• KHI: Clear 19.5°C
  • LHR: Partly Cloudy 11.7°C
  • ISB: Cloudy 12.6°C
  • KHI: Clear 19.5°C
  • LHR: Partly Cloudy 11.7°C
  • ISB: Cloudy 12.6°C

بمباں اور سدر لینڈ

شائع December 4, 2012

ریل کی سیٹی

ہندوستان کی سرزمین پہ سولہ اپریل 1853 کے دن پہلی بار ریل چلی تھی۔ جس طرح پل بنانے والے نے دریا کے اس پار کا سچ اس پار کے حوالے کیا ، اسی طرح ریل کے انجن نے فاصلوں کو نیا مفہوم عطا کیا۔ اباسین ایکسپریس ، کلکتہ میل اور خیبر میل صرف ریل گاڑیوں کے نام نہیں بلکہ ہجر، فراق اور وصل کے روشن استعارے تھے۔

اب جب باؤ ٹرین جل چکی ہے اور شالیمار ایکسپریس بھی مغلپورہ ورکشاپ کے مرقد میں ہے، میرے ذہن کے لوکوموٹیو شیڈ میں کچھ یادیں بار بار آگے پیچھے شنٹ کر رہی ہیں۔ یہ وہ باتیں ہیں جو میں نے ریل میں بیٹھ کر تو کبھی دروازے میں کھڑے ہو کر خود سے کی ہیں۔ وائی فائی اور کلاؤڈ کے اس دور میں، میں امید کرتا ہوں میرے یہ مکالمے آپ کو پسند آئیں گے۔


تصویری خاکہ ۔ — ماہ جبیں منکانی / ڈان۔ کام

اس دوآبے کو رچناب بھی کہا جاتا تھا۔ راہوالی سے ریل چلتی تو لمبی مسافتوں اور کھلیانوں کے بعد گوجرانوالہ کا اسٹیشن آتا۔ شوگر مل کے مزار اور شہر کے بازار کے بیچ ریلوے اسٹیشن گویا کوئی سزا یافتہ مجرم ہے۔

جلیانوالہ باغ کے شہیدوں میں گوجرانوالہ کے جیالے بھی شامل تھے سو جب بائیس لاشیں شہر میں پہنچیں تو کہرام مچ گیا۔ چونکہ سرکار کے باغی تھے سو انہیں برانڈرتھ گیٹ پہ لایا گیا۔ احتجاج کا سلسلہ بڑھا تو میتیں واپس کردیں۔ اس دوران ایک مسجد کی بے حرمتی ہوئی اور ایک مندر میں گائے کا سر ملا مگر انگریز سرکار کی اس کوشش کے باوجود ہندو مسلم فساد نہ چھڑ سکے۔

اس حادثے کی یاد دیر تک شہریوں کے دل و دماغ میں رہی۔ مزاحمت کے طور پہ 1921 میں پرنس آف ویلز کی برصغیر آمد پہ ریلوے اسٹیشن کو آگ لگا دی گئی۔ دورہ تو جیسے تیسے کر کے بھگت گیا مگر حکمرانوں نے باغیوں کو مزہ چکھانے کا فیصلہ کیا اور شہر سے دور ریلوے اسٹیشن تعمیر کیا۔ تین کوس باہر واقع اس اسٹیشن سے سامان اٹھائے، پیدل چل کر آنا بھی آزادی کی قیمت تھی۔

کوئی وقت تھا کہ راہوالی، گوجرانوالہ سے الگ، ایک اور ہی بستی تھی۔ کھیتوں کھلیانوں کے بعد شہر کے آثار تھے، آبادی ختم ہونے پہ ایک سناٹا، پھر ٹھیری سانسی کا قصبہ اور آخر میں ایمن آباد۔

اپنے دیگر ہم عمر وں کی طرح یہ شہر بھی چند دروازوں کا قیدی تھا۔ سیالکوٹی دروازہ، برانڈرتھ گیٹ، کھیالی دروازہ، شیرانوالہ دروازہ اور ٹھاکر سنگھ دروازہ۔ کچھ دروازوں کی ڈاٹیں رہ گئی ہیں اور کچھ دل کے راستے پہ ڈاٹوں کی مانند گڑے ہیں۔

اب آبادی کہاں شروع ہوتی ہے اور کہاں ختم اس کا اندازہ لگانا قریب قریب ناممکن ہے۔ راہوالی کے اردگرد سے ایمن آباد کے گرد ونواح تک تمام لوگ اپنے آپ کو گوجرانوالہ کا باسی سمجھتے ہیں۔ گاڑیوں کے شو روم، کوٹھیوں میں کھلے اسپتال اور سکول، مکینکوں کی دکانیں اب راہوالی کا ہاتھ  گوجرانوالہ کے ہاتھ میں دے دیتی ہیں۔

شہر ایک بہت بڑے چوک سے شروع ہوتا ہے، جس کے پانچ سات نام ہیں۔ ایک راستہ باہر ہی باہر ایمن آباد سے ذرا پہلے چن دا قلعہ پہ آکر ملتا ہے۔ ایک سڑک نندی پور سے ڈسکہ جاتی ہے اور درمیانی راستہ گوجرانوالہ۔ چوک میں بڑے بڑے بورڈوں پہ مذہب سے لے کر گنجے پن تک ہر مسئلے کا حل لکھا ہے۔

آغاز میں ہی کلائمکس آباد کا نگر ہے۔ سو سال پہلے محنت کی راس لے کر یہ جفا کش کھوکھر اس بستی میں آئے تھے۔ بھٹی کے شعلوں پہ گھوڑوں کی نعلوں سے فونڈری کے پلانٹس تک کا سفر بہت طویل تھا۔ مگر یہ حوصلہ ہارنے والے لوگ نہ تھے سو شہر کے ساتھ ساتھ ترقی کرتے گئے اور لوہا کوٹتے کوٹتے پنکھے، ٹرانسفارمر بنانے لگے۔ 1920 میں قائم ہونے والا یہ کارخانہ گوجرانوالہ کی پہلی انڈسٹری تھی۔ اب شہر میں ہوائی جہاز سے کم کم سب کچھ بنتا ہے۔

گوجرانوالہ ایک کہانی نہیں بلکہ داستان سرائے ہے۔ چونکہ شہر انسانوں کا تعارف ہوا کرتے ہیں اور انسان شہروں کو شناخت عطا کرتے ہیں، سو اس کا دامن بھی ایسے بہت سے موتیوں سے خیرہ ہے۔

یوں تو شہر کئی صدیوں سے آباد ہے اور مورخ کالی داس کو بھی یہیں کا باسی بتاتے ہیں، مگر دستاویزی تاریخ اس کا ناتا پرتیہار گوجروں سے جوڑتی ہے۔ کوئی اسے سانسی گوجروں کی آماجگاہ بھی بتاتا ہے کہ کسی سردار نے دس بارہ گاؤں اکٹھے کیے اور ان کا نام خان پور سانسی رکھ دیا۔

مغلوں کی تاریخ میں اس کا تذکرہ اورنگ زیب عالمگیر اور شاہجہاں کے دور سے شروع ہوتا ہے اور بات آخرکار رنجیت سنگھ کے باپ دادا پہ آ کر ختم ہوتی ہے جنہوں نے اسے شہرت بخشی۔ گوجرانوالہ کا موجودہ نقشہ ہری سنگھ نلوہ نے بنایا تھا۔

رنجیت سنگھ کی جگھ پیدائش -- فوٹو بشکریہ مصنف --.
رنجیت سنگھ کی جگہ پیدائش -- فوٹو بشکریہ مصنف --.

شہر کی کہانی آگے بڑھانے سے پہلے ایک اور کہانی سنانا ضروری ہے۔ سبزی منڈی کے آس پاس کہیں ایک تھانہ ہے۔ اس تھانے کے ایک کمرے میں، جہاں کچھ سال پہلے تک حوالاتیوں کو رکھا جاتا تھا، رنجیت سنگھ پیدا ہوا۔ شیر پنجاب کا لقب پانے والے اس سکھ مہاراجہ کے حصے میں بہت سی باتیں اور بہت سے تمغے آئے۔ مختلف سلتنطوں کے برگشتہ جرنیلوں کو اکٹھا کر کے اپنے وقت کی سب سے بڑی طاقت کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہونے کا حوصلہ صرف رنجیت سنگھ میں تھا۔ فوج کے علاوہ مہاراجہ کے پاس فقیر سید عزیزالدین اور فقیر سید وحیدالدین جیسے بہترین سفیر بھی میسر تھے۔

کچھ منچلے پنجابی اسے پنجاب کا پہلا حکمران گردانتے ہیں اور کچھ اسے پنجاب کا واحد پنجابی حکمران مانتے ہیں۔ دو دریاؤں کے درمیان حکومت شروع کر نے کے بعد مہاراجہ نے آہستہ آہستہ اپنی سلطنت کا دائرہ کار اتنا وسیع کیا کہ تاریخ آج بارہ مسلوں کے بارے میں بھی بولتی ہے اور سکر چاکیہ خاندان کا حال بھی سناتی ہے۔

رنجیت سنگھ کی جگہ پیدائش -- فوٹو بشکریہ مصنف --.
رنجیت سنگھ کی جگہ پیدائش -- فوٹو بشکریہ مصنف --.

ستلج سے ہمالے تک کا سارا علاقہ جس میں پانچوں دریا اور کشمیر کی پہاڑیاں شامل تھیں، سکھ دربار کے زیر نگیں تھا ۔ گوجرانوالہ کی ہی ایک جند کور کا تذکرہ شیر پنجاب کے کان پڑا تو اس نے رشتہ بھیج دیا اور یوں رانی جنداں مہاراجہ کی سب سے چھوٹی بیوی بن کے لاہور چلی آئی۔ مہاراجہ سورگ باش ہوا تو باقی کی رانیاں ستی ہو گئیں مگر ننھے دلیپ سنگھ کے سبب مہارانی زندہ رہی۔ خالصہ دربار میں قصے کہانیوں جیسی لوٹ مار مچ گئی۔

انگریزوں کی نظر دلیپ سنگھ پہ تھی لہٰذا اسے انگلستان بھیج دیا گیا جہاں لوگن صاحب نے اس کی پرورش کی۔ ادھر مہارانی اپنے بیٹے کی ایک جھلک دیکھنے کو ترستی رہی اور ادھر دلیپ سنگھ ہر صبح عیسیٰ کے گلے کی کہانی سنتا رہا۔

کچھ تیرہ برس بعد جب مہاراجہ دلیپ سنگھ تاج برطانیہ کی اجازت سے کلکتہ پہنچا تو کچھ دیر تک ماں کو پہچان ہی نہیں پایا۔ جن آنکھوں نے پنجاب کا عروج دیکھا تھا اب دھندلا گئی تھیں۔ دلیپ سنگھ ماں کو لے کر واپس انگلستان چلا آیا۔ پھر اگست کی ایک صبح مائی صاحب کنسنگٹن میں انتقال کر گئیں۔ یہ 1860 تھا مگر کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔ چھ ماہ تک رانی جنداں کا جسد خاکی مقامی قبرستان میں پڑا رہا تب کہیں جا کر دلیپ سنگھ کو اجازت ملی اور وہ ہندوستان آیا۔ پنجاب جانے کی اجازت اب بھی نہ تھی سو ناسک میں آخری رسومات ادا کیں۔ خاک مگر اب بھی اپنی جگہ پہ نہ پہنچی تھی۔

واپسی پہ دلیپ سنگھ نے ایک مصری راہبہ سے شادی کی اور اس کی اولاد میں سے ایک بمباں صوفیہ دلیپ سنگھ تھی۔ بیسویں صدی کی پہلی دہائی میں بمباں نے بالآخر ہیمپٹن کورٹ کو خیرباد کہا اور لاہور میں رہائش اختیار کرلی۔ یہیں اس نے ڈاکٹر ڈیوڈ سدرلینڈ سے شادی کی جو کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے پرنسپل تھے۔ 1924 میں بالآخر پوتی کو اجازت ملی کہ وہ دادی کی راکھ کو لا کر لاہور میں رنجیت سنگھ کی سمادھی میں رکھ سکے۔

رنجیت سنگھ کی یہ پوتی، ماڈل ٹاؤن کے ایک بنگلے میں رہائش پذیر ہوئی جس کا نام اس نے گلزار رکھا۔ تقسیم کے موقع پہ اس شہزادی کی کیفیت اس باپ کی سی تھی جس کے سامنے اس کی جائداد اس کے بچوں میں بٹ رہی ہو اور وہ زمین کی ہوس میں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوئے ہوں۔ کرنل سدر لینڈ کے انتقال کے بعد مہارانی نے کریم بخش سوپرا کو بطور سیکرٹری رکھ لیا جو گھر کی دیکھ بھال کے علاوہ دیگر امور بھی نبٹا دیا کرتے۔

 کہتے ہیں ملکہ وکٹوریہ کو دلیپ سنگھ سے خاص انس تھا، اب یہ ملکہ کی مادری شفقت تھی یا کوہ نور کی کرامت مگر وہ اکثر کہا کرتی تھی کہ اسے دلیپ کی آنکھیں بہت پسند ہیں۔ بمباں کے حصے میں باپ کی طرف سے نسلی تفاخر کے علاوہ یہ آنکھیں بھی آئیں تھیں۔ فروری 1957 میں یہ آنکھیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند ہو گئیں۔

رنجیت سنگھ کی جگہ پیدائش -- فوٹو بشکریہ مصنف --.
رنجیت سنگھ کی جگہ پیدائش -- فوٹو بشکریہ مصنف --.

مرتے دم تک بمباں اپنے آپ کو پنجاب کی آخری مہارانی ہی سمجھتی رہی۔ اب لاہور کے گورا قبرستان میں ایک گمنام سی قبر ہے جس پہ ہر کرسمس، عید، شب برات اور گڈ فرایئڈے، پیر کریم بخش سوپرا کے بچے پھول چڑھاتے ہیں۔ کتبے پہ انگریزی میں بمباں کی تاریخ پیدائش اور تاریخ وفات درج ہے، مہاراجہ کا نام بھی لکھا ہے اور فارسی کا ایک شعر بھی کندہ ہے۔

فرق شاہی و بندگی برخاست

چوں قضائے نوشتہ آید پیش

گر کسے خاک مردہ باز کند

نہ شناسد تونگر از درویش

 ترجمہ: جب موت کا بلاوہ آتا ہے تو بادشاہی اور بندگی کا فرق ختم ہو جاتا ہے، اگر کوئی کسی قبر کو کھول کر دیکھے تو وہ بتا نہیں سکے گا کہ اس مرقد میں کوئی خوشحال دفن تھا یا مفلوک الحال۔

جاری ہے...


   مصنف وفاقی ملازم ہیں۔

محمد حسن معراج
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (3) بند ہیں

Koi-Kon Dec 04, 2012 11:27am
Reblogged this on KOI KON.
fraz mirza Dec 04, 2012 11:52am
ترجمہ: جب موت کا بلاوہ آتا ہے تو بادشاہی اور بندگی کا فرق ختم ہو جاتا ہے، اگر کوئی کسی قبر کو کھول کر دیکھے تو وہ بتا نہیں سکے گا کہ اس مرقد میں کوئی خوشحال دفن تھا یا مفلوک الحال۔ kia khobsurat baat kahi hai sahib e haal nay love you man
Imtiaz Rasheed Dec 04, 2012 04:56pm
very nice...love to read.

کارٹون

کارٹون : 12 دسمبر 2025
کارٹون : 11 دسمبر 2025