اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم عمران خان اور سابق وفاقی وزیر شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت کل تک ملتوی کردی جس دوران چیف جسٹس عامر فاروق نے وکیل بانی پی ٹی آئی سے دریافت کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ اعظم خان جو اسٹار گواہ ہیں، ان کے بیان کی کوئی اہمیت نہیں ہے؟

ڈان نیوز کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے اپیلوں پر سماعت کی، بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے بیرسٹر سلمان صفدر و دیگر جبکہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی پراسیکیوشن ٹیم میں حامد علی شاہ، ذوالفقار نقوی و دیگر عدالت میں پیش ہوئے۔

بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی فیملی اور پارٹی قیادت کمرہ عدالت میں موجود ہیں، عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے بتایا کہ جہاں پر دلائل چھوڑے تھے آج وہی سے دلائل کا آغاز کروں گا۔

اس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ 2 دفعات ہیں جس کے تحت سزا ہوئی، ایک غفلت کی بات کرتا ہے اور ایک نہیں، میں ایک چیز پر آپ سے متفق ہوں کہ ملزمان پر ایک چارج لگنا تھا۔

وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ شاہ محمود قریشی کی حد تک جو چارج لگائے گئے وہ اس سے الگ ہے، میں عمران خان کے اوپر چارج کے حوالے سے بات کروں گا۔

ان کا کہنا تھا کہ سائفر سابق پرنسپل سیکریٹری اعظم خان نے وصول کیا تو حفاظت کی ذمہ داری بھی ان کی تھی، کہا بھی گیا کہ پرنسپل سیکریٹری نے سائفر کی کاپی واپس نہیں کی.

عدالت نے دریافت کیا کہ لیکن پرنسپل سیکریٹری اعظم خان نے تو کہا ہے کہ میں نے عمران خان کو سائفر کاپی دی تھی، صدر یا وزیراعظم کو جو چیزیں دی جاتی ہے ان کی ذمہ داری ان کے سیکریٹری پر ہوگی؟ صدر یا وزیراعظم کے سیکریٹری سے اگر کوئی غفلت ہو جائے تو اس کی کیا سزا ہوگی؟

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کا کہنا تھا کہ آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ اعظم خان کا بیان ٹھیک نہیں کیونکہ اسے ماحول نہیں دیا گیا؟

چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیا کہ اعظم خان کا بیان موجود ہے کہ اس نے کاپی بانی پی ٹی آئی کو دی تھی، میاں گل حسن اورنگزیب کا کہنا تھا کہ ہمیں یہ چیز سمجھائیں کہ آپ کو کاپی ملی ہی نہیں یا آپ نے وصول کرنے کے بعد واپس کی؟

بیرسٹر سلمان صفدر نے دلیل دی کہ عمران خان کا مؤقف ہے کہ میں نے کاپی وصول کی تھی مگر دفتر سے وہ غائب ہوگئی ہے۔

سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ اعظم خان نے کہا کہ سائفر گم ہوگیا تو سیکریٹری ملٹری، ڈی جی سی اور وزیراعظم آفس کے سیکیورٹی کو ڈھونڈنے کی ہدایت دی، سائفر کی کاپی گمشدہ ہونے پر وزارت خارجہ کو آگاہ کرنا ہوتا ہے جو ہم کر چکے۔

ایف آئی اے کے وکیل حامد شاہ نے کہا کہ 8 مارچ کو سائفر کی کاپی پرنسپل سیکریٹری اعظم خان کو موصول ہوئی، 9 مارچ کو اعظم خان نے کاپی اس وقت کے وزیراعظم کو دی۔

عدالت نے استفسار کیا کہ وزیر اعظم سمیت اہم دفاتر میں اہم دستاویزات کی مومنٹ ریکارڈ ہوتی ہے یا نہیں؟

وکیل ایف آئی اے نے بتایا کہ سائفر جب آجاتا ہے تو ان کی ہر مومنٹ کو ریکارڈ کرنے کے لیے محفوظ کیا جاتا ہے۔

