پگھلتے گلیشیر

شائع February 28, 2013

فائل فوٹو --.

وہ جو سوچتے تھے کہ موسمیاتی تبدیلیاں ماہرینِ ماحولیات کی طرف سے کیا گیا پروپیگنڈا ہے، شاید اب انہیں اپنی سوچ پر نظر ثانی کی ضرورت ہوگی۔

ان شواہدات میں اضافہ ہورہا ہے جو تجویز کرتے ہیں کہ بڑھتا ہوا درجہ حرارت واضح طور پر عوام اور ملک، دونوں کے لیے بڑا خطرہ بنتا جارہا ہے۔

پاکستان کے محکمہ موسمیات کے حکام کا کہنا ہے کہ موسمِ گرما کے مہینوں میں شمالی علاقہ جات کے گاؤں دیہاتوں کو گلیشیائی جھیلوں یا گلیشیرز لیک کے پھٹنے کے سبب سیلابوں کے خطرات کا سامنا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے باقی دوسرے علاقوں کی طرح، پاکستان میں بھی عالمی موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب گلیشیروں پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ وہ تیزی سے پگھلتے ہوئے ختم ہورہے ہیں۔

گلیشیروں کا پگھلنا ماحولیاتی نظام کے لیے خطرے کا باعث ہے، نیز اس کی وجہ سے سیلابوں کا آنا معمول بن سکتا ہے۔

علاوہ ازیں، ہمارے ملک کی آبادی کا ایک بڑا حصہ سیلابی میدانوں یا ساحلی پٹی کے کنارے آباد ہے، جنہیں سیلابوں کی صورت میں خطرے کا سامنا ہے۔

آب پاشی کی سہولت حاصل کرنے کے لیے پانی کے قدرتی نظامِ بہاؤ میں ڈالی گئی رکاوٹیں بھی سیلابوں سے بدترین تباہی کی ایک وجہ ہیں۔

اگرچہ ہمارے ملک کے شمال میں موجود بہت سے گلیشیر ختم ہوچکے تاہم جو بدستور موجود ہیں ان کا حجم بھی تیزی سے سکڑتا جارہا ہے، جو تتشویش کی نہیں بلکہ خطرے کی گھنٹی کے مترادف صورتِ حال ہے۔

موسمیاتی تبدیلیاں یا کلائمٹ چینج کا مطلب ہے کہ سب سے پہلے گلیشیروں کے پگھلنے کے باعث سیلاب تواتر سے آنے لگیں گے اور پھر گلیشیروں کے ختم ہونے کے بعد دریا میں پانی کا بہاؤ کم ہونے لگے گا اور وہ رفتہ رفتہ سوکھتے چلے جائیں گے۔

موسمیاتی تبدیلیوں پر قابو پانا ریاست کے بس کی بات نہیں البتہ اس کے منفی اثرات کو کم سے کم کرنے کی کوششیں ضرور کی جاسکتی ہیں تاکہ بڑی بڑی قدرتی آفتوں سے بچا جاسکے۔

ٹھوس اعداد و شمار درست منصوبہ بندی کے لیے ناگزیر ہیں۔ اس ضمن ،میں گلگت ۔ بلتستان میں گلیشیروں کے پگھلنے کی رفتار پر نظر رکھنے، سیلابوں اور برفانی تودوں کے حوالے سے پیشگوئی کے لیے موسمیاتی اسٹیشن کا قیام مثبت قدم ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین کا منصوبہ بندی کے تحت استعمال اور پائیدار زراعت بھی قدرتی آفات کے منفی اثرات کو کم سے کم کرنے میں معاون کردار ادا کرتے ہیں۔

خطرات سے آگاہی کے بعد، ہنگامی حالات کے لیے منصوبہ ترتیب دینا چاہیے۔ ساتھ ہی، بالخصوص ضلع اور اس سے نچلی سطح پر، سیلابوں یا ایسی دیگر قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے اداروں کو بھی متحرک کردینا چاہیے۔

ماضی میں پیش آنے والی قدرتی آفات کے تجربات سے سبق سیکھ کر، مستقبل میں ممکنہ ایسی صورتِ حال میں، انسانی زندگیوں کے تحفظ کی منصوبہ بندی کرلینی چاہیے۔

ڈان اخبار

تبصرے (1) بند ہیں

انور امجد Feb 28, 2013 05:54am
یہ ایک ضروری مسئلہ کی نشاندہی کی گئی ہے جس کے لئے حکومت کو فوری منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔ گلیشیرز وہیں بنتے ہیں جہاں پہاڑوں پر قدرتی رکاوٹ کی وجہ سے برف جمع ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ اب پہاڑوں پر رکاوٹیں بنا کر مصنوعی گلیشیر بنانے کے تجربے بھی کامیاب ہوئے ہیں۔ بھارت میں پانی ذخیرہ کرنے کے لئے اس کا استعمال ہو رہا ہے۔ پاکستان میں بھی اس پر کام ہونا چاہیے۔ پاکستان ایک خوش قسمت ملک ہے کیونکہ یہ دنیا کے تین بلند ترین پہاڑی سلسلوں ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش کے سنگم پر واقع ہے۔ اگر گلیشیرز کے حجم میں کمی ہو بھی جائے تب بھی پہاڑوں پر اتنی پریسیپیٹیشن ضرور ہوتی رہے گی کہ اشااللہ پاکستان کے دریا بہتے رہیں۔

کارٹون

کارٹون : 17 جون 2025
کارٹون : 16 جون 2025