جرمنی نے مختلف جرائم میں ملوث 81 افغان باشندوں کو ملک بدر کر دیا
جرمنی نے 81 افغان مردوں کو طالبان کے زیرِ کنٹرول وطن واپس بھیج دیا ہے، ان افراد کو مختلف جرائم میں ملوث ہونے پر سزا یافتہ قرار دیا گیا تھا۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پیٰ کی رپورٹ کے مطابق جرمن چانسلر فریڈرش میرس کی حکومت کی جانب سے یہ اقدام امیگریشن پر سخت مؤقف اختیار کرنے کے لیے کیا گیا ہے، جرمن وزارتِ داخلہ کے مطابق تمام افراد کو خصوصی طیارے کے ؟ذریعے 18 جولائی کی صبح افغانستان روانہ کر دیا گیا۔
وزارتِ داخلہ کے مطابق جرمنی سے افغانستان روانہ کیے جانے والے تمام افراد کے خلاف ملک بدری کے احکامات موجود ہیں اور انہیں عدالتوں سے سزا ہو چکی تھی۔
یورپ کی بڑی معیشت کی حامل حکومت ’پالیسی میں تبدیلی‘ کے تحت آگے بڑھ رہی ہے۔
جرمن وزیرِ داخلہ الیگزینڈر ڈوبرنڈٹ نے 18 جولائی کو یورپی ممالک کے وزرائے داخلہ کے ساتھ مہاجرین اجلاس کی میزبانی کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے لیے ملک بدری کا عمل مستقبل میں بھی محفوظ طریقے سے جاری رہنا چاہیے، سنگین جرائم میں ملوث افراد کو ہمارے ملک میں رہنے کا کوئی حق نہیں۔
وزارتِ داخلہ کے مطابق، جرمنی کی طالبان حکومت کے ساتھ تیسرے فریق قطر کے ذریعے بالواسطہ رابطہ قائم ہے، اور اس آپریشن میں بھی قطر نے تعاون فراہم کیا ہے۔
یاد رہے کہ 2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد جرمنی نے افغان شہریوں کی ملک بدری کا سلسلہ روک دیا تھا اور ساتھ ہی کابل میں اپنا سفارت خانہ بھی بند کر دیا تھا۔
تاہم، گزشتہ برس جرمن حکومت نے پہلی بار ملک بدری دوبارہ شروع کی، جب اُس وقت کے سوشلسٹ ڈیموکریٹ چانسلر اولاف شولس کی حکومت نے مختلف جرائم میں ملوث 28 افغان باشندوں کو ملک بدر کیا تھا۔
انسانی حقوق کے خدشات
انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے افغانستان کے لیے ملک بدری کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ وہاں کی صورتحال تباہ کن ہے۔
ایمنسٹی کے بیان کے مطابق افغانستان میں ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیاں اور تشدد معمول کی بات ہیں۔ رواں ماہ کے آغاز میں، بین الاقوامی فوجداری عدالت نے افغان طالبان کے دو اعلیٰ رہنماؤں پر خواتین،لڑکیوں اور سنگین جرائم کے الزامات پر وارنٹ گرفتار جاری کیے تھے۔
جرمن چانسلر فریڈرش میرس نے 18 جون کو ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ جرمنی امیگریشن کے لیے ایک پرکشش ملک بننا چاہتا ہے تاکہ بہترین صلاحیتوں کے حامل افراد کو اپنی جانب راغب کے کے مزدوروں کی شدید کمی کو پورا کرے۔
فریڈرش میرس نے مزیدکہا تھا کہ پچھلی حکومت کی پالیسیاں مقامی انتظامیہ پر حد سے زیادہ بوجھ ڈالنے کا سبب بنیں، انہوں نے کہا تھا کہ موجودہ حکومت نے امیگریشن پالیسی کو درست سمت پر لانے کے لیے اقدامات کا آغاز کیا ، جس میں بارڈر کنٹرول کو سخت کرنا اور کچھ پناہ گزینوں کے لیے خاندان کو ساتھ رکھنے کے حقوق کو محدود کرنا شامل ہے۔
جرمن چانسلر کا کہنا تھا کہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ سرحدوں کی نگرانی صرف ایک عارضی حل ہے، اس مسئلے کا پائیدار حل یورپی سطح پر ضروری ہے۔












لائیو ٹی وی