عمران خان کے وکیل نے کہا کہ سائفر گم یا چوری ہو جائے تو وزارت خارجہ کو کیا کرنا چاہیے اس پر ایک قانون موجود ہے، قانون میں لکھا ہوا ہے کہ وزرات خارجہ کی ذمہ داری ہے کہ اس کی انکوائری کرے، اعظم خان نے کہاں بتایا ہوا کہ بانی پی ٹی آئی کے پاس کاپی موجود ہے؟ اگر بانی پی ٹی آئی نے دستخط کیے ہوتے تو ان کی ذمہ داری بھی ہوتی، سیکریٹریٹ رولز کے مطابق بانی پی ٹی آئی کے پاس کسٹڈی نہیں ہوسکتی۔

سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ سائفر سے نہ کوئی نقصان ہوا اور نا کسی کو کوئی انجری ہوئی، بانی پی ٹی آئی کا تو فرض ہی نہیں ہے کہ کاپی کی حفاظت کریں۔

اعظم خان پر چارج پر کیوں نہیں لگایا گیا؟ عدالت

اس پر جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ جو جرم کرنا چاہتا ہے وہ کرتا ہے، اس کو آپ فرض سے تشبیہ نہ دیں، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ آپ یہ غفلت کا لفظ استعمال نا کریں، ایک دستاویز جس کی حفاظت ریاست کے لیے اہم ہے وہ غائب ہوگیا۔

وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ سرکار کے اپنے 4 گواہ ہیں جو کہتے ہیں کہ سائفر کی کاپی اعظم خان کو دی گئی، جب سائفر کاپی وزیراعظم کے سپرد ہوئی ہی نہیں، تو جس کے سپرد ہوئی اس کو آپ نے گواہ بنا دیا تو خود بھگتیں۔

اس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ اعظم خان پر چارج پر کیوں نہیں لگایا گیا؟ سلمان صفدر نو جواب دیا کہ میں یہی بات کرنا چاہتا ہوں کہ ملزم پر چارج لگتا ہے، انہوں نے اس کو گواہ بنا لیا، ملزم کو گواہ بنا کر پراسیکیوشن نے اپنا کیس خراب کردیا ہے، بطور وزیر اعظم بانی پی ٹی آئی کا کام تھا کہ آگاہ کریں کہ کاپی گم ہوگئی، جو انہوں نے کردیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک دستاویز آپ کے پاس آیا، اسے رکھنے کی ڈیوٹی آپ کی نہیں ہے، تو اس کی حفاظت کس کی ذمہ داری ہے؟ وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے بتایا کہ عدالت میں دیے گئے بیان کے مطابق بھی گواہوں نے یہ نہیں کہا کہ بانی پی ٹی آئی نے جرم کیا، گواہوں نے بیان دیا کہ ہم وزیر اعظم کو کاپی گم ہونے کا بتاتے رہے، ایک چھوٹی سی غفلت کو بنیاد بنا کر سابق وزیر اعظم کو سزا نہیں دے سکتے۔

بیرسٹر سلمان صفدر نے مزید کہا کہ یہ ایسا کیس ہے جس میں کوئی بھی ثبوت موجود نہیں ہے، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے دریافت کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ سیاسی کیس بنایا گیا تو اس کی فائنڈنگ کیا ہیں؟

وکیل سلمان صفدر نے بتایا کہ وزرات خارجہ نے کبھی انکوائری نہیں کی تو کیس کیسے بن سکتا ہے؟ سیکریٹری داخلہ نسیم کھوکھر نے شکایت تو کی مگر ایف آئی اے نے خود سے چیزیں ڈالی، درخواست گزار کی درخواست میں عمران خان کا کہیں بھی نام نہیں، ایف آئی اے نے کہا کہ ہم نے 5 اکتوبر سے اپنی انکوائری شروع کردی تھی، 5 سے 12 اکتوبر تک کس کے کہنے پر یہ انکوائری کی اور وہ کہاں پر ہے؟ سیکریٹری داخلہ کی درخواست نہیں ایف آئی اے نے خود سے ایف آئی آر درج کرائی۔

