برازیل کےسابق صدر بولسونارو کی بغاوت کی سازش کے جرم میں 27 سالہ قید کا آغاز
برازیل کی سپریم کورٹ نے منگل کو دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے سابق صدر جائر بولسونارو کو ہدایات دی ہیں کہ وہ ناکام بغاوت کی سازش کے جرم میں سنائی گئی 27 سالہ سزا کا اطلاق شروع کریں، کیونکہ عدالت نے تمام اپیلیں خارج کر دی ہیں۔
برازیل کے دائیں بازو کو متحرک اور ملک کی سیاست کو بدل دینے والے سابق بے باک فوجی کپتان ایک متنازعہ کیریئر کے اختتام پر پولیس ہیڈکوارٹر کے ایک چھوٹے کمرے میں قید ہیں، جس میں ٹی وی، منی فرج اور ایئر کنڈیشن موجود ہے۔
70 سالہ بولسونارو کو ستمبر میں 2022 کے انتخابات کے بعد لوئز اناسیو لولا دا سلوا کو صدر بننے سے روکنے کی سازش کے الزام میں مجرم قرار دیا گیا تھا، جس میں اس منصوبے کے تحت تجربہ کار بائیں بازو کے رہنما کو قتل کرنے کی سازش بھی شامل تھی۔
پراسیکیوٹرز کا کہنا تھا کہ یہ منصوبہ صرف اعلیٰ فوجی حکام کی حمایت نہ ہونے کی وجہ سے ناکام ہوا۔
سپریم کورٹ نے اس ماہ کے شروع میں ان کی سزا کے خلاف اپیل کو مسترد کر دیا اور فیصلہ حتمی قرار دیا، عدالت نے فوجی ٹربیونل کو یہ حکم بھی دیا کہ وہ فیصلہ کرے کہ بولسونارو سے ان کا کپتان کا رینک واپس لیا جائے یا نہیں۔
بولسونارو ہفتہ کو پولیس ہیڈ کوارٹرز میں قید کیے جانے سے قبل تک گھریلو حراست میں تھے، کیونکہ انہوں نے اپنے پاؤں میں موجود نگرانی کے آلے میں سولڈرنگ آئرن سے چھیڑ چھاڑ کی تھی۔
سپریم کورٹ کے جسٹس الیگزینڈر ڈی مورائس نے کہا کہ ایسے اشارے ملے کہ بولسونارو اپنے بیٹے کی طرف سے ان کے گھر کے باہر منعقدہ نگرانی کے دوران فرار ہونے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔
جسٹس الیگزینڈر ڈی مورائس نے قریب واقع امریکی سفارت خانے اور بولسونارو کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ قریبی تعلقات کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ ممکن ہے انہوں نے سیاسی پناہ کی تلاش کی ہو۔
بولسونارو نے کہا کہ وہ دوائیوں کی وجہ سے پیدا شدہ ’پیرانویا‘ کے تحت حرکت کر رہے تھے اور فرار ہونے کی کوشش سے انکار کیا۔
عدالت نے فیصلہ دیا کہ بولسونارو برازیلیا میں ایک محفوظ کمرے میں رہیں گے، جو حفاظتی طور پر تحویل میں لیے گئے قیدیوں کے لیے مخصوص ہے۔
ان کے 5 ساتھی ملزمان جن میں فوجی جنرل اور سابق وزرا بھی شامل ہیں، نے بھی منگل کو 19 سے 26 سال کی سزائیں بھگتنا شروع کر دی ہیں۔
سابق انٹیلی جنس چیف الیگزینڈر راماگم، جنہیں 16 سال کی سزا سنائی گئی، امریکا فرار ہونے کے بعد مطلوب قرار دیے گئے۔
بولسونارو کے وکیل پاؤلو کونہا بیو نے اس کیس کے اختتام کو حیران کن قرار دیا اور کہا کہ وہ اپیل دائر کریں گے۔
برازیلی رکنِ پارلیمنٹ ایڈورڈو بولسونارو، صدر کے بیٹے پر بھی منگل کو عدالتی رکاوٹ ڈالنے کا الزام عائد کیا گیا، کیونکہ انہوں نے ٹرمپ دور کے اقدامات کو فروغ دیا تھا تاکہ اپنے والد کے مقدمے میں مداخلت کی جا سکے۔
‘انتہائی نازک’
بولسونارو 1985 میں فوجی آمریت کے خاتمے کے بعد قید ہونے والے چوتھے سابق صدر ہیں۔
مئی میں فرنینڈو کولور دی میلّو کو صحت کے مسائل کی وجہ سے تقریباً 9 سالہ سزائے قید گھر میں مکمل کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔
بولسونارو کی وکالت کرنے والی ٹیم کا موقف ہے کہ انہیں بھی یہی سہولت دی جائے، اور خبردار کیا کہ حراست ان کی جان کے لیے خطرہ ہے۔
انہیں 2018 کے انتخابی حملے کے دوران زخم کا سامنا کرنا پڑا تھا اور کئی سرجریز کرانی پڑیں۔
ڈاکٹروں کے مطابق وہ مستقل ’ناقابلِ قابو ہِکس‘ کا شکار ہیں، جو معدے کے مسائل سے متعلق ہیں، اور اس کی وجہ سے سانس لینے میں دشواری اور بے ہوشی بھی ہوتی ہے۔
بولسونارو کے اہل خانہ نے ان کی ذہنی اور جسمانی حالت کی نشاندہی کی ہے، منگل کو ان سے ملاقات کے بعد کارلوس بولسونارو نے اپنے والد کو ’انتہائی نازک اور نفسیاتی طور پر تباہ‘ قرار دیا، اور کہا کہ وہ بہت کم کھا رہے ہیں، جو شخص جانتا ہے کہ اس نے جرم نہیں کیا، وہ اسے معمولی طور پر نہیں دیکھ سکتا۔”
2019 سے 2022 تک برازیل کے صدر رہنے والے بولسونارو اپنی بے گناہی کا دعویٰ کرتے ہیں اور اپنے خلاف کارراوائی کو سیاسی انتقام کے طور پر باور کراتے ہیں۔
بولسونارو کے غیر فعال ہونے کے ساتھ، برازیل کے بڑے قدامت پسند انتخابی ووٹرز کے پاس 2026 کے صدارتی انتخابات سے پہلے کوئی نمایاں رہنما نہیں ہے، جس میں لولا 80، چوتھی مدت کے لیے انتخاب لڑنے کا اعلان کر چکے ہیں۔
لولا خود اپنے منصب کے درمیان کرپشن کے الزامات میں قید رہے تھے، لیکن سپریم کورٹ نے ڈیڑھ سال بعد ان کا فیصلہ منسوخ کر دیا تھا۔












لائیو ٹی وی