سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف اپنی مبینہ بیٹی کو چھپانے کے الزام پر دائر کیا گیا ٹیریان وائٹ کیس ولدیت کے معاملے سے کچھ زیادہ بن گیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ان چند معاملات میں سے ایک ہے جس کا اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججوں کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے خط میں حوالہ دیا گیا کہ اس کیس میں انٹیلیجنس اہلکاروں کی جانب سے ججوں پر دباؤ ڈالا گیا۔

25 مارچ کو سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے خط میں کہا گیا تھا کہ آئی ایس آئی کے اہلکاروں نے ان جج صاحبان پر دوستوں اور رشتہ داروں کے ذریعے کافی دباؤ ڈالا تھا جنہوں نے یہ رائے دی تھی کہ یہ پٹیشن قابل سماعت نہیں۔

حکومت کی جانب سے اس معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک رکنی کمیشن بنانے کی ناکام کوشش کے بعد عدالتی معاملات میں مداخلت کی شکایات کو اب سپریم کورٹ نے اپنے ازخود دائرہ اختیار کا استعمال کرتے ہوئے اٹھایا ہے، اور اب اس پر 29 اپریل کو فل کورٹ کے ذریعے سماعت کرنے کا امکان ہے۔

خط میں محمد ساجد بمقابلہ عمران احمد خان نیازی (رٹ پٹیشن نمبر 3061 آف 2022) کے طور پر حوالہ دیے جانے والا یہ کیس اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کی جانب سے 3 رکنی بینچ کو تحلیل کرنے کے باعث پچھلے سال مئی سے التوا کا شکار ہے، امکان ہے کہ ہائی کورٹ اس معاملے پر آنے والے دنوں میں دوبارہ سماعت کرے گی لیکن جن حالات میں بینچ کو تحلیل کیا گیا وہ اس وقت بھی کافی عجیب تھے۔

وقت سے پہلے فیصلہ جاری

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق، جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس ارباب محمد طاہر پر مشتمل 3 رکنی لارجر بینچ نے 30 مارچ 2023 کو اپنا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

قبل ازیں سماعت کے دوران جسٹس محسن اختر کیانی نے درخواست گزار محمد ساجد کے اس معاملے پر درخواست دائر کرنے کے حق پر سوال اٹھایا تھا، جب کہ صدارتی جج جسٹس عامر فاروق اس خاص پہلو پر قائل نظر آئے۔

واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اطہر من اللہ اس سے قبل اسی طرح کی ایک درخواست کو خارج کر چکے ہیں۔

2 مارچ 2023 کو درخواست کی سماعت کے دوران درخواست گزار کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ عمران خان نے اپنی مبینہ بیٹی ٹیریان وائٹ کی تحویل سے متعلق کیس میں کیلیفورنیا کی سپریم کورٹ میں بیان حلفی جمع کرایا ہے۔

لیکن چیف جسٹس نے انہیں درست کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ یہ حلف نامہ نہیں بلکہ ایک اعلامیہ تھا جس پر پاکستان کے ایک حلف کمشنر نے دستخط کیے تھے۔

اس وقت جسٹس محسن اختر کیانی نے نشاندہی کی تھی کہ اعلامیے میں کبھی بھی اس بات کا تذکرہ نہیں کیا گیا کہ عمران خان لڑکی کے والد ہیں اور انہوں نے درخواست گزار کی نیک نیتی پر بھی یہ مشاہدہ کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ صرف ٹیریان وائٹ ہی ولدیت کے حقوق کے لیے درخواست دائر کر سکتی ہیں۔

اس کے بعد، 10 مئی کو عدالت کی سرکاری ویب سائٹ پر دو ججوں کی رائے اپ لوڈ کی گئی جسے صرف چند منٹوں کے اندر ہٹا دیا گیا۔

بعد ازاں رجسٹرار آفس نے ایک بیان جاری کیا جس میں واضح کیا گیا کہ دو ججوں کی رائے دفتری نوٹوں کے ساتھ اپ لوڈ کی گئی تھی، جو کہ عدالت کے فیصلے کو تشکیل نہیں دیتی۔

بیان میں کہا گیا کہ چیف جسٹس نے کیس کی دوبارہ سماعت کے لیے بینچ کی تشکیل نو کی ہےاور کاز لسٹ جاری کیے بغیر ججوں کی رائے اپ لوڈ کرنے والے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے۔

آنکھ میں آنکھ نہیں ملاتے

اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججوں کی جانب سے لکھے گئے خط میں یہ اشارہ بھی دیا گیا ہے کہ کچھ جج اسلام آباد ہائی کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس کو آنکھ ملا کر نہیں دیکھتے ہیں۔

خط میں بالخصوص ٹیریان وائٹ کیس کے تناظر میں ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے ساتھ متعدد مواصلات کا ذکر بھی کیا گیا ہے ۔

ججوں نے مشاہدہ کیا کہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے انہیں بتایا تھا کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کا کوئی اہلکار ان سے رابطہ نہیں کرے گا، تاہم انہوں نے شکایت کی کہ اس یقین دہانی کے باوجود مداخلت جاری ہے۔

واضح رہے کہ چیف جسٹس کے بعد سب سے سینئر جج جسٹس محسن اختر کیانی بھی خط کے مصنفین میں سے ایک ہیں۔

سطحی طور پر چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی کے درمیان اچھے تعلقات ہیں کیونکہ دونوں ایک ہی ڈویژن بینچ پر بیٹھتے تھے اور ماضی میں نواز شریف، مریم نواز اور آصف علی زرداری کے خلاف ریفرنسز سمیت کئی اہم سیاسی مقدمات کے فیصلے کر چکے ہیں۔

