ایشیا کپ سپر فور مرحلہ: پاکستان اور بھارت کی کرکٹ ٹیمیں آج دوسری بار مدمقابل ہوں گی
ایشیا کپ 2025 کے سپر فور مرحلے میں روایتی حریف پاکستان اور بھارت کی کرکٹ ٹیمیں آج دوسری بار مدمقابل ہوں گی۔
ڈان اخبار کی آج کے مقابلے کے حوالے سے دلچسپ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شکست کے بعد اکثر ٹیموں کے لیے کوئی نہ کوئی مثبت پہلو نکل آتا ہے، لیکن پچھلے اتوار پاکستان کے لیے ایسا کچھ نہیں تھا، جب اُنہیں بھارت نے یکطرفہ مقابلے میں روند ڈالا تھا، یہ ایسا مقابلہ تھا، جس پر شروع سے آخر تک اُن کے روایتی حریف چھائے رہے۔
یہ پاکستان کی اُس نئی ٹیم کا پہلا حقیقی امتحان تھا جو عبوری دور سے گزر رہی ہے، جس نے بیٹنگ میں زیادہ جرات مندانہ رویہ اپنانے کا دعویٰ کیا اور اپنے پُر اعتماد مگر سست رنز بنانے والوں کو ایسے جارح مزاج کھلاڑیوں سے بدل دیا، جو ابھی بین الاقوامی سطح پر خود کو منوانے کے مرحلے میں ہیں، لیکن پاکستان سپر لیگ میں کارکردگی کی بنیاد پر منتخب کیے گئے ہیں۔
اور جیسا کہ متوقع تھا، وہ ناکام ہو گئے۔
پاکستان کا پچھلے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا سفر گروپ مرحلے تک محدود رہا تھا، کیوں کہ امریکا اور بھارت سے شکست نے اُنہیں ٹورنامنٹ سے باہر کر دیا تھا، اس کے بعد سے، اُن کی کارکردگی اُتار چڑھاؤ کا شکار رہی ہے، پاکستان نے 15 میچ جیتے اور 15 ہی ہارے۔
اتوار کو بھارت کے خلاف یہ شکست پاکستان کی اس فارمیٹ میں لگاتار تیسری شکست تھی، آخری بار پاکستان نے بھارت کو ستمبر 2022 میں ایشیا کپ سپر فور کے مقابلے میں ہرایا تھا، یہ بھی آخری موقع تھا جب پاکستان نے کسی بھی فارمیٹ میں بھارت کو شکست دی، جو دونوں ٹیموں کے درمیان بڑھتے ہوئے فرق کو واضح کرتا ہے۔
اب بھارت اور پاکستان کے درمیان مقابلہ کھلاڑیوں کی برابری سے زیادہ دونوں ملکوں کے مابین سیاسی کشیدگی اور تاریخی رقابت کی وجہ سے توجہ حاصل کرتا ہے، لیکن پاکستان کے معاملے میں ہمیشہ ایک غیر متوقع موقع رہتا ہے، اور بہت سے لوگ اس غیر مستقل مزاج ٹیم پر انحصار کرتے ہیں کہ وہ بھارت کو چونکا دے۔
یہ دونوں ٹیموں کا سپر فور مرحلے کا پہلا میچ ہے، پاکستان یہاں عمان اور متحدہ عرب امارات پر آسان فتوحات کے بعد پہنچا ہے، بھارت گروپ ’اے‘ سے اس مرحلے میں جگہ بنانے والی پہلی ٹیم تھی، جس نے یو اے ای، پاکستان اور عمان کو آسانی سے شکست دی۔
اس مرحلے میں موجود تمام چار ٹیمیں ایک دوسرے کے ساتھ ایک ایک بار کھیلیں گی، اور سرفہرست دو ٹیمیں اگلے اتوار فائنل میں پہنچیں گی، اس سے یہ امکان موجود ہے کہ بھارت اور پاکستان لگاتار تین اتوار کو آمنے سامنے آ سکتے ہیں۔
البتہ، دونوں ٹیمیں ایشیا کپ کے فائنل میں کبھی ایک دوسرے کے مقابل نہیں آئی ہیں۔
پاکستان کا بیٹنگ بحران
موجودہ سیٹ اپ نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنی بیٹنگ میں جارحانہ انداز اور ذہانت کو شامل کرے گا، کپتان سلمان علی آغا اور کوچ مائیک ہیسن کی جوڑی کے تحت کھیلی گئی پہلی سیریز میں یہ بات درست ثابت ہوئی تھی، پاکستان نے مئی کے آخر میں لاہور میں بنگلہ دیش کے خلاف تین ٹی ٹوئنٹی میچز میں فی اوور 10.44 رنز کی اوسط سے اسکور کیا۔
لیکن اس کے بعد سے بلے بازوں کے لیے یہ زیادہ تر جدوجہد ہی رہی ہے۔

