ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے متعلق بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا، اسحٰق ڈار کی وضاحت
نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحٰق ڈار نےکہا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے متعلق اُن کے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا، انہوں نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی تک مکمل حمایت جاری رکھنےکے عزم کا اظہار کیا ہے۔
نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحٰق ڈار نے واشنگٹن ڈی سی میں اٹلانٹک کونسل سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیراعظم عمران خان کی سزا سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر عافیہ کے کیس کا حوالہ دیا تھا، جس پر انہیں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، تنقید کرنے والوں میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے وکیل بھی شامل ہیں۔
وزیر خارجہ نے دوران انٹرویو سابق وزیراعظم عمران خان سے متعلق پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئےکہا تھا کہ ’پاکستان نے اس وقت امریکی عدالتی نظام میں مداخلت نہیں کی، کیونکہ امریکی حکام نے عدالتی نظام پر عمل درآمد کیا، انہوں نے کہا کہ اسی طرح عمران خان کو پاکستانی عدلیہ نے سزا سنائی، اور یہ سب قانونی طریقہ کار کے مطابق ہوا، جب قانونی طریقہ کار پر عمل ہوتا ہے، تو دوسروں کو مداخلت کا حق نہیں ہوتا‘۔
یاد رہے کہ نیورو سائنسدان ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو 2010 میں امریکی عدالت نے افغانستان میں امریکی اہلکاروں کے قتل کی کوشش کے الزام میں سزا سنائی تھی اور وہ اس وقت سے ٹیکساس کے فیڈرل میڈیکل سینٹر کارسویل میں قید ہیں۔
اسحٰق ڈار کے اس بیان کو ڈاکٹر عافیہ کے وکیل کلیو اسٹافورڈ اسمتھ نے احمقانہ قرار دیا ہے۔
بعد ازاں، اسحٰق ڈار نے سماجی رابطے کی سائٹ ’ایکس‘ پر وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ ’میرے گزشتہ روز اٹلانٹک کونسل تھنک ٹینک واشنگٹن میں عمران خان کے کیس کے بارے سوال کے جواب میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے کیس کے حوالے کو سیاق و سباق سے ہٹ کر لیا جا رہا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’ مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں کے ادوار میں ہم ہمیشہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے تمام تر سفارتی اور عدالتی معاونت فراہم کرتے رہے ہیں اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے، جب تک کہ رہائی کا معاملہ حل نہ ہو جائے’۔
وفاقی وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ ’ہر ملک کے عدالتی و قانونی طریقہ کار ہوتے ہیں جن کا احترام کیا جاتا ہے، چاہے وہ پاکستان ہو یا امریکا، ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے معاملے پر ہماری حکومت کا مؤقف دو ٹوک اور واضح ہے‘۔
ڈاکٹر عافیہ کے وکیل کلیو اسٹافورڈ اسمتھ نے اسحٰق ڈار کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ’معاف کیجیے، مگر یہ سراسر احمقانہ ہے، ’قانونی طریقہ کار‘، اُس چیز کے مترادف نہیں ہے جہاں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا کوئی گواہ نہ ہو، جھوٹ بولا گیا ہو اور سب کچھ جعلی ہو، یہ انصاف کی پامالی کہلاتی ہے، نہ کہ کوئی قانونی عمل‘۔
انہوں نے علیحدہ ایکس پوسٹ میں کہا کہ اسحٰق ڈار جان بوجھ کر ڈاکٹر عافیہ کے کیس کو کمزور کر رہے ہیں اور ایسا تاثر دے رہے ہیں جیسے اُنہیں ’قانونی عمل‘ کے تحت سزا ملی ہو، جب کہ حقیقت میں ان کے ساتھ زیادتی اور تشدد کیا گیا، ان کا مقدمہ نیو یارک میں چلایا گیا جبکہ تمام حقیقی گواہ افغانستان میں تھے۔
انہوں نے ڈان ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے کہا کہ نائب وزیراعظم اسحٰق ڈار کی باتوں سے ایسا لگتا ہے جیسے وہ عمران خان کے ساتھ ہونے والے سلوک کو درست ثابت کرنے کے لیے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کیس کا حوالہ دے رہے ہیں کہ ان کا کیس امریکی قانون کے تحت ہوا اور اس لیے صرف جج ہی فیصلہ دے سکتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ وہ خود ایسے درجنوں امریکی کیسز میں مداخلت کر چکے ہیں جہاں نظام نے غلطی کی اور وہ میڈیا کی مدد سے عوامی دباؤ کے ذریعے انصاف کی بحالی میں کامیاب رہے، ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے معاملے میں بھی ہم سابق صدر جو بائیڈن سے رحم کی اپیل کر چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسحٰق ڈار کی مثال ’نامناسب اور گمراہ کن‘ تھی، کلیو اسٹافورڈ اسمتھ نے سابق وزیر اعظم عمران خان کے کیس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ مجھے شبہ ہے کہ کئی لوگ یہ تسلیم نہیں کریں گے کہ عمران خان کے خلاف کوئی قانونی طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے۔
بالکل اسی طرح جیسے یہ کہنا غلط ہوگا کہ ڈاکٹر عافیہ جہاں ہیں، وہ کسی قانونی عمل کا نتیجہ ہے بلکہ وہ تو سی آئی اے سمیت دیگر اداروں کے مجرمانہ اقدامات کا شکار بنی ہیں، انہوں نے کہا کہ اسحق ڈار کو ڈاکٹر عافیہ کے کیس کو عمران خان کے کیسز کے تناظر میں نہیں اٹھانا چاہیے۔
پاکستانی حکام کو ہمیشہ ایک متحد اور واضح موقف اختیار کرنا چاہیے، جیسا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے امریکی صدر بائیڈن کو اپنے خط میں بہترین انداز میں کیا تھاکہ جو بھی موقف ہو، اتنا ضرور طے ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کافی سزا بھگت چکی ہیں۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ پاکستان ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے کوششیں جاری رکھے گا۔
کلیو اسٹافورڈ اسمتھ کا کہنا تھا کہ عافیہ صدیقی کے دفاع میں نیویارک میں ایک بھی گواہ پیش نہیں کیا گیا جبکہ استغاثہ نے ایسے افراد کو پیش کیا، جن سے وہ بیانیہ بنانا چاہتے تھے، جیسے وہ افغان مترجم جسے امریکا کی شہریت کا وعدہ اور بڑی رقم بھی دی گئی، جبکہ فوجیوں نے ایک ہی کہانی سنانے کی ناکام کوشش کی۔
انہوں نے کہا کہ فزیکل شواہد سے بھی استغاثہ کا دعویٰ غلط ثابت ہو جاتا ہے، لیکن ٹرائل سے قبل دفاع نے وہ ویڈیو نہیں تلاش کی جو واضح طور پر ثابت کرتی ہے کہ دیواروں میں جو گولیاں تھیں وہ ڈاکٹر عافیہ کی فائرنگ سے نہیں تھیں بلکہ اس دن کے پہلے کے واقعات کا نتیجہ تھیں۔
انہوں نے کہا کہ میں اگلے 7 سے 10 دن کے اندر نیویارک میں اپیل دائر کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز وزیرِ اعظم شہباز شریف نے کہا تھا کہ حکومت ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے معاملے میں کسی طور غافل نہیں، وزیراعظم نے ملاقات میں ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے معاملے میں حکومت کی جانب سے ہر ممکنہ قانونی و سفارتی مدد فراہم کرنے کی یقین دہانی کرادی تھی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے رواں ہفتے کے آغاز میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کیس میں رپورٹ پیش نہ کرنے پر وزیراعظم سمیت وفاقی حکومت کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کر دیا تھا اور تمام فریقین کو 2 ہفتوں میں تحریری جواب جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔
جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان نے 3 صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ وفاقی حکومت نے عدالتی حکم کے باوجود وجوہات عدالت میں جمع نہیں کرائیں، اسلام آباد ہائی کورٹ عدالت کے پاس وفاقی حکومت کو توہینِ عدالت کا نوٹس جاری کرنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچا۔












لائیو ٹی وی