دونوں ٹیریان وائٹ کیس بینچ کے تحلیل ہونے سے پہلے اس کی سماعت کرنے والی اصل بینچ کا بھی حصہ تھے۔

تاہم، حال ہی میں جسٹس محسن اختر کیانی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ایک شکایت درج کی گئی جس میں ان پر خط کے سلسلے میں ہائی کورٹ کے دیگر ججوں کو قائل کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق سینئر جج ریٹائرڈ جسٹس نورالحق این قریشی نے ڈان کو بتایا کہ چیف جسٹس اور دوسرے سینئر ترین جج کے درمیان اختلافات اعلیٰ عدلیہ میں ایک معمول کی بات ہے، انہوں نے کہا کہ سب سے سینئر جج توقع کرتے ہیں کہ طاقت بانٹ دی جائے، لیکن کچھ چیف جسٹس مکمل اختیار چاہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے بھی ایسا ہی تجربہ کیا ہے لیکن میں نے کبھی شکایت نہیں کی کیونکہ میں نے سوچا کہ اس سے بڑے پیمانے پر عوام کو انصاف فراہم کرنے والے ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچے گا۔

درخواست

خیال رہے کہ عمران خان پر مبینہ بیٹی کو کاغذات نامزدگی میں ظاہر نہ کرنے کا الزام ہے، شہری محمد ساجد محمود نے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو نااہل کرنے کی استدعا کر رکھی ہے۔

درخواست میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ عمران خان نے برطانیہ میں ٹیریان وائٹ کی کفالت کے انتظامات کیے لیکن اپنے کاغذات نامزدگی میں اور الیکشن لڑنے کے حلف نامے میں اس کا ذکر نہیں کیا۔

درخواست گزار کے وکیل کے طور پر پیش ہونے والے سابق اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ نے عمران خان کی سابق اہلیہ جمائما خان کی جانب سے 18 نومبر 2004 کے ڈیکلیریشن پر مشتمل اضافی دستاویز پیش کی۔

اس میں کہا گیا ہے کہ میں نے یہ ڈیکلیریشن ٹیریان جیڈ خان وائٹ کی درخواست کی حمایت میں کیا ہے جس میں اپیل کی گئی ہے کہ کیرولین وائٹ (ٹیریان کی والدہ اینا لوئیسا سیتا وائٹ کی بہن) کو ٹیریان کا سرپرست مقرر کیا جائے۔

ڈیکلیریشن میں مزید کہا گیا ہے کہ جمائما خان نے ٹیریان جیڈ کے سرپرست کے طور پر خدمات انجام دینے سے انکار کردیا تھا اور سرپرستی کے لیے کیرولین وائٹ کا نام تجویز کیا تھا کیونکہ وہ سمجھتی تھیں کہ یہ ٹیریان کے بہترین مفاد اور خواہش کے مطابق ہے۔

اینا لوئیسا (سیتا) وائٹ لارڈ گورڈن وائٹ کی بیٹی تھی جنہوں نے ایک بڑے صنعتی گروپ ہینسن پی ایل سی کی امریکی شاخ کی سربراہی کی۔

درخواست گزار ساجد محمود نے الزام لگایا کہ پی ٹی آئی چیئرمین نے سیتا وائٹ سے شادی نہیں کی کیونکہ اس کے ’نسل پرست‘ والد نے مدعا علیہ (عمران خان) کو دوٹوک انداز میں کہہ دیا تھا کہ اگر انہوں نے سیتا وائٹ سے شادی کی تو ان دونوں کو اس کی دولت میں سے ایک پیسہ بھی نہیں ملے گا۔

اس کے بعد ہی عمران خان کی ملاقات ایک اور امیر خاتون جمائما سے ہوئی اور بہت ہی کم عرصے میں ان سے شادی کرلی۔

درخواست میں ان حالات کا بھی ذکر کیا گیا جن میں ٹیریان جیڈ کی تحویل جمائما کو دی گئی تھی۔

اس میں کہا گیا کہ اینا لوئسیا وائٹ نے 27 فروری 2004 کی اپنی وصیت میں جمائما خان کو اپنی بیٹی ٹیریان جیڈ خان وائٹ کا سرپرست نامزد کیا تھا، بعد ازاں اسی برس 13 مئی کو سیتا وائٹ کا انتقال ہوگیا۔

درخواست میں کہا گیا کہ جمائما گولڈ اسمتھ 1995 سے 2004 تک عمران خان کی شریک حیات تھیں۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ چھپائے گئے حقائق کی تصدیق کیلیفورنیا کی ایک عدالت کی جانب کیے گئے فیصلے سے ہوئی جہاں یہ کہا گیا کہ مدعا علیہ (عمران خان) ٹیریان جیڈ کے والد ہیں۔

اس میں مزید کہا گیا کہ عمران خان ابتدائی طور پر اپنے اٹارنی کے توسط سے کارروائی میں شامل ہوئے لیکن جب انہیں خون ٹیسٹ کرانے کا کہا گیا تو وہ کیس کی پیروی سے پیچھے ہٹ گئے۔

پٹیشن میں الزام لگایا گیا ہے کہ بعد میں جب سیتا وائٹ کی بہن کیرولین وائٹ نے عدالت سے کہا کہ اسے ٹیریان کا سرپرست مقرر کیا جائے تو انہوں نے عدالت میں ڈیکلیریشن جمع کرایا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں