فائل فوٹو --.
فائل فوٹو --.

آنے والے الیکشن کے دوران امن و امان برقرار رکھنا پاکستان کے لیے اس وقت سب سے اہم مسئلہ ہے۔ ساتھ ہی کہا جاسکتا ہے کہ پُرامن الیکشن کا انعقاد قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے بھی سب سے بڑا چیلنج ہوگا۔

پاکستان کے روایتی سیاسی انتخابی منظر نامے میں عوامی جلسوں کے بغیرالیکشن مہم اور خود الیکشن کے عمل میں بھی گرمجوشی پیدا نہیں ہوتی۔ لوگوں کو متحرک کرنے کے لیے بڑے جلسوں پر سیاسی جماعتوں کا انحصار ہے۔

عوامی جلسے، کارنر میٹنگ، جلوس اور انتخابی مواد کی ترسیل کے لیے فول پروف انتظامات کی ضرورت ہے۔ الیکشن سکیورٹی کوان الفاظ میں بیان کی جاسکتا ہے: 'ایسا عمل جس کے تمام شراکت داروں، معلومات، سہولتوں اور عوامی اجتماعات کی حفاظت یقیبنی ہو۔'

ہماری تاریخ بڑھتے ہوئے تلخ ترین واقعات سے سیاہ ہوچکی۔ پہلا سب سے تلخ اور بڑا واقعہ سن اُنیّسو اکیاون میں پہلے پاکستانی وزیرِ اعظم لیاقت علی خان کا قتل تھا۔ اس کے کئی دہائیوں بعد، جولائی سن دو ہزار چار میں انتخابی مہم کے دوران ایک اور سابق وزیرِ اعظم شوکت عزیز قاتلانہ حملے میں بال بال بچے۔

اٹھارہ اکتوبر، سن دوہزار سات کو خودساختہ جلاوطنی ترک کر کے وطن لوٹنے والی پی پی پی کی قائد اور سابق وزیرِ اعظم کے قافلے پر کراچی میں، انتہائی مہلک دو بم حملے ہوئے، جس میں لگ بھگ ایک سو چالیس افراد اپنی جانوں سے گئے۔ تقریباً دو ماہ بعد، خود بینظیر بھٹو کو بھی لیاقت باغ میں حملے کا نشانہ بنادیا گیا۔

گذشتہ عام انتخابات کے دوران معروف سیاستدانوں آفتاب شیر پاؤ، ان کے بیٹے سکندر شیر پاؤ، امیر مقام اور افراسیاب خٹک پر بھی قاتلانہ حملے کیے گئے۔

سن اُنیّسو ستانوے کے ضمنی انتخابات کے دوران اے این پی کے سینئر رہنما غلام احمد بلور کے اکلوتے فرزند کو گولیاں مار کر قتل کردیا گیا۔ گذشتہ سال ان کے بھائی اور سینئر صوبائی وزیر بشیر بلور کو ایک سیاسی تقریب کے دوران خودکش حملے کا نشانہ بنایا گیا۔

سن دو ہزار آٹھ سے دو ہزار بارہ کے درمیانی عرصے میں، مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین کی جان لینے ک کوششیں کی گئیں۔ ان میں مولانا فضل الرحمان، قاضی حسین احمد، اسفند یار ولی اور امیر حیدر ہوتی بھی شامل ہیں۔

جنوبی ایشیا کے ممالک میں تقریباً ہر جگہ الیکشن کے دوران پُرتشدّد واقعات رونما ہونے کی ایک تاریخ ہے جو بدقسمتی سے نہایت غلط روایت بن چکی۔

اکیس مئی، سن اُنیّسو اکیانوے کو ہندوستان کے سابق وزیرِ اعظم اور کانگریس کے رہنما راجیو گاندھی کو ان کی الیکشن مہم کے دوران خودکش بمبار خاتون نے ہلاک کردیا۔ سن اُنیّسو ننانوے میں شری لنکا کے سابق صدر چندریکا کمارا تُنگے، دارالحکومت کولمبو میں نکالی جانے والی ایک الیکشن ریلی کے دوران طاقتور بم حملے میں زخمی ہوئے۔

