• KHI: Partly Cloudy 22.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 15.3°C
  • ISB: Cloudy 13.2°C
  • KHI: Partly Cloudy 22.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 15.3°C
  • ISB: Cloudy 13.2°C

فرانس: غیر ملکی سفارتکاروں کے قتل کے الزام میں قید لبنانی جنگجو کی 40 سال بعد رہائی کا حکم

شائع July 17, 2025
جارج ابراہیم کو 1987 میں امریکی فوجی اتاشی اور اسرائیلی سفارتکار کے قتل پر عمر قید دی گئی تھی۔
—فوٹو: رائٹرز
جارج ابراہیم کو 1987 میں امریکی فوجی اتاشی اور اسرائیلی سفارتکار کے قتل پر عمر قید دی گئی تھی۔ —فوٹو: رائٹرز

فرانس کی اپیل کورٹ نے جمعرات کے روز فلسطین نواز لبنانی جنگجو جارج ابراہیم عبداللہ کی رہائی کا حکم دیا، جو 1982 میں دو غیر ملکی سفارت کاروں کے قتل کے الزام میں 40 سال سے قید تھے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق 74 سالہ جارج ابراہیم عبداللہ فرانس کے طویل ترین قیدیوں میں سے ایک ہیں، جہاں عمر قید کی سزا پانے والے زیادہ تر مجرم 30 سال سے کم مدت میں رہا ہو جاتے ہیں۔

وہ پچھلے 25 سالوں سے رہائی کے اہل تھے، لیکن کیس میں فریق امریکا نے ان کی رہائی کی ہمیشہ مخالفت کی۔

جارج ابراہیم عبداللہ کو 1987 میں امریکی فوجی اتاشی چارلس رابرٹ رے اور اسرائیلی سفارت کار یعقوب بارسیمانتوف کے قتل میں ملوث ہونے پر عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

انہوں نے ہمیشہ یہ مؤقف اختیار کیا کہ وہ ایک مجاہد ہیں، جو فلسطینیوں کے حقوق کے لیے لڑے، انہوں نے کوئی جرم نہیں کیا۔

پیرس کی اپیل کورٹ نے ان کی رہائی کا حکم اس شرط پر دیا کہ وہ فرانسیسی سرزمین کو چھوڑ دیں گے اور دوبارہ کبھی واپس نہیں آئیں گے، انہیں فرانس کے جنوبی علاقے کی جیل سے اگلے ہفتے، جمعہ 25 جولائی کو رہا کیا جائے گا۔

سماعت سے قبل متعدد ذرائع کا کہنا تھا کہ انہیں پیرس سے بیروت لے جانے کے لیے پرواز کا انتظام کیا گیا ہے۔

لبنانی حکام بارہا کہہ چکے ہیں کہ عبداللہ کو جیل سے رہا کیا جانا چاہیے اور انہوں نے اپیل عدالت کو یہ تحریری طور پر بھی بتایا تھا کہ وہ ان کی وطن واپسی کا بندوبست کریں گے۔

لبنان میں عبداللہ کے بھائی، رابرٹ عبداللہ نے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ وہ خوشی سے نہال ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم بہت خوش ہیں۔ مجھے کبھی امید نہیں تھی کہ فرانسیسی عدلیہ ایسا فیصلہ کرے گی یا وہ کبھی رہا ہوں گے، خاص طور پر اتنی بار رہائی کی ناکام درخواستوں کے بعد ہم امید کھوچکے تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ فرانسیسی حکام نے بالآخر اسرائیلی اور امریکی دباؤ سے خود کو آزاد کرلیا۔

استغاثہ فرانس کی اعلیٰ ترین عدالت (کورٹ آف کیساشن) میں اپیل دائر کر سکتے ہیں، لیکن توقع ہے کہ یہ عمل اتنا سست ہوگا کہ اگلے ہفتے ان کی رہائی میں رکاوٹ نہیں بن سکے گا۔

عبداللہ کے وکیل ژاں-لوئی شالانسے نے بھی اس فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ایک عدالتی فتح ہے، لیکن یہ ایک سیاسی اسکینڈل بھی ہے کہ انہیں پہلے کیوں نہیں رہا کیا گیا؟۔

نومبر گزشتہ سال، ایک فرانسیسی عدالت نے ان کی رہائی کا حکم دیا تھا، تاہم شرط رکھی تھی کہ انہیں فرانس چھوڑنا ہوگا۔

لیکن فرانسیسی انسدادِ دہشت گردی کے استغاثہ نے، یہ دلیل دیتے ہوئے کہ عبداللہ نے اپنے سیاسی نظریات تبدیل نہیں کیے، اس فیصلے کے خلاف اپیل کی، جس کے باعث رہائی کا فیصلہ معطل کر دیا گیا۔

فروری میں اس فیصلے کا اعلان ہونا تھا، لیکن عدالت نے اسے مؤخر کر دیا، عدالت نے کہا کہ یہ واضح نہیں کہ عبداللہ نے متاثرہ فریقین کو معاوضہ ادا کیا ہے یا نہیں، جو کہ وہ مسلسل انکار کرتے رہے ہیں۔

گزشتہ ماہ عدالت نے ان کی رہائی کی تازہ ترین درخواست پر دوبارہ غور کیا۔

بند کمرے میں ہونے والی اس سماعت میں، عبداللہ کے وکیل نے ججوں کو بتایا کہ قیدی کے بینک اکاؤنٹ میں 16 ہزار یورو رکھ دیے گئے ہیں، جو کیس کے متاثرہ فریقین، بشمول امریکا، کے لیے دستیاب ہیں۔

عبداللہ کو اب بھی فرانس میں کچھ عوامی شخصیات کی حمایت حاصل ہے، جن میں بائیں بازو کے اراکین پارلیمنٹ اور نوبیل انعام یافتہ مصنفہ اینی ایرنو شامل ہیں، لیکن عوام میں وہ تقریباً فراموش کیے جا چکے ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 13 دسمبر 2025
کارٹون : 12 دسمبر 2025