جو پارٹی چھوڑ دیتے ہیں وہ بری ہو جاتے ہیں، وکیل سلمان اکرم راجا

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا، وزارت داخلہ فریق ہے، اس وقت رانا ثنا اللہ وزیر داخلہ تھے، سیکریٹری داخلہ نے کہا کہ ایک آڈیو ہم نے سنی جس میں سائفر کا ذکر تھا، پورے ٹرائل میں آڈیو کا ذکر ہی نہیں کیا گیا، ایف آئی آر میں جو زبان استعمال کی گئی وہ سیکرٹ ایکٹ کی دفعات کی تھی۔

وکیل نے دلائل دیے کہ جو پارٹی چھوڑ دیتے ہیں وہ بری ہو جاتے ہیں، ایک کو کہا جارہا ہے پارٹی چھوڑ دو، پارٹی چھوڑنے پر ان کا نام نکال دیا جاتا ہے، شاہ محمود قریشی نے پارٹی نہیں چھوڑی تو وہ ملزم ہیں۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ کیا یہ ریکارڈ پر لکھا ہوا ہے؟ بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا نہیں، کہیں نہیں لکھا ہوا، ریکارڈ پر نہیں لیکن شاہ محمود قریشی نے اپنے بیان میں اس حوالے سے کچھ کہا ہے، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے جو ریکارڈ پر نہیں وہ نا کہیں۔

وکیل نے بتایا کہ اعظم خان ایک نامزد ملزم اور کاپی کی حفاظت کے ذمہ تھے، اعظم خان نے اپنے بیان میں کہیں بھی بانی پی ٹی آئی کے خلاف کوئی بات نہیں کی، اعظم خان ایف آئی آر میں نامزد تھے اور وہ لاپتہ ہو جاتے ہیں، پھر اچانک بیان آجاتا ہے، آپ میرے دلائل کو یہاں تک نوٹ کرلیں کہ 4 میں سے 2 ملزم کو قصوروار قرار دے دیا گیا۔

وکیل سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ اہم کردار دینے کے بعد 2 ملزمان کو چھوڑنے سے ایف آئی اے کا کیس خراب ہوا، جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ آپ کہتے ہیں کہ اعظم خان جو اسٹار گواہ ہیں، ان کے بیان کی کوئی اہمیت نہیں ہے؟ اعظم خان کا کوئی ایسا بیان جو غیر یقینی ہو؟ آپ بار بار کہہ رہے ہیں کہ اعظم خان کے بیان کی کوئی اہمیت نہیں ہے، کیوں نہیں ہے؟ اس پر عدالت کو بتائیں۔

بیرسٹر سلمان صفدر نے بتایا کہ 164 کے بیان کے بعد ملزم کو جرح کا موقع نہیں دیا گیا، اعظم خان خود وعدہ معاف گواہ بن سکتا تھا، ایف آئی اے کے پاس نہ جاتا، اعظم خان معافی مانگ کر وعدہ معاف گواہ بن سکتے تھے، انہوں نے ایسا بھی نہیں کیا۔

اس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ اعظم خان اچانک غائب ہوتے ہیں، کیس میں نامزد ملزم بنتے ہیں اور پھر 164 کا بیان آجاتا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں معاملات کا نہیں معلوم کہ اعظم خان غائب ہوئے، ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر ہوئی اور پھر واپس بھی لے لی گئی۔

وکیل عمران خان نے کہا کہ سپریم کورٹ کے سامنے بھی سائفر کا مواد نہیں رکھا گیا، سائفر کہاں ہے، جب ایک چیز ہی نہیں تو ہوا میں مقدمہ بناکر کانٹیٹ بنائے گئے، اسلام آباد ہائی کورٹ دو دفعہ کیس ریمانڈ بیک کر چکا ہے، ہم بہت متاثر ہوئے ہیں ، ہمیں ٹرائل کورٹ میں جرح کا موقع نہیں دیا، حق دفاع نہیں دیا، اگر کیس ریمانڈ بیک ہو جاتا ہے تو اس کے گراؤنڈز واضح ہونے چاہئیں۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے آپ کو میرٹ پر سن لیا، آپ کیوں ایسا سوچ رہے کہ ریمانڈ بیک ہوگا؟