ان مثالوں سے اس بات کی ضرورت عیاں ہوتی ہے کہ الیکشن مہم کے دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سخت حفاظتی انتظامات کرنا ہوں گے۔

ماضی میں الیکشن پر شفافیت اور ساکھ کے حوالے سے سوالات اٹھتے رہے لیکن اس وقت ہر شخص یہ پوچھ رہا ہے کہ امن و امان کی جو مخدوش صورتِ حال ہے، ان میں پُرامن انتخابات کس طرح منعقد ہوسکتے ہیں۔

لہٰذا اس وقت نہایت اشد ضرورت ہے کہ الیکشن سے قبل ہر قسم کی دہشت گردی اور پُرتشدّد واقعات کی روک تھام کی جائے، تاکہ پولنگ کے دن ووٹرز کو گھر سے نکل کر پولنگ اسٹیشن تک پہنچنے کا حوصلہ ملے۔

روایتی طور پر بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے بعض حصوں میں قبائی عمائدین مقامی سطح پر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روک دیتے ہیں۔ اس طرح کے (روایتی قبائلی) ادارے، مقابلہ کرنے والے امیدواروں کے درمیان تنازعات کو جنم دیتے ہیں۔

الیکشن مہم کے دوران پُرتشدد واقعات کا ہونا اس بات کا اشارہ ہوگا کہ الیکشن کے دن یہ صورتِ حال ووٹ ٹرن آؤٹ پر اثر انداز ہوگی۔

سن دو ہزار آٹھ کے دوران، پولنگ اسٹیشنز پر خود کش حملوں کے تسلسل میں صرف خیبر پختون خواہ کے علاقے بونیرمیں پینتیس ووٹرز ہلاک ہوگئے تھے۔ لہٰذا ایسے میں، بھہتّر ہزار پولنگ اسٹیشنز کے لیے مربوط، موثر اور جامع سکیورٹی حمکتِ عملی اور اقدامات کی ضرورت ہوگی۔

تشدد کا ایک امکان ووٹوں کی گنتی اور نتائج مرتب کرتے وقت بھی ہے۔ یہ ایک اور اہم مسئلہ ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہوگی۔

حال ہی میں الیکشن کمیشن نے انتخابات کے حوالے سے ضابطہ اخلاق جاری کیا ہے، جس کے مطابق امیدوار کو اپنے عوامی اجتماع کی اطلاع تین دن قبل دینا ہوگی۔ نیز، الیکشن مہم کے دوران، امیدوار کی حفاظت یقینی بنانے کے لیے ہر امیدوار کو پانچ سکیورٹی اہلکار فراہم کیے جائیں گے۔ ساتھ ہی، درپیش خطرات کے تجزیے سے اُن مقامات کی نشاندہی کی جائے گی، جو امکانی طور پر خطرناک ہوسکتے ہیں۔

ضروری ہوگا کہ خطرات کے تجزیے کی روشنی میں، درجہ بندی کر کے، اُن کے معیار مقرر کیے جائیں، اس طرح پولیس کو تدارکی اقدامات کرنے اور حفاظت کے لیے موثر حکمتِ عملی اپنانے میں مدد مل سکے گی۔ خطرات کے تجزیے کے لیے ضروری ہوگا کہ ان کے امکانی ہدف، حملہ کرنے والوں اور ان کے مقاصد کو شناخت کیا جائے۔

اس وقت پاکستان میں، درپیش خطرات کا سائنسی بنیادوں پر، انتہائی بنیادی سطح پرپیشہ ورانہ انداز میں تجزیہ کرکے مقاصد کا پتا چلانے کا کا فقدان ہے۔ درحقیقت ہونا یہ چاہیے کہ وہ جو دہشت گرد یا عسکریت پسند تنظیوں کی ہِٹ لِسٹ پر ہیں، پولیس انہیں وقتاً فوقتاً سکیورٹی ایڈوائسز جاری کرے۔

