لاس اینجلس کے بعد واشنگٹن میں بھی کرفیو کا نفاذ، مظاہرے مختلف امریکی ریاستوں تک پھیل گئے
امریکی شہر لاس اینجلس کے مرکزی علاقے (ڈاؤن ٹاؤن) میں دوسری رات بھی کرفیو نافذ کر دیا گیا، جب کہ شہر میں امیگریشن چھاپوں اور فوج کی تعیناتی کے خلاف مظاہرے چھٹے دن بھی جاری ہیں اور احتجاج امریکا بھر میں پھیل چکا ہے۔
امریکی نشریاتی ادارے ’سی این این‘ کی رپورٹ کے مطابق لاس اینجلس کی طرز کے مظاہرے پورے امریکا میں پھیل چکے ہیں، نیویارک، شکاگو، آسٹن اور واشنگٹن ڈی سی میں لوگ سڑکوں پر نکل آئے ہیں، اور اس ہفتے مزید مظاہروں کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے ایک جج سے درخواست کی ہے کہ وہ کیلیفورنیا کی عدالت کے اُس حکم کو مسترد کریں جو حکام کو میرینز اور نیشنل گارڈ کے استعمال سے روکتا ہے۔
لاس اینجلس کے علاقے میں تعینات کیے گئے 700 میرینز اب بھی تربیت کے مراحل میں ہیں، اور یہ واضح نہیں ہے کہ انہیں مظاہروں سے نمٹنے کے لیے کب تعینات کیا جائے گا۔
اسپوکن واشنگٹن میں بھی ہنگامی کرفیو کا نفاذ
اسپوکن، واشنگٹن کی میئر لیزا براؤن نے کچھ علاقوں میں ہنگامی کرفیو نافذ کرنے کا اعلان کیا ہے جو نافذ العمل ہوچکا ہے۔
میئر کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق کرفیو مقامی وقت کے مطابق رات ساڑھے 9 بجے سے صبح 5 بجے تک نافذ رہے گا۔
کرفیو کے دوران ہر شہری کے لیے پابندی کرنا لازمی قرار دیا گیا ہے، تاہم ایمرجنسی عملہ، میڈیا کے نمائندے، علاقے کے رہائشی، کام پر جانے یا واپس آنے والے افراد، اور قریبی فٹبال میچ سے واپس جانے والے لوگ پابندی سے مستثنیٰ ہوں گے۔
سی این این کے مقامی شراکت دار چینل ’کے ایچ کیو‘ کی ویڈیو میں دکھایا گیا کہ بدھ کی سہ پہر مظاہرین کے بڑے گروہوں نے شہر کی سڑکوں کا رخ کیا، پلے کارڈز اٹھائے اور سڑکیں بند کیں۔
کے ایچ کیو کی ویڈیو کے مطابق کرفیو کے نفاذ سے پہلے پولیس نے گیس ماسک پہن لیے اور ایسا آلہ استعمال کیا جو ہجوم پر دھواں چھوڑتا ہے، تاہم فی الحال یہ واضح نہیں ہو سکا کہ پولیس نے کون سا مخصوص آلہ استعمال کیا۔
اس کے بعد مظاہرین سڑک سے ہٹ کر فٹ پاتھوں پر پھیل گئے اور پولیس کے خلاف نعرے لگانے لگے۔
بل کلنٹن کی ٹرمپ انتظامیہ کے فیصلے پر تنقید
سابق صدر بل کلنٹن نے نیویارک میں اپنی کتاب کی تقریب کے دوران لاس اینجلس میں مظاہروں کے جواب میں ٹرمپ انتظامیہ کے نیشنل گارڈ کو وفاق کے تحت لانے کے فیصلے پر تنقید کی ہے۔
