• KHI: Clear 21.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 15.4°C
  • ISB: Cloudy 12.7°C
  • KHI: Clear 21.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 15.4°C
  • ISB: Cloudy 12.7°C

سلامتی کونسل نے غزہ امن منصوبے سے متعلق امریکی قرارداد منظور کرلی

شائع November 18, 2025
— فوٹو: رائٹرز
— فوٹو: رائٹرز
— فوٹو: رائٹرز
— فوٹو: رائٹرز

اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل رائے شماری کے ذریعے امریکا کی تیار کردہ اُس قرارداد کو منظور کر لیا جس میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ جنگ بندی منصوبے کی توثیق کی گئی ہے اور فلسطینی علاقے کے لیے ایک بین الاقوامی استحکام فورس کی اجازت دی گئی ہے۔

گزشتہ ماہ اسرائیل اور حماس ٹرمپ کے 20 نکاتی منصوبے کے پہلے مرحلے پر متفق ہو گئے تھے، لیکن اقوامِ متحدہ کی یہ قرارداد ایک عبوری انتظامی ادارے کو جائز حیثیت دینے اور ان ممالک کو یقین دلانے کے لیے اہم سمجھی جا رہی ہے جو غزہ میں اپنے فوجی بھیجنے پر غور کر رہے ہیں۔

پاکستان سمیت سلامتی کونسل کے 13 ارکان نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا، جبکہ روس اور چین نے غیر حاضری اختیار کی، جو قابلِ ذکر بات ہے کیونکہ اس سے قبل اشارے مل رہے تھے کہ ماسکو شاید اس متن کو ویٹو کر دے گا۔

قرارداد کے متن میں کہا گیا ہے کہ رکن ممالک ’بورڈ آف پیس‘ میں حصہ لے سکتے ہیں، جو ایک عبوری اتھارٹی کے طور پر تصور کیا گیا ہے جو غزہ کی تعمیرِ نو اور معاشی بحالی کی نگرانی کرے گی۔

اس میں بین الاقوامی استحکام فورس (آئی ایس ایف) کے قیام کی بھی منظوری دی گئی ہے، جس کا مقصد غزہ کو غیر عسکری بنانا ہے، جس میں ہتھیاروں کو جمع کرنا اور عسکری ڈھانچے کو تباہ کرنا شامل ہے۔

ٹرمپ کا 20 نکاتی منصوبہ قرارداد کے ساتھ ایک ضمیمے کی صورت میں شامل ہے۔

سلامتی کونسل میں ویٹو کا اختیار رکھنے والے روس نے پہلے قرارداد کی مخالفت کے اشارے دیے تھے، لیکن ووٹنگ کے دوران غیر حاضر رہ کر اس کی منظوری ممکن بنا دی۔

ووٹنگ کے بعد امریکا کے سفیر مائیک والز نے سلامتی کونسل کے ارکان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس فیصلے کو ’تاریخی اور تعمیری قرارداد‘ قرار دیا، جو خطے کے لیے ایک نیا راستہ طے کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم آپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ آپ اس کوشش میں ہمارے ساتھ شامل ہوئے، جس کا مقصد مشرقِ وسطیٰ، اسرائیلیوں اور فلسطینیوں، اور پورے خطے کے لوگوں کے لیے ایک نیا راستہ متعین کرنا ہے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس قرارداد کی منظوری پُرامن اور خوشحال غزہ اور اسرائیل کو محفوظ زندگی گزارنے کا ماحول فراہم کرنے کی جانب ایک اور اہم قدم ہے۔

انہوں نے زور دیا کہ آئی ایس ایف اور نئے سرمایہ کاری کے طریقہ کار ایک ساتھ کام کریں گے، اول الذکر کا مقصد خطے کو حماس کے اثر سے آزاد کرنا ہے، اور موخر الذکر کا مقصد غزہ کی تعمیرِ نو اور ترقی کو یقینی بنانا ہے۔

تاہم، حماس نے اس قرارداد کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ فلسطینیوں کے حقوق اور مطالبات پوری نہیں کرتی اور غزہ پر ایک بین الاقوامی سرپرستی مسلط کرنے کی کوشش ہے، جسے فلسطینی عوام اور مزاحمتی دھڑے قبول نہیں کرتے۔

حماس نے مزید کہا کہ ’بین الاقوامی فورس کو غزہ کے اندر دیے گئے کام، جن میں مزاحمت کو غیر مسلح کرنا بھی شامل ہے، اس کی غیر جانبداری کو ختم کر دیتے ہیں اور اسے تنازع کا حصہ بنا دیتے ہیں، جو بالآخر قبضے کے حق میں جاتا ہے‘۔

غزہ کی پٹی دو سالہ لڑائی کے بعد تقریباً کھنڈر بن چکی ہے، جو 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد شروع ہوئی تھی۔

قرارداد کے متن میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’اب شاید وہ حالات پیدا ہو گئے ہیں‘ جن کے تحت فلسطینیوں کے حقِ خود ارادیت اور ریاستی درجہ کے لیے ایک قابلِ اعتبار راستہ ہموار ہو سکتا ہے، لیکن یہ اس وقت ممکن ہوگا جب فلسطینی اتھارٹی اصلاحاتی پروگرام مکمل کرے اور غزہ کی تعمیرِ نو میں پیش رفت ہو۔

اس امکان کو اسرائیل پہلے ہی صاف طور پر رد کر چکا ہے۔

اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے اتوار کو کابینہ کے اجلاس میں کہا کہ ’ہمارا کسی بھی علاقے میں فلسطینی ریاست کے قیام کی مخالفت کا موقف تبدیل نہیں ہوا‘۔

پاکستان نے خونریزی روکنے کیلئے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا

اسی دوران، امریکی قرارداد کے حق میں ووٹ دینے والے پاکستان نے کہا ہے کہ اس نے یہ قدم لڑائی روکنے، عام شہریوں کے تحفظ اور فائربندی کو مضبوط کرنے کے لیے اٹھایا تاکہ انسانی امداد، تعمیرِ نو، اور غزہ سے اسرائیلی افواج کے مکمل انخلا کا راستہ ہموار ہو سکے۔

سلامتی کونسل کی جانب سے قرارداد منظور کیے جانے کے بعد گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے مستقل مندوب برائے اقوامِ متحدہ عاصم افتخار احمد نے کہا کہ اسلام آباد نے اس منصوبے کی حمایت ’صرف ایک بنیادی مقصد‘ کے تحت کی جس میں خونریزی روکنا، خواتین اور بچوں سمیت بے گناہ فلسطینیوں کی جانیں بچانا، جنگ بندی برقرار رکھنا اور غزہ سے اسرائیلی فورسز کے مکمل انخلا کو یقینی بنانا شامل ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کا ووٹ فلسطینیوں، عرب گروپ اور 8 رکنی عرب-اسلامی گروپ (سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات، مصر، اردن، انڈونیشیا اور ترکیہ)کے مؤقف کے مطابق دیا گیا، جنہوں نے اس سال کے اوائل میں ٹرمپ کے منصوبے کی توثیق کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا ووٹ فلسطین اور عرب گروپ کے مؤقف کی روشنی میں دیا گیا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ مشترکہ سفارتی کوششوں کا مقصد جنگ کا خاتمہ، انسانی امداد تک رسائی کو یقینی بنانا، جبری بے دخلی کو روکنا اور فلسطینیوں کے حقِ خود ارادیت اور ریاست کے قیام کے لیے ایک قابلِ اعتماد راستے کی حمایت کرنا تھا۔

سفیر نے بتایا کہ پاکستان نے مذاکرات کے دوران فعال کردار ادا کیا، عرب تجاویز کی حمایت کی اور اپنے ترمیمی نکات بھی پیش کیے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ قرارداد کا متن فلسطینی مسئلے پر ’بین الاقوامی قانونی جواز‘ کے مطابق ہو۔

انہوں نے بعض تجاویز شامل کیے جانے کا خیرمقدم کیا، مثلاً فائربندی برقرار رکھنے کے صریح مطالبے کا اضافہ اور سلامتی کونسل کو باقاعدہ رپورٹنگ کی شرط، لیکن ساتھ ہی کہا کہ کئی اہم نکات ابھی بھی تشنہ رہ گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’فلسطینیوں کے حقِ خودارادیت اور ریاست کے قیام کے لیے واضح سیاسی راستہ، فلسطینی اتھارٹی کا حکمرانی اور تعمیر نو میں مرکزی کردار، اور اقوامِ متحدہ کی بڑھتی ہوئی شمولیت، یہ سب نہایت اہم پہلو ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم پرامید ہیں کہ آنے والے ہفتوں میں مزید تفصیلات سامنے آنے سے وہ ضروری وضاحت مل سکے گی‘۔

سفیر عاصم افتخار احمد نے پاکستان کی مستقل پالیسی کی توثیق کرتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی امن منصوبہ اسی وقت قابلِ قبول ہوگا جب وہ 1967 سے پہلے کی سرحدوں پر مبنی ایک خودمختار، آزاد اور جغرافیائی طور پر مسلسل فلسطینی ریاست کی تشکیل کی طرف لے جائے، جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو۔

انہوں نے زور دیا کہ موجودہ سلامتی کونسل کی قراردادیں ’مکمل طور پر قابلِ عمل‘ ہیں، اور خبردار کیا کہ نئی قرارداد ’قائم شدہ بین الاقوامی قانون‘ کے دائرے میں کسی قسم کی تبدیلی یا کمی کا باعث نہیں بننی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ حقِ خود ارادیت ’بنیادی اور غیر مشروط‘ ہےاور اسے مشروط نہیں کیا جا سکتا۔

سفیر نے کہا کہ مجوزہ ’بورڈ آف پیس‘ ایک عارضی نگرانی کا نظام ہونا چاہیے، جس کا مینڈیٹ 2027 میں ختم ہو جائے، جب تک اسے دوبارہ نہ بڑھایا جائے۔

انہوں نے کہا کہ ’غزہ میں انتظامی و عملی اختیار فلسطینیوں کے پاس ہی رہنا چاہیے، اور یہ ایک فلسطینی کمیٹی کے ذریعے ہونا چاہیے‘۔

انہوں نے زور دیا کہ فلسطینی اتھارٹی کو حکمرانی اور تعمیر نو میں مرکزی کردار ادا کرنا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’فلسطینیوں کو نظرانداز کر کے امن حاصل نہیں کیا جا سکتا، ایسی تمام پالیسیوں کا خاتمہ ہونا چاہیے جو فلسطینی اتھارٹی کو کمزور کرتی ہیں‘۔

عاصم افتخار احمد نے آئی ایس ایف کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ فورس اُس وقت ہی استحکام کا ذریعہ بن سکتی ہے جب وہ اقوامِ متحدہ کے اصولوں کے مطابق واضح مینڈیٹ کے تحت کام کرے۔

انہوں نے کہا کہ غیر مسلح کرنا ایک سیاسی مذاکراتی عمل کے ذریعے متحدہ فلسطینی قومی اتھارٹی کے تحت ہونا چاہیے۔

انہوں نے خبردار کیا کہ جنگ بندی کی یکطرفہ خلاف ورزیاں پورے عمل کو خطرے میں ڈال سکتی ہیں اور سب کچھ ناکام بنا سکتی ہیں، اور زور دیا کہ آئی ایس ایف کا مینڈیٹ اُس وقت ہی مؤثر ہوگا، جب مکمل اسرائیلی انخلا ہو چکا ہو۔

غزہ میں تباہی کے پیمانے کا ذکر کرتے ہوئے سفیر نے کہا کہ گزشتہ دو برسوں میں 69 ہزار سے زیادہ فلسطینی شہید کیے جاچکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اکتوبر میں شرم الشیخ میں ہونے والی سربراہی کانفرنس ’امید کی ایک کرن‘ ثابت ہوئی ہے۔

عاصم افتخار نے عالمی برادری سے کہا کہ وہ اپنی ذمہ داریاں نبھائے اور فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے ایک قابلِ اعتبار اور قابل میعاد کارروائی کی حمایت کرے، انہوں نے زور دیا کہ کوئی الحاق یا کوئی جبری بے دخلی نہیں ہونی چاہیے، اور یہ کہ مغربی کنارے اور غزہ کی مسلسل جغرافیائی وحدت ایک قابلِ عمل ریاست کے لیے ضروری ہے۔

مستقبل کی طرف دیکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اقوامِ متحدہ، فلسطینی اتھارٹی اور فلسطینی عوام کو حکمرانی، تعمیرِ نو اور ادارہ جاتی مضبوطی کے عمل میں مرکزی کردار ادا کرنا ہوگا۔

اپنے خطاب کے اختتام پر سفیر نے فلسطینی عوام کے ساتھ پاکستان کی یکجہتی کا اعادہ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ان کا دکھ ہمارا درد ہے، ان کی ثابت قدمی ہمارا فخر ہے، ان کی امنگیں ہمارا مقصد ہے‘، اور یہ کہ پاکستان ان کے حقِ خود ارادیت کی مکمل تکمیل تک ان کی غیر متزلزل حمایت جاری رکھے گا۔

کارٹون

کارٹون : 14 دسمبر 2025
کارٹون : 13 دسمبر 2025