اسی کے ساتھ بانی پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر کے دلائل مکمل ہوگئے۔

شاہ محمود قریشی کے وکیل تیمور ملک نے دلائل شروع کرتے ہوئے بتایا کہ سلمان صفدر نے تمام چیزوں کو مکمل کرلیا، مگر میں کچھ چیزیں بتانا چاہتا ہوں۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ جو بھی چیزیں آپ نے بتانی ہیں وہ آپ ہمیں تحریری طور پر دیں۔

بعد ازاں اسپیشل پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے تیاری کے لیے وقت دینے کی استدعا کردی۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے حامد علی شاہ سے مکالمہ کیا کہ ہم فیصلہ معطل کرتے ہیں پھر جتنا بھی آپ کو وقت چاہیے لے لیں، ہم آپ کو یہ نہیں کہیں گے کہ آپ کم وقت لیں ، سلمان صفدر نے15 لے لیے تو آپ کم از کم دلائل تو شروع کریں۔

بعد ازاں عدالت نے سائفر کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔ْ

واضح رہے کہ 4 اپریل کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان اور سابق وزیر شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ جو سیکشن لگائے گئے اور سزا سنائی گئی اس سے تو شاہ محمود قریشی کا تعلق ہی کوئی نہیں۔

اس سے قبل 2 اپریل کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس میں بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی اپیلوں پر سماع ملتوی ہوگئی تھی۔

واضح رہے کہ گزشتہ سماعت پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں سائفر کیس میں سابق وزیر اعظم عمران خان اور سابق وزیر شاہ محمود قریشی کی سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عامر فاروق نے دریافت کیا کہ جب کوڈڈ پیغام کو ڈی کوڈ کر کے کاپی بنائی جائے تو وہ بھی سائفر ہی رہے گا؟

واضح رہے کہ اس سے قبل ہونے والی سماعت میں بھی سلمان صفدر نے بتایا تھا کہ سائفر کی کہانی عدم اعتماد کے بعد شروع ہوئی تھی۔

واضح رہے کہ 28 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں سائفر کیس میں بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت 2 اپریل تک ملتوی کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ کیا سائفر کو ڈی کوڈ نہیں کیا گیا؟

20 مارچ کو ہونے والی سماعت میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان اور سابق وفاقی وزیر شاہ محمود قریشی کی سزا کی خلاف اپیلوں پرچیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ سرکاری وکلا کی تعیناتی کس قانون کے تحت ہوتی ہے؟

19 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس میں بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سزا کے خلاف اپیلوں پر ایڈووکیٹ جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کل جواب طلب کرلیا تھا۔

13 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں ضمانت اور سزا معطلی کی اپیلوں پر میرٹ پر دلائل سننے کا فیصلہ کرلیا تھا۔

11 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزا کے خلاف دائر اپیلوں کے قابل سماعت ہونے پر پی ٹی آئی کے وکلا سے دلائل طلب کرلیے ۔

26 فروری کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے سائفر کیس میں بانی تحریک انصاف عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی سزاؤں کے خلاف اپیلوں پر سماعت کرتے ہوئے وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) کو نوٹس جاری کر دیا۔

16 فروری کو پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان نے سائفر، توشہ خانہ اور نکاح کیسز میں سنائی گئی سزاؤں کے خلاف عدالتوں سے رجوع کیا۔

اس سے قبل سماعت میں عدالت نے سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل نے سزا کے خلاف اپیلوں پر دلائل کا آغاز کردیا جبکہ عدالت نے فریقین کو 11 مارچ مکمل تیاری کے ساتھ آنے کی ہدایت کردی تھی۔

واضح رہے کہ رواں سال 30 جنوری کو سائفر کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو 10، 10 سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی تھی۔

