پہلگام واقعے کے بعد بھارت کی چال عالمی حمایت حاصل کرنے میں ناکام
22 اپریل کو پہلگام واقعے کے بعد بھارت کی جارحانہ روش کو ایک اور سفارتی دھچکا لگ چکا ہے۔ نئی دہلی کو جس حمایت کی توقع تھی، عالمی بساط کے بڑے کھلاڑیوں نے اس حوالے سے اسٹریٹجک ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا ہے۔
حملے کو مبینہ طور پر سرحد پار دہشتگردی سے منسوب کرتے ہوئے بھارت نے پاکستان کے لیے محاذ آرائی کا مؤقف اختیار کیا۔ لیکن بھارت کا یہ ردعمل اچانک نہیں تھا بلکہ یہ اس بڑی حکمت عملی کا حصہ تھا جو گزشتہ ایک دہائی سے تیار ہورہی ہے۔
نریندر مودی کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت جو نہ صرف ہندو قوم پرست نظریے کی عینک لگا کر معاملات کو دیکھتی ہے بلکہ وہ ایک اور بڑی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے جوکہ جنوبی ایشیا خطے میں بھارت کے کردار کو تبدیل کرنا ہے اور اسے خطے میں ایک ایسا طاقتور ملک بنانا ہے جس کا کوئی حریف نہ ہو۔
پہلگام واقعے کو نئی دہلی نے اپنے اسی مؤقف کو تقویت دینے کے موقع کے طور پر جانا۔
بھارت نے یہ نقطہ نظر اس تصور کی بنیاد پر بنایا کہ عالمی ماحول ان کے لیے سازگار ہے۔ امریکا کے ساتھ بڑھتے تعلقات، کواڈ الائنس میں بھارت کا مرکزی کردار اور چین کے خلاف اس کی پوزیشن نے نئی دہلی میں بیٹھے پالیسی سازوں کو یہ یقین دلایا کہ اسٹریٹجک شراکت دار غیرمشروط تعاون پیش کریں گے۔
دوسری جانب پاکستان کو کمزور ریاست کے طور پر دیکھا گیا جو اقتصادی بحران، مغرب کی جانب سے سفارتی تنہائی کا شکار ہے اور چین پر حد سے زیادہ انحصار کرتا ہے جبکہ اس کی اندرونی سیاسی طور پر بھی تقسیم ہے۔
یوں پہلگام واقعے کے بعد ہونے والی کشیدگی بھارت کی بڑھتی ہوئی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے اور پاکستان کے ساتھ تعلقات کو نئے سرے سے متعین کرنے کے لیے ایک سوچا سمجھا اقدام تھا۔
تاہم نئی دہلی کو یہ دیکھ کر مایوسی ہوئی کہ وہ اپنے جارحانہ رویے کو قانونی طور پر درست قرار دینے والی متوقع عالمی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ امریکا نے کسی فریق کا ساتھ دینے کے بجائے اسٹریٹجک استحکام اور طویل مدتی شراکت داری کو ترجیح دی، چین نے پاکستان کے ساتھ اتحاد کو برقرار رکھتے ہوئے معاملے پر غیرجانبداری کا مظاہرہ کیا جبکہ خلیجی ممالک نے بھی معاملے پر احتیاط سے کام لیا۔
واشنگٹن نے بھارت کا ساتھ نہ دیا
پہلگام حملے کے وقت امریکی نائب صدر جے ڈی وینس دورہ بھارت پر تھے جس نے اس یقین کو تقویت دی کہ واشنگٹن غیرواضح طور پر بھارت کی حمایت کرے گا۔
لیکن ان توقعات پر اس وقت پانی پھر گیا جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ گزشتہ امریکی حکومتوں کے برعکس ڈونلڈ ٹرمپ نے اسے ’جوہری تنازع‘ کے طور پر نہیں دیکھا بلکہ ان کے ریمارکس نے یہ تاثر دیا کہ انہیں دونوں ممالک کے مابین تنازع میں کوئی دلچسپی نہیں۔
سینیٹ کی کمیٹیوں برائے خارجہ امور اور دفاع کے سابق سربراہ سینیٹر مشاہد حسین نے ریمارکس دیے کہ صدر ٹرمپ جو روایتی بھارت نواز امریکی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی نمائندگی نہیں کرتے، بنیادی طور پر جنگ کے خلاف ہیں اور وہ ان کے ہاتھوں میں نہیں کھیلنا چاہتے جنہیں انہوں نے ’جنگ کے شوقین بھارتی‘ قرار دیا تھا۔
امریکا کے اس محتاط انداز کی جھلک ہم نے سینئر امریکی اہلکاروں کے بیانات میں بھی دیکھی۔ امریکی انڈر سیکریٹری آف ڈیفنس ایلبریج کولبی نے بھارتی ایلچی ونے موہن کواترا سے ملاقات کے بعد بیان میں پاکستان، دہشت گردی یا پہلگام حملے کا ذکر کرنے سے بھی گریز کیا۔
اس کے بجائے انہوں نے دفاعی تعاون میں عمومی وعدوں کا اعادہ کیا۔ یہ واشنگٹن کے وسیع تر انڈو پیسیفک حکمت عملی کے مطابق ہے جس میں بھارت کی بنیادی اہمیت چین کے خلاف مسابقتی حریف کے اس کے کردار میں ہے۔
لیکن اس سب کے باوجود امریکا نے کشیدگی کم کرنے کی متحرک کوشش کی ہے۔ امریکی اسٹیٹ سیکریٹری مارکو روبیو نے وزیر اعظم شہباز شریف اور بھارتی وزیرِ خارجہ جے شنکر سے رابطہ کیا اور دہشت گردی کی مذمت، تحمل پر زور دینے اور جنوبی ایشیا میں امن کے تحفظ کے لیے دو طرفہ تعاون کو فروغ دینے پر توجہ مرکوز رکھی۔
ایک اور مثال میں بھارتی وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے اپنے امریکی ہم منصب پیٹ ہیگستھ سے ٹیلی فونک رابطہ کیا اور پاکستان پر وہی پرانے الزامات لگائے کہ وہ دہشتگردی کی حمایت کرکے خطے کو غیرمستحکم کررہا ہے۔ بھارت نے دعویٰ کیا کہ امریکی وزیر دفاع نے بھارت کے دفاع کے حق کی تائید کی۔
تاہم امریکی وزارت دفاع کے سرکاری جاری کردہ بیان میں تو پہلگام، خطے کی کشیدہ صورت حال اور حتیٰ کہ پاکستان تک کا نام شامل نہیں۔
سماجی ویب سائٹ ایکس کی ایک پوسٹ میں پیٹ ہیگستھ نے بھارت کی حمایت کی پیش کی۔ ’میں بھارت کی مضبوط حمایت کرتا ہوں۔ ہم بھارت اور اس کے عظیم عوام کے ساتھ کھڑے ہیں‘۔
صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے امریکی اسکالر ڈینئل مارکی نے مشاہدہ کیا، ’واشنگٹن کا ماننا ہے کہ بھارت کے سلامتی کے مسئلے کا حل براہ راست فوجی کارروائی نہیں‘۔
انہوں نے مزید کہا، ’موجودہ غیریقینی صورت حال کو دیکھتے ہوئے واشنگٹن بھارت کو فوجی آپریشن کا گرین سگنل نہیں دے سکتا حالانکہ وہ بھارت سے ہمدردی رکھتا ہے‘۔
اسی طرح پاکستان کو بھارت کے لیے مضبوط امریکی حمایت نہ ہونے کو اس بات کی علامت کے طور پر نہیں لینا چاہیے کہ امریکا پاکستان کے مؤقف کی تائید کررہا ہے۔
اسٹیٹ، پینٹاگون اور لینگلے (سی آئی اے) سے تعلق رکھنے والے امریکی حکام نے پاکستان پر بھی کافی دباؤ ڈالا ہے کہ وہ تحقیقات میں بھارت کے ساتھ تعاون کرے جوکہ اسلام آباد کے آزادانہ تحقیقات کے مطالبے سے متصادم ہے۔
امریکا نے پاکستان پر دباؤ ڈالا ہے کہ وہ اس حملے کے حوالے سے سخت مذمتی بیان جاری کرے حالانکہ پاکستانی حکومت نے حملے کے بعد دفترِ خارجہ کے جاری بیان میں واقعے کی مذمت کی تھی۔
حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی بڑے ملک نے خاص طور پر امریکا نے واضح طور پر بھارت کی حمایت نہیں کی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ امریکا ٹھوس ثبوت کے بغیر کسی کی طرف داری نہیں کرنا چاہتا۔ جیسا کہ عالمی میڈیا نے سوال کیا کہ بھارت نے پاکستان کے خلاف واضح ثبوت کیوں نہیں پیش کیے، اس سے شکوک و شبہات میں اضافہ ہوا جس سے 2019ء کے پلوامہ حملے کے برعکس بھارت کے لیے بین الاقوامی حمایت حاصل کرنا مشکل ہوگیا۔
اس کے علاوہ یوکرین معاملے پر غیرجانبدار ہونے کی وجہ سے بہت سے مغربی ممالک بھارت سے نالاں ہیں کیونکہ اس نے روس سے تیل کی خریداری جاری رکھی جوکہ مغرب کے وسیع تر جغرافیائی سیاسی اہداف کے منافی ہے۔
امریکا کے لیے پاکستان کے سابق سفیر مسعود خان نے کہا، ’واشنگٹن میں دوبارہ غور کیا جارہا ہے۔ بھارت گویا امریکا کی پشت پر سوار ہے لیکن وہ بدلے میں امریکا کے لیے کچھ نہیں کررہا‘۔
انہوں نے مزید کہا، ’بھارت نے ہٹ دھرمی اور تذلیل سے کام لیا لیکن اسے نتائج کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ امریکی اپنے مفادات کا تحفظ کرنا جانتے ہیں۔ اب تک وہ جان چکے ہیں کہ بھارت ان کا استعمال کررہا ہے اور وہ خطے میں ان کے ہاتھوں خود کو کھلونا نہیں بننے دیں گے‘۔
مشرق میں دوست ممالک
اسی طرح چین نے زیادہ محتاط اور ہوشیار رویہ اپنایا ہے۔ سرکاری طور پر بیجنگ نے پہلگام واقعے کو ’دہشتگرد حملہ‘ قرار دیا اور غیرجانبدارانہ زبان کا استعمال کرتے ہوئے بھارت اور پاکستان کو تناؤ کم کرنے کے لیے کہا۔ اس متوازن پیغام نے ماضی کی سرحدی جھڑپوں کے بعد بھارت کے ساتھ اپنے کشیدہ تعلقات کو بہتر بنانے کی چین کی حالیہ کوششوں کو بھی ظاہر کیا۔
تاہم پردے کے پیچھے چین نے پاکستان کی جانب سے آزادانہ تحقیقات کے مطالبے کی خاموش حمایت کی اور اسلام آباد کے ساتھ مضبوط عسکری تعاون کا اعادہ کیا۔ اس ذو معنی مؤقف نے چین کو پاکستان کے ساتھ اپنی ’آہنی پوش‘ شراکت داری کو مزید تقویت دیتے ہوئے خود کو عوامی سطح پر ایک ذمہ دار علاقائی طاقت کے طور پر پیش کرنے کا موقع دیا۔
خلیجی ممالک جنہیں روایتی طور پر بھارت کے ساتھ مضبوط تجارتی تعلقات اور بڑی تعداد میں ان کے ممالک میں مقیم بھارتی شہریوں کی وجہ سے بھارت کا دوست سمجھا جاتا ہے، انہوں نے بھی غیرجانبداری کا مظاہرہ کیا۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر نے اپنے جاری کردہ بیانات میں تناؤ کم اور معاملے کا پُرامن حل نکالنے پر زور دیا۔
یہ ردعمل بھارتی مؤقف کی پشت پناہی کے بارے میں کم بلکہ اپنے اسٹریٹجک مفادات کے تحفظ کے بارے میں زیادہ تھے۔ علاقائی استحکام میں سرمایہ کاری کرنے والا سعودی عرب، بھارت یا پاکستان میں سے کسی ایک کو چننے سے اجتناب کرنا چاہتا ہے۔
بھارت کا قریبی اقتصادی شراکت دار متحدہ عرب امارات میں بڑی تعداد میں پاکستانی افرادی قوت ہے جبکہ وہ سفارتی توازن کو بھی اہمیت دیتا ہے۔ قطر جو ثالثی سفارت کاری کی وجہ سے مشہور ہے، وہ اپنی وسیع خارجہ پالیسی کے مطابق غیر جانبدارانہ مؤقف پر قائم رہا۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