' موبائل رکھتا ہوں، لیکن انڈر گارمنٹس میں'
اگر آپ کراچی آئے اور آپ نے یہاں کی مشہور بس ڈبلیو گیارہمیں سفر نہیں کیا تو سمجھئے آپ زندگی کے ایک حسین تجربے سے محروم رہے۔ ڈبلیو گیارہ کا سفر ہالی وڈ کی کسی تھرلر مووی جیسا مزا دیتا ہے۔
اس سفرمیں آپ کا دل اسی طرح بلیوں اچھلنے لگتا ہے جیسے کسی امیوزمنٹ پارک میں خطرناک جھولے میں بیٹھ کر۔ کرچی کی سڑکوں پر دوڑتی ایک دوسرے سے ریس لگاتی کسی دلہن کی طرح سجی یہ بس لاکھوں مسافروں کو روزانہ کراچی کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پہنچاتی ہے۔
ڈبلیو گیارہ میں کچھ ہو نہ ہو ٹیپ ضرور ہوتا ہے جس پر مسلسل چلتے درد بھرے جذباتی گانے مسافروں کو ان کا غم بھلانے پر مجبور کرتے رہتے ہیں۔
اللہ والی سے چڑھنے والا مسافر منہ میں گٹکا یا مین پوری دبا کر ناچتی گاتی ڈبیلو گیارہ سے جب کیماڑی پر اترتا ہے تو اس کا وہی حال ہوتا ہے جو تھری ڈی سینما میں ہیری پورٹر دیکھ کر نکلنے والے فلم بینوں کا ہوتا ہے۔
اس بس کے ڈرائیور اور کنڈیکٹر نہایت تربیت یافتہ اور اپنے فن میں طاق ہوتے ہیں کوئی مولوی صاحب لاکھ چلا چلا کر اور اپنی سیٹ سے اچھل اچھل کر ڈرائیور سے ٹیپ بند کرنے کیلئے کہتے رہیں، ڈرائیور کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔
کنڈیکٹر نہ صرف کچھا کھچ بھری ہوئی بس کے ایک ایک مسافر پر نظر رکھتا ہے بلکہ پیچھے سے آنے والی بس کی بریکنگ نیوز بھی اپنے استاد مطلب ڈرائیور کو لائیو ٹیلی کاسٹ کرتا رہتا ہے ۔
'استاد چوبیس پانچ کٹ مار کر آ رہی ہے'، ' اگلا اسٹاپ ڈبل ہے'۔
میں جب انڈیا گیا تو وہاں کے کنڈکٹر حضرات کو دیکھ کر شدید مایوسی ہوئی۔ انتہائی سست اور غیر دلچسپ یہ حضرات بس ایک کونے میں بیٹھے رہتے ہیں اور مسافر حضرات خود آ آ کر ان سے ٹکٹ خرید رہے ہوتے ہیں۔
یہ حضرات ڈبلیو گیای کے کنڈکٹرز کو دیکھ لیں تو ڈوب مریں۔ کیا بجلی بھری ہوتی ہے، کیا زبان چل رہی ہوتی ہے اور جب ہمارا ہیرو ترنگ میں آتا ہے تو دروازےکے پاس کا ہینڈل ایک ہاتھ سے پکڑ کر چلتی بس سے ہوا میں لٹک جاتا ہے۔ قربان جاؤں میں تمھاری جانثاری پر۔
میں ڈبلیو گیارہ کے قصیدے پڑھتا جاؤں گا اور آپ محضوظ ہوتے رہیں گے۔ جتنی دلچسپ ڈبلیو گیارہ خود ہوتی ہے اتنے ہی دلچسپ اس سے سفر کرنے والے خواتین و حضرات۔ میں شرطیہ کہہ سکتا ہوں۔
اللہ والی سے کیماڑی تک کا سفر آپ کو ایسے دلچسپ اور حیرت انگیز مسافروں سے متعارف کرا سکتا ہے جنہیں آپ زندگی بھر نہیں بھول سکتے۔
آیئے میں آپ کو ایسے ہی ایک چچا اور اپنے درمیان ہونے والا مکالمہ سنواتا ہوں۔
چچا: ابے کیا جورو سے پٹ کر آیا ہے جو گھڑی گھڑی گاڑی روک رہا ہے؟
راقم: ڈرائیور نے شاید آپ کی بات سنی نہیں۔
کنڈیکٹر: چچا کی تو ان کے گھر والے نہیں سنتے تو ڈرائیور کیا سنے گا۔
کنڈیکٹر ہمارے پاس سے چچا کو لقمہ دیتا ہوا نکل جاتا ہے۔
چچا: لونڈیوں کی فورا سن لیتا ہے بے غیرت۔
راقم: یہ ہر اسٹاپ پر اتنی دیر گاڑی کیوں روکتے ہیں؟
چچا: گالیاں کھانے کیلئے جب تک عوام کی گالیاں نہ کھائیں ان کا پاؤں ایکسیلیٹر پر نہیں پڑتا۔
راقم: عوام بھی تو زیادتی کرتے ہیں دو منٹ روکنے پر شور مچا دیتے ہیں۔
چچا: (مجھے بغور دیکھ کر) کہاں سے آئے ہو میڈیا والے لگ رہے ہو۔
راقم: آپ نے کیسےپہچانا؟
چچا: کافی زہریلے سوال پوچھ رہے ہو۔
راقم: میں تو آپ کی طرح ایک عام مسافر ہوں۔
چچا: عام مسافر ہوتے تو اتنا مہنگا موبائل لے کر سفر نہ کر رہے ہوتے۔
راقم: میں اسے جیب میں رکھ لیتا ہوں۔
چچا: جیب کترے بھی کم نہیں ہوتے یہاں۔
راقم: تو پھر کیا کروں؟
چچا: ڈاکوؤں کا انتظار۔
راقم: بس میں ڈاکے بھی پڑتے ہیں؟؟
چچا: موبائل گیارہ مربتہ چھن چکا ہے۔
راقم: تو کیا اب موبائل نہیں رکھتے اپنے پاس؟
چچا: رکھتا ہوں لیکن انڈر گارمنٹس میں ۔(چچا آنکھ مارتے ہیں)۔
راقم: کافی محفوظ جگہ ہے پیسے کہاں رکھتے ہیں؟
چچا: کیوں، تمھارا ڈاکا ڈالنے کا پروگرام ہے؟
راقم: یہ ڈرائیور کنڈیکٹر ڈاکوؤں سے ملے ہوئے تو نہیں ہوتے؟
چچا: ڈاکووں سے تو میں بھی کئی بار ملا ہوں۔
راقم: (مسکراتے ہوئے) میرا مطلب ہے یہ ملی بھگت تو نہیں ہوتی؟
چچا: میں تمہیں پولیس والا نظر آرہا ہوں مجھے کیا پتا؟
راقم: تو پولیس والے کچھ کرتے نہیں؟
چچا: کیوں نہیں کرتے ہر اسٹاپ پر ڈاکووں کی حفاظت کے لئے چوکنا کھڑے رہتے ہیں۔
میری ہنسی نکل جاتی ہے، ڈرائیور اچانک بریک لگاتا ہے، چچا کو بری طرح جھٹکا لگتا ہے۔
چچا: ابے کیا اپنی ساس کو دیکھ لیا روڈ پر؟
ڈرائیور اور چچا میں جملے بازی شروع ہو جاتی ہے اور میں اپنے موبائل کی حفاظت کی خاطر گاڑی سے اتر جاتا ہوں۔
خرم عباس ایک ڈرامہ نگار ہیں اور کراچی کی دنیا ان کا خاص موضوع ہے













لائیو ٹی وی
تبصرے (3) بند ہیں