طالبان نے مغوی ڈاکٹر رہا کردیے

کوئٹہ : صوبہ بلوچستان کے ضلع قلعہ سیف اللہ سے تین ماہ قبل طالبان کی جانب سے اغواء کیے جانے والے تین ڈاکٹروں کو رہا کر دیا گیا۔
مسلح افراد نے رواں سال گیارہ جون کو تین ڈاکٹروں اور دو طبی عملے کے ارکان کو ضلع قلعہ سیف اللہ سے اغواء کیا تھا۔ رہا کیے گئے ایک ڈاکٹر کے بھائی اور پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی سے تعلق رکھنے والے بلوچستان اسمبلی کے رکن عبیداللہ جان بابت نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ تمام ڈاکٹروں کو اغواء کاروں نے رہا کر دیا ہے۔
تاحال طالبان نے واقعے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے تاہم اغواء ہونے والے ایک ڈاکٹر کے اہلخانہ کے رکن نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ طالبان نے ڈاکٹروں کو اغواء کیا تھا۔
اسی طرح ایک سیکیورٹی افسر نے بھی نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ ڈاکٹروں کے اغواء میں طالبان ملوث ہیں۔
ڈاکٹروں نے تین ماہ سے زائد عرصہ پاکستان کے سورش زدہ قبائلی علاقے میں گزارے تھے۔
بابت نے بتایا 'انہیں بنوں میں آزاد کیا گیا ہے' تاہم بابت نے اس بات کی تصدیق کی نہ ہی رد کیا کہ اغواء کاروں کو کتنا تاوان ادا کیا تھا۔
بابت نے ٹیلی فون پر بتایا کہ ڈاکٹروں نے ذہنی اور جسمانی طور پر بہت کچھ جھیلا ہے'۔
انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹروں کو ان کےآبائی قصبے لورالائی منتقل کرنے کے انتظامات کیے جا رہے ہیں۔
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) کے اراکین نے کوئٹہ اور بلوچستان کے دوسرے حصوں میں ڈاکٹروں کے اغواء کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے اور حکومت پر ڈاکٹروں کی بغیر کسی نقصان کی بازیابی کو یقینی بنانے پر دباؤ ڈالا۔
پی ایم اے کے اراکین نے اغواء کے خلاف لورالائی میں ہسپتالوں میں ہڑتال بھی کی۔
کوئٹہ میں سینیئر ڈاکٹر مناف ترین کے اغواء کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ڈاکٹروں نے سرکاری ہسپتالوں میں تین گھنٹوں تک ہڑتال کی۔
مسلح افراد نے چار دن قبل ڈاکٹر مناف ترین کو کوئٹہ کے حساس علاقے پشین سے اغواء کر لیا تھا۔
پی ایم اے کے اعلان پر سول ہسپتال، بولان میڈیکل کمپلکس اور دوسرے سرکاری ہسپتالوں میں تین گھنٹوں کے لے او پی ڈی بند رہی۔
پی ایم اے کے صدر ڈاکٹر سلطان ترین نے کوئٹہ میں پریس کانفرنس میں بتایا کہ ڈاکٹر مناف کی بازیابی تک ہمارا احتجاج جاری رہے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت ڈاکٹروں کو تحفظ دینے میں مکمل طور پر نا کام ہو چکی ہے۔
ترین نے کہا کہ حساس علاقے سے ڈاکٹر کا اغوا سیکورٹی اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔
دوسری جانب کوئٹہ پولیس کے سربراہ زبیر محمود نے دعٰوی کیا ہے کہ پولیس نے شہر کے مختلف حصوں میں کامیاب کارروائی کے دوران تین اغواء کاروں کو گرفتار کر لیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ملزمان سے تاوان کی رقم بھی برآمد کی گئی ہے جبکہ سینیئر پولیس افسران اغواکاروں سے تفتیش کر رہے ہیں۔
بلوچستان اور خاص طور پر کوئٹہ میں اغواء برائے تاوان کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
حال ہی میں منعقد بلوچستان اسمبلی کے اجلاس کے دوران وزیر اعلٰی بلوچستان ڈاکٹر ملک بلوچ نے یہ انکشاف کیا تھا کہ تشدد کے شکار شہر میں اغواء برائے تاوان میں 78 گروہ ملوث ہیں۔











لائیو ٹی وی