سائفر کیس

سائفر کیس سفارتی دستاویز سے متعلق ہے جو مبینہ طور پر عمران خان کے قبضے سے غائب ہو گئی تھی، پی ٹی آئی کا الزام ہے کہ اس سائفر میں عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے امریکا کی جانب سے دھمکی دی گئی تھی۔

ایف آئی اے کی جانب سے درج فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی ار) میں شاہ محمود قریشی کو نامزد کیا گیا اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات 5 (معلومات کا غلط استعمال) اور 9 کے ساتھ تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔

ایف آئی آر میں 7 مارچ 2022 کو اس وقت کے سیکریٹری خارجہ کو واشنگٹن سے سفارتی سائفر موصول ہوا، 5 اکتوبر 2022 کو ایف آئی اے کے شعبہ انسداد دہشت گردی میں مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں سابق وزیر اعظم عمران خان، شاہ محمود قریشی اور اسد عمر اور ان کے معاونین کو سائفر میں موجود معلومات کے حقائق توڑ مروڑ کر پیش کرکے قومی سلامتی خطرے میں ڈالنے اور ذاتی مفاد کے حصول کی کوشش کا الزام عائد کرتے ہوئے انہیں نامزد کیا گیا تھا۔

مقدمے میں کہا گیا کہ سابق وزیراعظم عمران خان، سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کے معاونین خفیہ کلاسیفائیڈ دستاویز کی معلومات غیر مجاز افراد کو فراہم کرنے میں ملوث تھے۔

سائفر کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ ’انہوں نے بنی گالا (عمران خان کی رہائش گاہ) میں 28 مارچ 2022 کو خفیہ اجلاس منعقد کیا تاکہ اپنے مذموم مقصد کی تکمیل کے لیے سائفر کے جزیات کا غلط استعمال کرکے سازش تیار کی جائے‘۔

مقدمے میں کہا گیا کہ ’ملزم عمران خان نے غلط ارادے کے ساتھ اس کے وقت اپنے پرنسپل سیکریٹری محمد اعظم خان کو اس خفیہ اجلاس میں سائفر کا متن قومی سلامتی کی قیمت پر اپنے ذاتی مفاد کے لیے تبدیل کرتے ہوئے منٹس تیار کرنے کی ہدایت کی‘۔

ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا کہ وزیراعظم آفس کو بھیجی گئی سائفر کی کاپی اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے جان بوجھ کر غلط ارادے کے ساتھ اپنے پاس رکھی اور وزارت خارجہ امور کو کبھی واپس نہیں کی۔

مزید بتایا گیا کہ ’مذکورہ سائفر (کلاسیفائیڈ خفیہ دستاویز) تاحال غیر قانونی طور پر عمران خان کے قبضے میں ہے، نامزد شخص کی جانب سے سائفر ٹیلی گرام کا غیرمجاز حصول اور غلط استعمال سے ریاست کا پورا سائفر سیکیورٹی نظام اور بیرون ملک پاکستانی مشنز کے خفیہ پیغام رسانی کا طریقہ کار کمپرومائز ہوا ہے‘۔

ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ’ملزم کے اقدامات سے بالواسطہ یا بلاواسطہ بیرونی طاقتوں کو فائدہ پہنچا اور اس سے ریاست پاکستان کو نقصان ہوا۔

ایف آئی اے میں درج مقدمے میں مزید کہا گیا کہ ’مجاز اتھارٹی نے مقدمے کے اندراج کی منظوری دے دی، اسی لیے ایف آئی اے انسداد دہشت گردی ونگ اسلام آباد پولیس اسٹیشن میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشنز 5 اور 9 کے تحت تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 ساتھ مقدمہ سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف آفیشنل خفیہ معلومات کا غلط استعمال اور سائفر ٹیلی گرام (آفیشل خفیہ دستاویز)کا بدنیتی کے تحت غیرقانونی حصول پر درج کیا گیا ہے اور اعظم خان کا بطور پرنسپل سیکریٹری، سابق وفاقی وزیر اسد عمر اور دیگر ملوث معاونین کے کردار کا تعین تفتیش کے دوران کیا جائے گا‘۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں