Supporter of cleric Muhammad Tahirul Qadri celebrates after Qadri reached agreement with Pakistan's coalition government in Islamabad
فائل فوٹو --.

خالص سیاسی اصطلاح میں بات کہیں تو اسلام آباد کے بلیو ایریا میں منعقدہ طاہر القادری کا 'انقلاب' بہ حالتِ مجبوری دیکھا گیا۔

ہم جیسے بہت سے دوسرے بھی کیبل ٹیلی وژن کی پیدا کردہ افرا تفری سے دیوانے ہوچلے تھے۔ کیبل ٹی وی کی چوبیس گھنٹوں کی نشریات کا محور یہی تھا، جس کا مطلب تھا کہ قادری جیسے ڈھکوسلے باز نے یہ سب کچھ دیکھنے کا پابند کرڈالا تھا۔

شہری لوگوں کو کئی روز تک محصور کرنے کے بعد اس ڈرامے کا ہدایت کار اختتامی منظر نامہ لکھ رہا ہے۔

ریکارڈ کے لیے کہہ رہا ہوں کہ اتنی بڑی تعداد میں یہ مجمع دائیں بازو کا تازہ ترین برانڈ تھا، جہاں تک لانگ مارچ کی بات ہے تو وہ اس کے بارے میں زیادہ فکرمند نہیں لگتے تھے اور شاید وہ کچھ اور بھی خیالات سوچ رہے تھے۔

روز مرہ کے معمولات کی کیا بات کریں، انقلاب کے اس حصار نے ہر شے کو متاثر کر کے رکھ چھوڑا تھا۔

ایسے میں بے شک وہ لوگ جن کا خیال ہے کہ بائیں بازو کی سیاست معروف ترین برانڈ ہے، وہ ایک طرف اداس کھڑے نظر آتے تھے۔

اب اگر وہ واقعی طبقات کو آزاد کرانے کی خواہش رکھتے ہیں تو پھر انہیں گاؤں دیہاتوں اور گلی محلّوں کی سطح پر جاکر خود کو متحرک کرنا چاہیے تاکہ لوگ ان کی بات پر دھیان دے کر، حقیقی تبدیلی کے لیے ان کا ساتھ دینے پر سوچ سکیں۔

اس وقت شہری مڈل کلاس طبقہ ہی 'انقلابی' سیاست کا سرخیل ہے اور وہی محاذ کی پہلی صف پر کھڑا ہے اور جہاں تک تبدیلی کی بات ہے تو اس کی امید میڈیا اور عدلیہ میں تبدیل ہوچکی ہے۔

ایسا نہیں کہ یہ تبدیلی صرف پاکستان میں آئی ہے۔ جب سے سرد جنگ کا خاتمہ ہوا ہے اور عالمی معیشت میں تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں، تب سے دولتمندوں کی راہ میں مڈل کلاس ہی رکاوٹ کے طور پر سامنے آئی ہے۔

اسی طبقے نے اسٹیبلشمنٹ کے حامی دانشوروں اور سیاست کاروں کی ان دھاندلیوں اور ہیرا پھیریوں کو روکنے کی کوشش کی ہے جو وہ گذشتہ برسوں کے دوران سیاست کے نام پر کرتے رہے ہیں، اب صورتِ حال بدل چکی ہے۔

یہ اسی عذاب اور اداسی کا نتیجہ ہے، جسے وہ سہتے رہے ہیں۔ اب بھی ایسی ترقی پسند سیاسی قوتیں ہیں جو سیاسی عمل کے مرکزی دھارے سے دور ہیں، لیکن اگر انہیں عوامی حمایت مل جائے تو وہ تقدیر بدل دینے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

اس طرح کی تحریکیں اکثر اس لیے بھی الگ تھلگ رہتی ہیں کہ انہیں خوف زدہ ریاستیں با آسانی جرم میں ملوث کرسکتی ہیں لیکن کب تک وہ ایسا کرسکتے ہیں، اس پر سوال باقی ہے۔

اس وقت ایسے کوئی شواہد موجود نہیں کہ ان تحریکوں کے وجود حکومتوں کے اسٹیٹس کُو کے سامنے کوئی چیلنج یا ان کے لیے کوئی خطرہ بن سکتے ہیں، جس کے باعث انہیں مٹادیا جائے۔

انہیں مٹانے کی کوششیں بھی ہوئیں لیکن کیاہوا۔ بدقسمتی سے یہ سرمایہ داری کو درپیش متحدہ سیاسی چیلنج ہے اور ہماری آزاد جمہوریت کا المیہ بھی، جو بیسویں صدی سے سیاسی منظر نامے پر موجود چلا آرہا ہے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ ماضی میں کئی بار سماجی اور سیاسی تبدیلی کے لیے محدو پیمانے پر ہی سہی، متبادل کے لیے ایسی تحریکیں سامنے آئی ہیں۔ اس لیے ہم یہ نہی کہہ سکتے کہ خرابی ان میں یا پھر خود اُن کے اندر ہے۔

بجائے اس کہ کہ وہ متحد ہو کر 'نظام' کو حاصل کرکے اسے تبدیل کرنے کی کوشش کریں، اس سے پہلے ہی انہیں ایک دوسرے کے ساتھ لڑا کر ختم کردیا جاتا ہے۔

پاکستان کی سیاسی ساخت کیسی ہے اور سیاست کا چلن کیا ہے، اس کا مظاہرہ تو قادری کی طرف سے اسلام آباد کے محاصرے کی صورت میں سامنے آچکا۔

اب اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ جو سیاسی ساخت ہے وہ کچھ دے سکے گی۔ اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ جو تبدیلی لانا چاہتے ہیں، وہ اتنے منظم نہیں کہ یہ کرسکیں۔

اگر کوئی نظام تباہی کے دہانے پر پہنچ جائے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ سب کچھ روک دیا جائے۔ جیسا کہ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ اس وقت بھی بہت سے پاکستانی تبدیلی کے لیے کوشاں ہیں اور خود میڈیا بھی انقلاب کے لیے رو رہا ہے۔

اس پر کوئی سوال نہیں ہے کہ بعض مُلا اور طاہر القادری جیسی ورائٹی یا پھر طالبان جیسے لوگ ہمارے میں موجود ہیں اور یہ ہمارے بھیانک خواب کا حصہ ہیں۔ وہ اپنے لیے سب کچھ تلپٹ کردینے کی سکت رکھتے ہیں اور اس کا اظہار بھی کرچکے ہیں۔

درحقیقت اقتدار کی چاہ رکھنے اور اس کی ملکیت کے تو کئی دعویدار ہیں لیکن اس بات پر ان میں کوئی اتفاق نہیں کہ کس طرح پاکستان کو ترقی کی راہ پر آگے لے کر بڑھنا ہے۔ اور حقیقت میں اس دوڑ میں شامل لوگ اتنی طاقت نہیں رکھتے کہ وہ دوسروں کو کچل کر آگے نکل سکیں۔

حتیٰ کہ اگر فوج اور عدلیہ (اس میں ریاست پر گرفت رکھنے والوں کو بھی ساتھ رکھ لیں) تو اب تک ان کے ہاتھوں پر بدستور دستانے چڑھے ہوئے ہیں۔ یہ ادارے اس قابل بھی نہیں کہ وہی انہیں تحفظ فراہم کرسکیں، جو ان کی سیاسی لحاظ سے، برسوں سے سرپرستی کرتے چلے آرہے ہیں۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون ہے جو سرپرستی کررہا ہے یا کرسکتا ہے؟ انکل سام۔۔۔ ان کے ساتھ وہ دوسری غیر ملکی طاقتیں بھی ہیں، جن کے یہاں مفادات ہیں اور ان کے تحفظ کے لیے یہ اپنی پسند کی سیاسی قوت کی بالادستی چاہتے ہیں اور اس کے لیے کوشش بھی کرتے ہیں، اکثر کامیابی کے ساتھ۔

مختصر کہیں گے کہ ایک کام کو بہت سارے لوگ کرنے کی کوشش کریں تو اکثر وہ خراب ہوجاتا ہے۔ اوراس ساری صورتِ حال کے نتائج، مزید افراتفری کے امکانات جیسا کہ بعض مبصرین کہہ رہے ہیں کہ ان کی سطحیں اور مقدار مختلف ہوسکتی ہیں۔

لیکن ایک بات لائقِ تعریف ہے۔ اسلام آباد میں طاہر القادری جس غیر حقیقی 'انقلاب' کا پردہ چاک تو ہوا، تاہم اس کے افق پر رہنے کے دوران بھی پاکستانیوں کی روز مرہ زندگی معمول کے مطابق چلتی رہی۔ سوسائٹی کا رویہ اور فہم لائقِ تعریف ہے۔