امکانی طور پر، الیکشن سے جُڑی پُرتشدّد کارروائیوں کا ہدف امیدوار، ووٹرز، سکیورٹی اہلکار، مبصرین اور میڈیا ہوسکتا ہے۔

اگرچہ الیکشن مہم کے دوران سیاسی اجتماعات میں سیاسی قائدین کو بھرپور تحفظ حاصل ہونا چاہیے، تاہم اکثر سیاسی اجتماعات اور اس طرح کی دیگر سیاسی سرگرمیوں کے دوران، تمام ترسکیورٹی حکمتِ عملی اور اقدامات دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں، لہٰذا ایسے میں ضروری ہے کہ سیاسی جماعتوں اور پولیس انتظامیہ کے درمیان آزادانہ طور پر رابطے قائم رہنا چاہئیں۔

پولیس کی غیر جانبداری یقینی بنانے کے لیے، دوران ترسیل، بیلٹ پیپر پولیس کی گاڑیوں میں رکھ کر پولنگ اسٹیشنوں تک نہ بھیجے جائیں۔

الیکشن کے دوران تنازعات کی ایک بڑی وجہ شناخت کا مسئلہ بھی بن سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اندرون ملک نقل مکانی کرنے والوں (آئی ڈی پیز) کی بڑی تعداد خیبر پختون خواہ اور کراچی کے بعض علاقوں میں، مقامی سیاسی حرکیات (ڈائنامکس) پر اثر انداز ہوسکتی ہے، جس کے سبب الیکشن کے دوران نئے تنازعات جنم لے سکتے ہیں۔

الیکشن کے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کا اعلان ہونے کے فوراً بعد بھی تشدد کے خطرات ہیں۔ مثال کے طور پر، پولنگ اسٹیشن سے غیر حتمی نتائج کا اعلان ہوتے ہی فاتح امیدوار کے حامی خوشی میں ہوائی فائرنگ کا سلسلہ شروع کردیتے ہیں۔

اس طرح کے واقعات، جیسا کہ خود کچھ عرصہ قبل ملتان کے یک حلقے کے ضمنی انتخابات کے موقع پر ہوائی فائرنگ کی صورت دیکھنے میں آیا، الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کے موثر ہونے پر سوال اٹھاتے ہیں۔

الیکشن کے موقع پر پولیس کی ذمہ داریاں بہتر طور پر ادا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ الیکشن کمیشن اور پولیس کے درمیان موثر رابطے قائم رہیں۔ ظاہر ہے کہ پُرامن الیکشن کا انعقاد قانون نافذ کرنے والوں کی ذمہ داریوں کا ایک کڑا امتحان ثابت ہوگا۔

بین الاقوامی تجربات سے یہ سبق ملا ہے کہ الیکشن کے موقع پر امن و امان کا قیام کسی ایک ادارے کے بس کی بات نہیں بلکہ ان کے موثر ہونے کے لیے تمام شراکت داروں کے درمیاں موثر رابطے ہونے چاہئیں۔ یہ ایک اجتماعی ذمہ داری کی حیثیت رکھتی ہے۔

پُرامن الیکشن کے شراکت داروں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں سمیت سیاسی جماعتیں، میڈیا، سول سوسائٹی کی تنطیمیں اورعدلیہ کے حکام بھی شامل ہیں۔

جمہوریت اور امن و امان کی نگرانی، ایک دوسرے سے باہم ربط رکھتے ہیں۔ پولیس کی غیر جانبداری جمہوریت کو مستحکم بناسکتی ہے، نیز ایک حقیقی جمہوریت پولیس فورس کو پیشہ ورانہ خطوط پر استوار کرنے کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر رکھتی ہے۔


مضمون نگار ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس ہیں۔

[email protected]

ترجمہ: مختار آزاد

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں