عراق: حملوں اور کار بم دھماکوں میں 39 ہلاک
حلا، عراق: عراق کے اہم شہروں میں اتوار کے روز تقریباً ایک درجن کار بم دھماکوں میں کم از کم 39 افراد ہلاک ہوگئے ہیں جبکہ بغداد کی صوبائی کونسل کے سربراہ پر قاتلہ حملہ کیا گیا جس میں وہ محفوظ رہے ہیں۔
تشدد کی یہ تازہ لہر گزشتہ چند ماہ سے جاری ہے جس میں فرقہ واریت کا رنگ نمایاں ہیں اس سے قبل بھی 2008 میں عراق شدید فرقہ وارانہ تشدد اور حملوں کا شکار رہا جس میں دسیوں ہزاروں افراد اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھے تھے۔
مجاز اداروں نے دہشتگردوں کو روکنے کیلئے سخت ترین اقدامات کئے ہیں لیکن شرپسندوں کی کارروائیاں بھی جاری ہیں۔
اتوار کے روز دہشتگردوں نے ایک درجن سے زائد شہروں اور علاقوں کو نشانہ بنایا ۔ کم از کم 16 کار بم دھماکوں میں 39 افراد ہلاک اور 120 افراد زخمی ہوئے ہیں ۔
ان میں سب سے مہلک واقعہ حلا شہر میں پیش آیا جو عراق کے تاریخی صوبے بابل کا صدر مقام ہے اور وہاں شیعہ مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ یہاں کار بم کے چار دھماکے ہوئے جن میں پولیس اور میڈیکل افسران کے مطابق سولہ افراد ہلاک ہوئے ۔
ایک کار بم دھماکے کے 22 سالہ عینی شاہد سجاد الاماری نے بتایا کہ میں نے جلے ہوئے زخموں کیساتھ لوگوں کو دیکھا جو آگ میں گھرے تھے اور مدد کیلئے چلارہے تھے۔
حادثے کی جگہ موجود ایک اور شخص کرار احمد نے کہا کہ کئی دکانوں کے مالک نیچے گرے ہوئے تھے بعض مر چکے تھے اور کچھ زخمی تھے ان کے ساتھ ہی فرش پر مختلف اشیا بکھری ہوئی تھیں۔
یہ حال کہتے ہوئے کپکپاتے ہوئے احمد نے کہا،' سیکیورٹی فورسز نے دہشتگردوں کیلئے راہ ہموار کردی ہے کہ وہ شہریوں کو نشانہ بناکر قتل کریں۔ '
اب تک کسی بھی گروہ نے ان حملوں کی ذمے داری قبول نہیں کی ہے جو اکثر شیعہ علاقوں میں ہوئے ہیں۔ تاہم القاعدہ سے وابستہ سُنی عسکریت پسند آئے دن عراق کی شیعہ اکثریت کو نشانہ بناتے رہتے ہیں۔
ایک اور اہم واقعے میں بغداد شہر میں ایک سُنی قانون ساز اور صوبائی وزارتی کونسل کے سربراہ ریاض الزہد کے قافلے کو کار بم سے نشانہ بنایا گیا لیکن وہ اس حملے میں محفوظ رہے تاہم ان کے محافظ سمیت دو افراد ہلاک اور چار زخمی ہوئے۔
عراق کے دوسرے تاریخی شہر بصرہ میں ہونے والے دھماکے میں تین افراد ہلاک اور پندرہ زخمی ہوگئے ۔ یہ دھماکہ ایک پرہجوم مارکیٹ میں کیا گیا ۔
اس کے علاوہ، نصیریہ ، کربلا، کوت، سواریہہ، اور حافریہ میں ہونے والے دھماکوں میں پانچ افراد ہلاک ہوئے جبکہ ابوغریب، بعقوبہ، شرکت، کرکوک اور موصل میں کار بم دھماکوں میں دس افراد لقمہ اجل بن گئے ۔
اس سے ایک دن قبل موصل میں ایک جنازے میں بم دھماکہ ہوا تھا جس میں 27 افراد ہلاک ہوگئے تھے جبکہ گزشتہ ہفتے ہونے والے حملوں میں اب تک 200 سے زائد افراد ہلاک ہوچکےہیں۔
سیکیورٹی ادارے دہشتگردوں اور شرپسندوں کیخلاف کارروائی کررہی ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ اس کے نتائج برآمد ہورہے ہیں۔ انہوں نے سینکڑوں مبینہ دہشتگردوں کو گرفتار اور درجنوں کو ہلاک کرنے کے علاوہ ان کے ٹھکانوں کو بھی تباہ کرنے کا دعویٰ کیا ہے جہاں وہ بم بنانے اور اسلحہ جمع کرنے کی کارروائیوں میں ملوث رہے ہیں۔
لیکن حکومت کو اس بات پر بھی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے شیعہ حکام کی جانب سے عرب اور سُنی آبادیوں کے تحفظات اور غصے کو دور کرنے کیلئے کچھ نہیں کیا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اسی غم و غصے کی وجہ سے دہشتگرد نئے جنگجو بھرتی کررہے ہیں