جب تک ڈیٹا پروٹیکشن پر قانون نہیں بنے گا لوگوں کے ساتھ مالی فراڈ ہوگا، قائمہ کمیٹی برائے آئی ٹی
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام میں غیر قانونی کال سینٹرز پر بریفنگ کے دوران انکشاف ہوا کہ یہ سینٹرز خود کو آئی ٹی کمپنی کے طور پر رجسٹرڈ کرواتے ہیں، جب تک ڈیٹا پروٹیکشن پر قانون نہیں بنے گا لوگوں کے ساتھ مالی فراڈ ہوگا، قائمہ کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں ڈی جی این سی سی ای اے کو طلب کرلیا۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام کا اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا، اجلاس میں غیر قانونی کال سینٹرز پر بریفنگ دینے کے لیے کمیٹی میں خصوصی طور پر بلائے گئے وکیل طارق خٹک نے انکشاف کیا کہ پاکستان میں بہت سارے غیر قانونی کال سینٹرز آپریٹ ہورہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ غیر قانونی کال سینٹرز کے ذریعے باہر کے ملکوں کے ساتھ مالی فراڈ کیا جارہا ہے، فیک ای میل، سوشل میڈیا فراڈ بھی ان کی وارداتوں کا طریقہ کار ہے، پاکستان کی اکانومی کو اس سے نقصان ہورہا ہے، ان کال سینیٹرز کی ریگولیشن پی ٹی اے کی ذمہ داری ہے۔
پی ٹی اے حکام نے بتایا کہ پاکستان سافٹ ویئر ایکسپورٹ بورڈ کو لائسنس پی ٹی اے جاری نہیں کرتا، پی ٹی اے کال سینٹرز کو ریگولیٹ نہیں کرتا۔
کمیٹی میں ڈائریکٹر نیشنل سائبر کرائم انوسٹی گیشن ایجنسی نے کال سینیٹرز کے خلاف کارروائی کے بارے میں بتایا کہ ملک بھر میں 54 غیر قانونی کال سینٹرز پر چھاپے مارے گئے ہیں،لاء کے مطابق کال سینٹرز کی تعریف الگ ہے،غیر قانونی کال سینٹرز ہوتے ہی نہیں ہیں، ان کو صرف سینٹرز کہا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ان کا طریقہ واردات یہ ہے کہ سینٹرز خود کو آئ ٹی کمپنی کے طور پر رجسٹرڈ کرواتے ہیں،فرسٹ اسٹیج پر سینٹرز پر پروفائلنگ کی جاتی ہے، پروفائلنگ کے بعد ان سینٹرز میں بیٹھے لوگ لڑکیوں کی فیک آئی ڈی کے ذریعے بات چیت کا آغاز کرتے ہیں، بات چیت کے بعد یہ لوگوں کو انویسٹمنٹ کے لیے ورغلاتے ہیں۔
یہ لوگ ٹیلی گرام میں گروپ بنا کر لوگوں کو اکساتے ہیں کہ آپ پیسہ لگائیں، جب کوئی بندہ واپس پیسہ مانگے تو اسے گروپ سے نکال دیا جاتا ہے، جب ہم نے ان سینٹرز پر ریڈ کیے تو پتا چلا کہ زیادہ تر نوجوان یہاں کام کررہے ہیں۔
وکیل طارق خٹک نے کہا کہ کسی بھی معروف نجی کمپنی کے ترجمان بن کر لوگوں کو کال کی جاتی ہے، یہ لوگ ڈیٹا مختلف ویب سائٹ سے خرید کر اسے غلط استعمال کرتے ہیں۔
سینیٹر افنان اللہ نے کہا کہ جب تک ڈیٹا پروٹیکشن پر قانون نہیں بنے گا تو لوگوں کے ساتھ مالی فراڈ ہوگا، قائمہ کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں ڈی جی این سی سی ای اے کو طلب کرلیا۔
بعد ازاں اجلاس میں ریگولیشن آف آرٹیفشل اینٹلی جنس بل 2024 کا ایجنڈا زیرِ بحث آیا، جس میں سیکرٹری آئی ٹی نے بتایا کہ آرٹیفشل اینٹلی جنس پالیسی کل وفاقی کابینہ نے منظور کرلی ہے،آرٹیفشل اینٹلی جنس نے دنیا میں انقلاب پربا کردیا ہے۔
سینیٹر افنان اللہ نے کہا کہ میرا خیال یہ ہے کہ اے آئی کو ہمیں ریگولیٹ کرنا چاہیے، اے آئی سے بہت سے لوگوں کی نوکریاں ختم ہوسکتی ہیں، ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ہمارے معاشرے پر اے آئی کا کیا اثر پڑے گا،اے آئی میں درستگی اور صداقت ہونی چاہیے۔
سینیٹر کامران مرتضیٰ نے اے آئی کی فراہم کردہ معلومات پر عدم اطمینان کا اظہار کردیا، انہوں نے کہا کہ میرا تعلق وکالت سے ہے، میں نے جب چیک کیا مجھے صحیح جواب نہیں ملے ، میں نے جب بھی قانون و انصاف اور ججمنٹ سے متعلق چیک کیا تو جواب درست نہیں ملے۔
سینیٹر ہمایوں مہمند نے کہا کہ اگر پاکستان کو مستقل میں ترقی کرنی ہے تو اے آئی کو سسٹم کا حصہ بنانا ہوگا۔
سیکرٹری آئی ٹی نے کہا کہ اے آئی کے استعمال کے دو طریقے ہیں،اے آئی کی معلومات کو دوبارہ چیک کرنا چاہیے،اے آئی کے ماڈل انسان بناتے ہیں اس لیے اس میں جانبداری آتی ہے۔












لائیو ٹی وی