جاپان دنیا کے سب سے بڑے ایٹمی بجلی گھر کو دوبارہ فعال کرنے کیلئے تیار، رپورٹ
جاپان دنیا کے سب سے بڑے ایٹمی بجلی گھر کو دوبارہ شروع کر رہا ہے، جسے 2011 میں حادثے کے بعد بند کردیا گیا تھا۔
عالمی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق مقامی میڈیا نے اطلاع دی کہ جاپان اس ہفتے دنیا کے سب سے بڑے جوہری پلانٹ کو دوبارہ شروع کرنے کی منظوری دے گا۔
قدرتی وسائل سے محروم اس ملک نے 2011 کے فوکوشیما حادثے کے بعد جوہری توانائی کا استعمال بند کر دیا تھا، لیکن اب وہ ایٹمی توانائی کو بحال کرنا چاہتا ہے تاکہ درآمدی فوسل فیول ( رکازی ایندھن) پر اپنا انحصار کم کر سکے۔
کیوڈو نیوز اور نکی بزنس ڈیلی کی غیر مصدقہ ذرائع پر مبنی رپورٹس کے مطابق کاشیوازاکی-کاریوا جوہری پلانٹ کو اس ہفتے مقامی گورنر کی جانب سے آپریشن دوبارہ شروع کرنے کی منظوری ملنے کی توقع ہے۔
رپورٹس کے مطابق صوبہ نیئیگاتا کے گورنر ہیدیویو ہانازومی جمعے کو ایک پریس کانفرنس کریں گے، کاشیوازاکی-کاریوا کے سات میں سے صرف ایک ری ایکٹر کو دوبارہ فعال کیا جائے گا۔
2011 کے سونامی اور فوکوشیما دائیچی جوہری پاور پلانٹ میں ہونے والی تباہی کے بعد جاپان نے اپنے تمام جوہری ری ایکٹر بند کر دیے تھے، کیونکہ عوام اس توانائی کے استعمال سے بےچینی محسوس کر رہے تھے۔
اس کے بعد سخت حفاظتی معیارات کے نفاذ کے بعد مجموعی طور پر 14 ری ایکٹر دوبارہ فعال ہو چکے ہیں۔ اگر منظوری دی گئی تو یہ فوکوشیما حادثے کے بعد پلانٹ کے آپریٹر ٹِپکو (Tepco) کے لیے پہلا جوہری پلانٹ ہو گا جو دوبارہ شروع کیا جائے گا۔
جاپانی حکومت نے مسلسل جوہری توانائی کی حمایت کی ہے، جسے وہ ملک کے لیے ایک قابلِ اعتبار اور صاف توانائی کا ذریعہ قرار دیتی ہے، خصوصاً جبکہ حکومت 2050 تک کاربن کے توازن کو ’ صفر ’ کرنے کا ہدف حاصل کرنا چاہتی ہے۔
جولائی میں، پاور کمپنی کانسائی الیکٹرک نے کہا تھا کہ وہ فوکوشیما حادثے کے بعد ملک کے پہلے نئے جوہری ری ایکٹر کی تعمیر کے ابتدائی مرحلے کی طرف بڑھ رہی ہے۔ جاپان کو اب بھی فوکوشیما پلانٹ کو ڈی کمیشن کرنے کا مشکل ترین کام درپیش ہے، جس میں کئی دہائیاں لگنے کی توقع ہے۔
اگست میں، جاپانی تکنیکی ماہرین نے ریڈیوایکٹیو ملبہ نکالنے کی تیاری کے حصے کے طور پر تباہ شدہ ری ایکٹر کی ایک عمارت میں ریموٹ کنٹرول روبوٹ بھیجے تھے۔
انتہائی خطرناک تابکاری کی سطح کی وجہ سے پگھلے ہوئے ایندھن اور دیگر ملبے کو پلانٹ سے نکالنا اس دہائیوں پر مشتمل ڈی کمیشننگ منصوبے کا سب سے سخت مرحلہ سمجھا جاتا ہے۔












لائیو ٹی وی