اس ایشیا کپ میں پاکستان نے محض 16.44 کی اوسط حاصل کی ہے، جبکہ اسٹرائیک ریٹ صرف 113.53 رہا ہے، یہ اعدادوشمار بہت مایوس کن ہیں، خاص طور پر اس فارمیٹ میں جو بنیادی طور پر مخالف ٹیم سے زیادہ اسکور کر کے جیتا جاتا ہے۔

سپر فور میں جگہ بنانے والی ٹیموں میں یہ سب سے کمزور اعدادوشمار ہیں, حتیٰ کہ افغانستان، جو سری لنکا سے ہار کر گروپ بی کے آخری میچ میں باہر ہو گیا، اسٹرائیک ریٹ اور اوسط میں پاکستان سے بہتر رہا۔
ڈان کے گراف کے مطابق پاکستان کی بیٹنگ خاصی سست رہی ہے، بھارت کے خلاف انہوں نے 63 ڈاٹ بالز کھیلیں اور 7 سے 10 اوورز کے درمیان صرف 7 رنز بنائے اور 2 وکٹیں بھی گنوادیں، نسبتاً کمزور اور کم رینکنگ رکھنے والی متحدہ عرب امارات کے خلاف بھی پاور پلے میں انہوں نے 24 ڈاٹ بالز کھیلیں۔
ان دونوں میچوں میں پاکستان کے پاس اسکور کے لیے کچھ تھا تو وہ صرف شاہین شاہ آفریدی کی وجہ سے، فاسٹ بولر نے بھارت کے خلاف 16 گیندوں پر 33 ناٹ آؤٹ اور یو اے ای کے خلاف 14 گیندوں پر 29 ناٹ آؤٹ اسکور کیا اور اپنی ٹیم کو 9-146 تک گھسیٹا۔
انہوں نے اس ٹورنامنٹ میں پاکستان کے لیے چوتھے سب سے زیادہ رنز بنائے ہیں (64 رنز، اسٹرائیک ریٹ 206) اور 6 چھکے لگائے ہیں, کوئی اور پاکستانی بلے باز تین سے زیادہ چھکے نہیں لگا سکا، اور ان کا اسٹرائیک ریٹ سب سے بہتر ہے۔
یہ صورتحال پاکستان کو درپیش مشکلات کو واضح کرتی ہے۔
بیٹنگ کی ناکامیوں کے باوجود، ان کی بولنگ خاموشی سے شاندار کارکردگی دکھا رہی ہے، اسپنرز نے سب سے زیادہ بوجھ اٹھایا، اور انہی کی وجہ سے پاکستان یو اے ای کے خلاف اپنے آخری گروپ میچ میں آسانی سے کامیاب ہوا۔

سال کے آغاز سے اب تک پاکستان کے باؤلرز نے 25 میچوں میں 147 وکٹیں حاصل کی ہیں، جو کسی فل ممبر ملک کی سب سے زیادہ وکٹیں ہیں، انہوں نے فی وکٹ اوسطاً 20.85 رنز دیے ہیں اور فی اوور 7.87 رنز کے حساب سے باؤلنگ کی ہے۔
ان میں سے 147 میں سے 74 وکٹیں اسپنرز نے حاصل کیں اور جب صرف اسپنرز پر توجہ دی جائے تو ان کے اعداد و شمار مزید بہتر ہو جاتے ہیں، یعنی فی وکٹ اوسط 19.33 رنز اور فی اوور اکانومی 7.07 رنز۔
بھارت کی شاندار حکمرانی
بھارت اس وقت اب تک کی سب سے بڑی ٹی ٹوئنٹی سلطنت قائم کرنے کے عمل میں ہے، اس ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سائیکل میں انہوں نے اپنے حریفوں پر مکمل غلبہ حاصل کیا ہے اور 30 جون 2024 کے بعد سے فل ممبر ممالک میں سب سے بہترین بیٹنگ اور باؤلنگ اوسط رکھے ہیں۔
ان کی ٹیم میں کوئی کمزوری نظر نہیں آتی اور وہ ایک خودکار انداز میں کھیلتے دکھائی دیتے ہیں، نئی آنے والی بیٹنگ لائن پرانے کھلاڑیوں سے زیادہ جارحانہ اور دبنگ ہے، اور ان کے پاس سب سے زیادہ متنوع باؤلنگ اٹیک موجود ہے۔
آل راؤنڈرز کی موجودگی، چاہے فاسٹ باؤلرز ہوں یا اسپنرز، ان کے کمبی نیشن کو مزید مضبوط کرتی ہے، یہ کھلاڑی نہ صرف اننگز کے کسی بھی حصے میں باؤلنگ کر سکتے ہیں بلکہ بیٹنگ آرڈر میں بھی لچک کے ساتھ شامل کیے جا سکتے ہیں۔
ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سائیکل میں بھارت کی بیٹنگ اور باؤلنگ اوسط کے درمیان 12.40 رنز کا حیران کن فرق ہے، دوسرے نمبر پر موجود نیوزی لینڈ ان سے تقریباً 5 رنز پیچھے ہے۔
ذیل میں 30 جون 2024 سے 19 ستمبر 2025 تک مردوں کی ٹیموں کی بیٹنگ اور باؤلنگ اوسط کا جدول پیش کیا گیا ہے۔

پاکستان کی اوپننگ مشکلات
صائم ایوب ٹیم میں بیٹنگ کے لیے شامل کیے گئے، لیکن اس ٹورنامنٹ میں اُن کی جانب سے لی گئی وکٹوں کی تعداد اُن گیندوں سے زیادہ ہے جو انہوں نے بیٹنگ میں کھیلی ہیں، صائم ایوب ابھی تک ایشیا کپ میں اپنا پہلا رن بنانے کے منتظر ہیں۔
وہ میچز میں 2 بار مسلسل پہلی گیند پر آؤٹ ہونے اور اس سے پہلے دو گیندوں پر آؤٹ ہونے کے بعد داخل ہو رہے ہیں، لیکن انہوں نے 6 وکٹیں لی ہیں، جو اس ٹورنامنٹ میں کسی بھی پاکستانی باؤلر کی سب سے زیادہ وکٹیں ہیں، پچھلے اتوار بھارت کے تینوں آؤٹ اُن کے کھاتے میں گئے تھے۔

صائم کی جنوبی افریقہ میں او ڈی آئی اور ٹیسٹ سنچریاں اور وہاں ایک ٹی ٹوئنٹی میں 98 ناٹ آؤٹ پاکستان کے لیے اوپننگ میں بہت ضروری استحکام کی نوید لے کر آئے تھے، لیکن ٹخنے کی انجری سے واپسی کے بعد یہ بائیں ہاتھ کے بیٹر پچھلے سال کے آخر کی اپنی جھلک بھی نہیں دکھا پا رہے۔
اُن کے بیٹنگ پارٹنر، صاحبزادہ فرحان، اس سال شاندار پی ایس ایل کے بعد ٹیم میں آئے اور لاہور، میرپور اور فلوریڈا میں اپنی پہلی 6 اننگز میں 3 نصف سنچریاں بنائیں، لیکن وہ یو اے ای کی پچوں پر جدوجہد کرتے نظر آئے، جہاں 8 میچوں میں اُن کی اوسط صرف 17.12 رہی ہے، حالاں کہ ان میں یو اے ای اور عمان کے خلاف میچز بھی شامل ہیں۔
یو اے ای کے اس دورے میں اُن کا سب سے بڑا اسکور بھارت کے خلاف 44 گیندوں پر 40 رنز رہا ہے، اور ایشیا کپ میں انتہائی خراب اسٹرائیک ریٹ 87 کے ساتھ اُن کے صرف 74 رنز ہیں۔
یہ میرپور میں تیسرے اور آخری ٹی ٹوئنٹی سے پہلے تھا کہ پاکستان نے دوبارہ صائم اور فرحان کو ایک ساتھ اوپننگ کے لیے اتارا، اور تب سے وہ ہر میچ میں اوپن کر رہے ہیں، اُس میچ میں انہوں نے 7.5 اوورز میں 82 رنز بنائے اور 3 میچ بعد امریکا میں ویسٹ انڈیز کے خلاف 138 رنز کی شراکت قائم کی۔
لیکن اُس سنچری شراکت کے بعد اُنہوں نے سب سے زیادہ 28 رنز مل کر بنائے ہیں، اور اُن کی شراکت زیادہ سے زیادہ 2.5 اوورز چلی ہے، اُس سنچری شراکت کے بعد کے 8 میچوں میں اُن کی پارٹنرشپ صرف ایک بار ڈبل فگر رنز تک پہنچی ہے۔
پاکستان نے اس ٹورنامنٹ کے لیے صائم اور فرحان کو اُس واحد اوپننگ جوڑی پر ترجیح دی ہے، جس نے فارمیٹ کی تاریخ میں 2 ہزار سے زیادہ رنز بنائے ہیں، 2 ہزار 522 رنز 46.70 کی اوسط کے ساتھ۔
اب وقت ہے کہ وہ اس اعتماد کا صلہ دیں۔
pakistan-hope-to-do-better-against-india













لائیو ٹی وی