی

سندھ اسمبلی میں 12 سینیٹرز کے انتخاب کے لیے کُل 19 امیدوار میدان میں تھے، ان میں 7 جنرل نشستیں، 2 خواتین، 2 ٹیکنوکریٹس/علما اور ایک نشست اقلیتوں کے لیے تھی۔

30 نشستوں پر 59 امیدوار مدمقابل

قبل ازیں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سینیٹ انتخابات کے لیے امیدواروں کی حتمی فہرست جاری کردی تھی، پنجاب کی 7 جنرل نشستوں اور بلوچستان کی 7 جنرل اور 2 خواتین نشستوں پر امیدوار بلامقابلہ سینیٹر منتخب ہوگئے جن میں سابق نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ، محسن نقوی، پرویز رشید، احد چیمہ، طلال چوہدری اور دیگر شامل تھے۔

اسلام آباد سے ٹیکنوکریٹ کی نشست پر مسلم لیگ (ن)کے اسحٰق ڈار، جنرل نشست پر پیپلز پارٹی کے رانا محمود الحسن امیدوار تھے، پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ انصر محمود ٹیکنو کریٹ نشست پر اور فرزند حسین شاہ جنرل نشست پر انتخاب لڑ رہے تھے۔

سندھ سے سینیٹ کی 12 نشستوں پر 20 امیدوار ہیں، 7 جنرل نشستوں پر پیپلز پارٹی کے 6 امیدوار، ایم کیو ایم کا ایک اور 4 آزاد امیدوار میدان میں تھے جن میں سے تین پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ تھے۔

خواتین کی 2 نشستوں کے لیے پیپلز پارٹی کی 2 اور ایک آزاد امیدوار میدان میں موجود تھیں۔

ٹیکنوکریٹس کی 2 نشستوں کی پیپلز پارٹی کے 2 اور 2 آزاد امیدوار مدمقابل تھے، اقلیت کی ایک نشست پر پیپلز پارٹی کا ایک اور ایک آزاد امیدوار میدان میں موجود تھا۔

پنجاب میں سینیٹ کی 7 جنرل نشستوں پر بلا مقابلہ منتخب امیدواروں کا اعلان ہوا تھا اور حکومتی اتحاد کے وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی، پرویز رشید، احد چیمہ، طلال چوہدری، ناصر بٹ اور سنی اتحاد کونسل کے حامد خان اور علامہ راجا ناصرعباس بلا مقابلہ سینیٹر بن گئے تھے۔

پنجاب سے ٹیکنوکریٹ کی 2 نشستوں پر تین امیدوار، خواتین کی 2 مخصوص نشستوں پر 4 امیدوار اور اقلیت کی ایک نشست پر 2 امیدوار میدان میں تھیں۔

بلوچستان سے سینیٹ کی 11 نشستوں میں سے 7 جنرل اور دو خواتین کی نشستوں پر امیدوار بلامقابلہ منتخب ہوگئے۔

7 جنرل نشستوں پر بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کے انوار الحق کاکڑ، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے احمد خلجی، نیشنل پارٹی کے جان بلیدی، مسلم لیگ (ن) کے آغا شازیب اور سیدال ناصر، پیپلز پارٹی کے عمر گورگیج، اے این پی کے ایمل ولی بلا مقابلہ سینیٹر بن گئے تھے۔

خواتین کی 2 مخصوص نشستوں پر پیپلز پارٹی کی حسنہ بانو اور مسلم لیگ (ن) کی راحت جمالی بھی بلامقابلہ منتخب ہوئیں، ٹیکنوکریٹس کی 2 نشستوں پر 3 امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہونا تھا۔

ایم کیوایم کا سینیٹ میں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی کے مشترکہ امیدواروں کی حمایت کا اعلان

ایم کیوایم نے سینیٹ انتخابات میں مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کے مشترکہ امیدواران کی حمایت کی یقین دہانی کرائی تھی۔

اسلام آباد میں مسلم لیگ (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کے وفد نے ایم کیو ایم پاکستان کنوینر خالد مقبول صدیقی کی رہائش گاہ پر ان سے ملاقات کی تھی۔

ترجمان ایم کیو ایم پاکستان کے مطابق ملاقات میں ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے سینیٹ انتخابات میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے مشترکہ امیدواران کی حمایت کی یقین دہانی کرائی تھی۔

پیپلزپارٹی کا پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حمایت کا اعلان

سنیٹ کی خالی ہونے والی نشستوں پر آج ہونے والے الیکشن میں پاکستان پیپلزپارٹی نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حمایت کا اعلان کردیا۔