کلنٹن نے بدھ کے روز حاضرین سے کہا کہ صدر ٹرمپ نے اس معاملے میں مداخلت کی تاکہ وہ کیلیفورنیا کو بدنام کر سکیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر آپ نیشنل گارڈ کو وفاق کے تحت لانا چاہتے ہیں تو یہ صرف اُس وقت ہونا چاہیے جب کوئی بڑی قدرتی آفت آئے، یا جب مقامی سطح پر امن و امان قائم رکھنے والے حکام کہیں کہ ہمیں مدد کی ضرورت ہے، آپ ایسا موقع میڈیا شو بنانے کے لیے نہیں چاہتے، آپ جو چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ حالات کو جلد از جلد پرامن طریقے سے قابو میں لایا جائے۔
گزشتہ ہفتے، صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امیگریشن کے خلاف لاس اینجلس میں ہونے والے مظاہروں کو دبانے کے لیے نیشنل گارڈ کی تعیناتی کا حکم دیا، جس سے کیلیفورنیا کے گورنر گیون نیوسم کی مخالفت کو نظر انداز کر دیا گیا، اسے ایک غیر معمولی اقدام قرار دیا جارہا تھا۔
نیوسم نے منگل کے روز ٹرمپ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ ’جمہوریت ہماری آنکھوں کے سامنے حملے کی زد میں ہے، وہ لمحہ آ چکا ہے جس سے ہمیں ڈر تھا‘۔
مظاہروں پر امریکی عوام کی رائے منقسم
امریکی عوام صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس فیصلے پر تقریباً برابر تقسیم نظر آتے ہیں، جس کے تحت انہوں نے لاس اینجلس میں مظاہروں کے جواب میں نیشنل گارڈز اور میرینز کو تعینات کیا، یہ بات واشنگٹن پوسٹ اور جارج میسن یونیورسٹی کے شار اسکول کی جانب سے منگل کو کیے گئے ایک روزہ سروے میں سامنے آئی ہے۔
مجموعی طور پر 44 فیصد افراد ٹرمپ کے اس فیصلے کی مخالفت کرتے ہیں، 41 فیصد حمایت کرتے ہیں، جب کہ 15 فیصد افراد اس بارے میں غیر یقینی کا شکار ہیں۔
سروے کے مطابق ریپبلکنز کی اکثریت (86 فیصد) ٹرمپ کے اقدام کی حمایت کرتی ہے، جبکہ ڈیموکریٹس کی بڑی تعداد (76 فیصد) اس کی مخالف ہے، سیاسی طور پر غیر جانبدار افراد کی اکثریت اس فیصلے کی مخالفت کرتی ہے (48 فیصد مخالفت، 33 فیصد حمایت، اور 19 فیصد غیر یقینی)۔
سروے میں مظاہروں کے بارے میں عوام کی رائے بھی تقریباً منقسم ہے، 39 فیصد افراد لاس اینجلس میں وفاقی حکومت کی امیگریشن پالیسی کے خلاف مظاہروں کی حمایت کرتے ہیں، 40 فیصد مخالفت کرتے ہیں، جب کہ 21 فیصد غیر یقینی کا شکار ہیں۔
اس بات پر بھی عوام کی رائے بٹی ہوئی ہے کہ آیا یہ مظاہرے زیادہ تر پرامن تھے (35 فیصد)، یا زیادہ تر پرتشدد (37 فیصد)، جب کہ ایک بڑی تعداد (28 فیصد) اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکی۔
ایسے سروے جو صرف ایک دن میں کیے جاتے ہیں، ان میں ممکنہ غلطی کا امکان زیادہ ہوتا ہے، کیونکہ تمام منتخب افراد اس ایک دن میں جواب دینے کے لیے دستیاب نہیں ہوتے۔
یہ سروے منگل 10 جون کو، ایس ایس آر ایس اوپینین پینل کے ایک ہزار 15 ارکان کے درمیان ٹیکسٹ میسج کے ذریعے کیا گیا، مکمل نتائج میں نمونہ جاتی غلطی کی گنجائش پلس یا مائنس 3.4 فیصد پوائنٹس ہوسکتا ہے۔












لائیو ٹی وی