جنوبی کوریا: صدر یون سک یول کے بیرون ملک جانے پر پابندی، سیاسی بحران میں اضافہ
جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول پر مارشل لا نافذ کرنے کی ناکام کوشش پر ملک چھوڑنے پر پابندی عائد کر دی گئی جس کے بعد ملک میں سیاسی بحران مزید گہرا ہوگیا۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق جنوبی کوریا کی وزارت دفاع نے کہا ہے کہ یون سک یول قانونی طور پر اب بھی کمانڈر ان چیف ہیں لیکن اقتدار پر ان کی گرفت سوالیہ نشان بن گئی ہے کیونکہ سینیئر فوجی افسران کے درمیان ان کے حوالے سے تشویش پائی جاتی ہے۔
اس کے علاوہ ان کی جماعت کے اراکین کی جانب سے استعفیٰ کے لیے ایک ٹاسک فورس تشکیل دینے کا عندیہ بھی دیا گیا ہے۔
اعلیٰ عہدیداران کی کرپشن کی تحقیقات کے لیے قائم ادارے کے سربراہ اوہ دونگ وون نے صدر یون سک یول کے بیرون ملک سفر پر پابندی کا حکم دیا، انہوں نے پارلیمنٹ کو صدر کے خلاف کیے جانے والے اقدامات کے حوالے سے اگاہ کیا۔
وزارت انصاف کے ایک عہدیدار بے سانگ نے پارلیمانی پارٹی کو بتایا کہ صدر پر سفری پابندی کے حکم پر عمل درآمد کر دیا گیا۔
یہ پینل 2021 میں صدر اور ان کے اہل خانہ سمیت اعلیٰ حکام کے خلاف تحقیقات کے لیے قائم کیا گیا تھا لیکن اس کے پاس صدر کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا اختیار نہیں ہے، اس کے بجائے، قانون کے مطابق اس معاملے کو استغاثہ کے دفتر کو بھیجنے کی ضرورت ہے۔
یون سک یول ہفتے کے روز پارلیمنٹ میں مواخذے سے بچ نکلے تھے لیکن ان کی پارٹی کی جانب سے صدارتی اختیار وزیراعظم کو تفویض کرنے کے بعد امریکا کا اہم اتحادی آئینی بحران میں گرگیا ہے۔
یون سک یوول نے پارٹی رہنماؤں اور مختلف حلقوں کی طرف سے استعفیٰ دینے کے مطالبے کو مسترد کیا ہے جبکہ ہفتے کے آخر میں ان کا مستقبل اس وقت مزید غیر یقینی کا شکار ہوا جب نیوز ایجنسی ’یون ہاپ‘ نے ان کے خلاف مبینہ غداری کے الزام میں فوجداری تفتیش کے حوالے سے رپورٹ کیا۔
یون ہاپ کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ روز پراسیکیوٹرز نے سابق وزیردفاع کم یون ین کو مارشل لا کے اعلان میں مبینہ کردار پر حراست میں لیا۔
یون سوک یول نے 3 دسمبر کو فوج کو ’ریاست مخالف قوتوں‘ اور رکاوٹ ڈالنے والے سیاسی مخالفین کا سدباب کرنے کے لیے وسیع پیمانے پر ہنگامی اختیارات دیے تھے۔
جنوبی کوریا میں حالیہ صورتحال کے بیش نظر قائم مقام وزیر دفاع سمیت متعدد فوجی عہدیداروں نے کہا ہے کہ وہ دوبارہ مارشل لا نافذ کرنے کے کسی نئے حکم پر عمل نہیں کریں گے۔
ادھر حزب اختلاف کی مرکزی جماعت ڈیموکریٹک پارٹی نے یون سک یول سے فوج کو کنٹرول کرنے کے اختیارات واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے، اپوزیشن جماعت نے مارشل لا میں صدر اور دیگر ملوث فوجی اہلکاروں کی گرفتاری کا بھی مطالبہ کیا۔
یون سوک یول کی جماعت پیپلز پاور پارٹی (پی پی پی) کے ایک ترجمان نے پیر کو بتایا کہ ان کی پارٹی نے دیگر معاملات کے علاوہ مارشل لا کے بعد سیاسی استحکام اور صدر کے قبل از وقت استعفے سے نمٹنے کے لیے ایک ٹاسک فورس تشکیل دی ہے۔
ادھر حزب اختلاف کے رہنما لی جے میونگ نے خبردار کیا ہے کہ سیاسی بحران سے ایشیا کی چوتھی سب سے بڑی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے جبکہ جنوبی کوریا کی وزارت خزانہ اور ریگولیٹرز نے کہا ہے کہ وہ دسمبر کے آخر تک ہنگامی منصوبوں کو نافذ کرکے اور لیکویڈیٹی کو بڑھا کر مالیاتی منڈیوں کو مستحکم کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔
واضح رہے کہ صدر یون سک یول کی جانب سے چار دہائیوں بعد پہلی بار مارشل لا جیسے اقدام نے جنوبی کوریا کی قوم کو ماضی کی دردناک یادوں میں دھکیل دیا۔
صدر یون کا مارشل لا لگاتے وقت کہنا تھا کہ ’اس اقدام کا مقصد جنوبی کوریا کو ایٹمی قوت کے حامل دشمن ملک شمالی کوریا کے جارحانہ اقدامات اور ریاست مخالف عناصر کی بیخ کنی کرنا ہے۔‘
صدر کے اس اعلان کے بعد سیکیورٹی فورسز نے قومی اسمبلی کو سیل کر دیا تھا اور تقریباً 300 فوجیوں نے بظاہر قانون سازوں کو پارلیمان کے اندر داخل ہونے سے روکنے کے لیے عمارت کو تالا لگانے کی کوشش کی تھی۔
تاہم پارلیمنٹ کے عملے نے دروازوں کے پیچھے صوفے اور آگ بجھانے کے آلات رکھ کر فوجیوں کو داخلے سے روکنے کی کوشش کی تھی جبکہ رکاوٹیں عبور کرکے بڑی تعداد میں ارکان بھی پارلیمنٹ بھی پہنچ گئے تھے جہاں انہوں نے ووٹنگ کے ذریعے مارشل لا ختم کرنے کا بل منظور کیا تھا۔