وزیر اعلی پنجاب مریم نواز کی زیر صدارت پارلیمانی پارٹی کا اجلاس منعقدہوا جس میں پاکستان مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ق) اور دیگر ارکان اسمبلی نے شرکت کی۔

وزیراعلی مریم نواز نے اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ سب کی وزیر اعلی ہوں، ساتھ مل کر چلیں گے، ہمارا عزم پورے پنجاب کی ترقی ہے، کوئی علاقہ ترقی سے محروم نہیں رہے گا۔

علی حیدر گیلانی نے کہاکہ ہماری خاتون امیدوار دستبردار ہوچکی ہیں، بشری بٹ اور انوشے رحمٰن کو ووٹ دیں گے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق قائد حزب اختلاف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا سینیٹ میں سب سے بڑی جماعت برقرار رہنے کا امکان ہے، یہ صورتحال آج 30 نشستوں پر انتخابات کے بعد سامنے آئے گی، تاہم وہ حکومت کی جانب سے قانون سازی کے عمل کو متاثر کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوگی۔

ایون بالا 96 ارکان پر مشتمل ہو گا، جن میں سے 23 اراکین چار صوبوں اور 4 اسلام آباد سے ہوں گے، ایک صوبے کے لیے مختص کردہ 23 نشستوں میں 14 جنرل نشستیں، 4 خواتین کے لیے، 4 ٹیکنوکریٹس اور ایک اقلیتی رکن کے لیے مختص ہیں۔

سینیٹر کی مدت 6 سال ہوتی ہے لیکن کل تعداد کا 50 فیصد ہر تین سال بعد ریٹائر ہو جاتا ہے، جس کے بعد نئے سینیٹرز کے لیے انتخابات ہوتے ہیں۔

محتاط حساب و کتاب کی بنیاد پر ایسا لگتا ہے کہ حکمران اتحاد کو اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کے لیے 96 رکنی سینیٹ میں 64 سینیٹرز کی ضرورت ہے۔

ابتدائی طور پر 48 سینیٹر کے انتخاب کے لیے پولنگ ہونا تھی، جس میں سے خیبرپختونخوا اور بلوچستان سے 11، 11 جبکہ پنجاب اور سندھ سے 12، 12 اور اسلام آباد سے 2 سینیٹرز کا انتخاب شامل ہے۔

تاہم پنجاب اور بلوچستان سے 18 سینیٹرز بلامقابلہ منتخب ہونے کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان 30 نشستوں پر انتخابات کا انعقاد کرے گا، جس کے لیے 59 امیدوار میدان میں ہیں۔

اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ پی ٹی آئی اس وقت 20 سینیٹر ہیں، جس میں حالیہ بلامقابلہ منتخب ہونے والے بھی شامل ہیں، جبکہ پی ٹی آئی مضبوط گڑھ خیبرپختوخوا سے مزید 7 نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہے، لہٰذا یہ جماعت 27 سینیٹرز کے ساتھ ایوان بالا میں سب سے بڑی جماعت ہوگی۔

اگر تمام اراکین قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی جماعت کی پالیسی کے مطابق ڈالتے ہیں، تو پیپلزپارٹی سندھ سے 10 سے 11 اور بلوچستان، اسلام آباد سے ایک ایک نشست پر کامیابی حاصل کر لے گی۔

اس وقت پیپلزپارٹی کے 13 سینیٹرز ہیں، مزید 12 سے 13 نشستیں جیتنے کے بعد پیپلزپارٹی 25 تا 26 سینیٹرز کے ساتھ ایوان بالا میں دوسری بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئے گی۔

مسلم لیگ (ن) کے 13 سینیٹرز ہیں، اور کل ہونے والے انتخابات میں انہیں تقریباً 7 سیٹوں پر کامیابی ملنے کی توقع ہے، جس میں پنجاب سے 5، خیبرپختونخوا اور اسلام آباد سے ایک، ایک شامل ہے، جس کے بعد سینیٹ میں (ن) لیگ تیسری بڑی جماعت ہوگی۔

یہ بات نوٹ کرنا ضروری ہے کہ جماعت اسلامی، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (فنکشنل) ایوان بالا میں نمائندگی سے محروم ہو جائیں گی کیونکہ مارچ میں ان کے تمام سینیٹرز ریٹائر ہو چکے ہیں۔

اسمبلیوں میں اراکین کی تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے ان جماعتوں کی جانب سے ایک بھی امیدوار سینیٹ انتخابات میں حصہ نہیں لے رہا۔

تبصرے (0) بند ہیں