طالبان حکومت کی خفیہ برطانوی آباد کاری منصوبے میں شامل افغانوں کی گرفتاری اور نگرانی کی تردید
طالبان حکومت نے خفیہ برطانوی آباد کاری منصوبے میں شامل افغان باشندوں کی گرفتاری اور نگرانی کی تردیدکر دی، اس خفیہ منصوبے کا انکشاف رواں ہفتے ڈیٹا لیک ہونے کے بعد ہوا تھا۔
عالمی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق طالبان حکومت نےکہا ہے کہ ان افغانوں کو نہ تو گرفتار کیا ہے اور نہ ہی ان کی نگرانی کی ہے جو ایک خفیہ برطانوی آباد کاری منصوبے میں شامل تھے، جس کا انکشاف اس ہفتے ڈیٹا لیک ہونے کے بعد ہوا تھا۔
برطانوی حکومت نے انکشاف کیا تھا کہ ہزاروں افغان جنہوں نے برطانیہ کے ساتھ کام کیا تھا، انہیں 2022 میں ڈیٹا لیک ہونے کے بعد ان کی جانوں کو لاحق خطرے کے پیش نظر خاندانوں سمیت خفیہ پروگرام کے تحت برطانیہ لایا گیا۔
یہ منصوبہ اس وقت منظر عام پر آیا جب برطانیہ کی ہائی کورٹ نے اس پر عائد ’سپر گیگ آرڈر‘ کو ختم کیا جس کے تحت اس واقعے کی رپورٹنگ پر پابندی عائد کی گئی تھی۔
برطانیہ کے وزیر دفاع جان ہیلی نے کہا کہ اس لیک کو اس لیے خفیہ رکھا گیا تھا کہ اگر طالبان حکام کو یہ ڈیٹا سیٹ مل جاتا تو افغانوں کی جانوں کو خطرہ لاحق ہو سکتا تھا۔
افغان حکومت کے نائب ترجمان حمد اللہ فطرت نے آج صحافیوں کو بتایا کہ’ کسی کو بھی ان کے ماضی کے اقدامات کی وجہ سے گرفتار یا قتل نہیں کیا گیا اور نہ ہی کسی کی نگرانی کی جا رہی ہے، لیک ہونے والے ڈیٹا میں شامل چند افراد کی تحقیقات اور نگرانی کی خبریں غلط ہیں۔’
جب طالبان نے 2021 میں دوبارہ اقتدار سنبھالا تھا تو ان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ نے نیٹو فورسز یا معزول غیر ملکی حمایت یافتہ حکومت کے لیے 2 دہائیوں کی جنگ کے دوران کام کرنے والے افغانوں کے لیے عام معافی کا اعلان کیا تھا۔
حمد اللہ فطرت نے مزید کہا کہ ’ ان سب کی معلومات اور دستاویزات وزارت دفاع، وزارت داخلہ اور انٹیلی جنس ایجنسی میں موجود ہیں، ہمیں برطانیہ سے لیک ہونے والے دستاویزات کی ضرورت نہیں ہے۔’
انہوں نے کہا کہ ’ یہ افواہیں افغانوں اور ان کے خاندانوں میں خوف پیدا کرنے کے لیے پھیلائی جا رہی ہیں۔’
برطانوی وزیر دفاع جان ہیلی کے مطابق افغان ریسپانس روٹ کے نام سے جانے والے اس پروگرام کے تحت اب تک تقریباً 900 افغان اور ان کے 3600 خاندان کے افراد برطانیہ پہنچ چکے ہیں یا پہنچ رہے ہیں، جس پر تقریباً 400 ملین پاؤنڈ (535 ملین ڈالر) خرچ آیا ہے۔
یہ افراد ان تقریباً 36 ہزار افغانوں میں شامل ہیں، جنہیں برطانیہ نے اگست 2021 میں سقوط کابل کے بعد مختلف اسکیموں کے تحت قبول کیا۔
خیال رہے کہ جب طالبان اپنی بغاوت میں کامیاب ہوئے تو اس کے بعد ہزاروں افغان افراتفری کے عالم میں ملک چھوڑ کر چلے گئے تھے۔
ہزاروں مزید افغانوں کو یورپی اور امریکی پناہ گزین اسکیموں کے تحت دوبارہ آباد کیا گیا، لیکن چار سال بعد یہ عمل اب تقریباً رک چکا ہے۔
افغانستان میں اقوامِ متحدہ کے امدادی مشن (UNAMA) نے 2023 میں کہا تھا کہ طالبان حکام کی جانب سے سابقہ حکومتی اہلکاروں اور سابقہ مسلح افواج کے ارکان کے خلاف سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی معتبر رپورٹس موجود ہیں۔
طالبان کے افغانستان پر 15 اگست 2021 کو کنٹرول سنبھالنے سے لے کر 30 جون 2023 تک، یو این اے ایم اے نے اپنی رپورٹ میں کم از کم 800 ماورائے عدالت قتل، غیر قانونی گرفتاری اور حراست، تشدد، بدسلوکی اور جبری گمشدگی کے واقعات کو دستاویزی شکل دی۔
طالبان کی وزارت خارجہ نے ان الزامات کو مسترد کیا ہے اور کہا کہ تمام سابقہ ملازمین کو معاف کر دیا گیا ہے۔












لائیو ٹی وی