ان سب باتوں سے میرا نتیجہ یہی ہے کہ ترقی پسند کیوں اکھٹے مل کر نہیں بیٹھے اور وہ جو کچھ ٹی وی پر دکھایا جاتا رہا، اس کے بجائے جو کچھ حقیقی زندگیوں میں ہورہا ہے، اس پر اپنی بھرپور توجہ کیوں مرکوز نہیں کرتے۔

اس ابتدا کے لیے سب سے پہلے ہمیں شخصیات کے چہروں کی قدر دیکھ کر، اس پر بات کرنے کا سلسلہ روک دینا چاہیے۔ یہ عوام کی حقیقی ترجمانی نہیں کرتے۔

اب یہ کہنے کا وقت آگیا ہے کہ درحقیقت وہ سیاست کے محاذ پر اصل تبدیلی لانے والے ایک عام آدمی کو پیچھے کی طرف دھکیل کر، اس کا راستہ روکتے ہیں۔

دوسرا یہ کہ پاکستانی معاشرہ متحد نہیں، وہ داخلی تقسیم کا شکار ہے، جس کی وجہ سے ایسا ہونا بہت مشکل ہوتا جارہا ہے۔ یہاں میں نہ صرف لسّانی قوم پرستی کا حوالہ دوں گا بلکہ تمام سیاسی قوتیں بھی پُر تشدد تنازعات کو پروان چڑھانے کی ذمہ دار ہیں۔

یہ ایسی صورتِ حال ہے کہ جسے وہ استعمال کرتے ہوئے نہ صرف تنازعات کو ہوا دیتے ہیں بلکہ اس سے اپنے مقاصد حاصل کرتے ہیں لیکن جیسا کہ میں پہلے بھی کئی بار تجویز کرچکا ہوں کہ اختیارات والوں کے یہ تضادات مسائل کو ختم یا کم نہیں کرسکتے بلکہ اس طرح وہ اور زیادہ بڑھتے ہیں اور بڑھ رہے ہیں۔

بہر حال، یہ ذمہ داری ترقی پسندوں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ حکومتی ریشہ دوانیوں کو روکنے کے لیے آگے بڑھیں، یا پھر کم از کم اتنا تو کریں کہ درست طریقے سے اس کا جواب دے سکیں۔

اس کے لیے پہلی مثال یہی ہوگی کہ وہ اسٹیبلشمنٹ مخالف تمام قوتوں کو متحد کرکے ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوشش کریں۔

تاریخی لحاظ سے ترقی پسندوں کا یہی کردار رہا ہے چاہے وہ ہمارا ملک ہو یا پھر باقی دنیا۔ اس وقت پاکستان کی صورتِ حال رو رو کر دہای دے رہی ہے کہ ترقی پسند اٹھیں اور ایک بار پھر اپنا کردار ادا کریں۔

حتمی تجزیہ کے طور پر، اگر کوئی بھی، جو موجودہ جمہوری نظام کے دائرے میں رہتے ہوئے تبدیلی کا خواہاں ہے، اسے دو راستے اختیار کرنا پڑیں گے۔

آسان ترین راستہ تو یہ ہے کہ بیٹھے ہوؤں سے ہاتھ ملاؤ، ہماری اجتماعی تقدیر کا فیصلہ کرو اور اس انہدام پر آمادہ ہو، جس کے بارے میں ہم کچھ وقت سے حقیقت بن جانے کا سوچ رہے ہیں۔

دوسرا راستہ مشکلات سے پُر ہے۔ وہ یہ کہ جمہوریت کی فتح کو یقینی بناتے ہوئے اختیارات کے مستقل سرچشمے میں داخل ہوا جائے اور اسے حقیقی معنوں میں سماجی تبدیلی کی طرف گامزن کیا جائے۔

باقی ہم سب کو یقین ہے کہ یہ وہ اسکرپٹ نہیں جسے طاہرالقادری یا ان کے پیچھے بیٹھے لوگ پڑھ رہے ہیں۔


مضمون نگار قائدِ اعظم یونیورسٹی، اسلام آباد میں درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔

ترجمہ: مختار آزاد

تبصرے (0) بند ہیں