السٹریشن — خدا بخش ابڑو –.

’’ایک جیتا ھوا انقلاب یا کامیاب تختہ الٹنا بین الاقوامی طور پہ آئین تبدیل کرنے کا تسلیم شدہ قانونی طریقہ ہے۔ ایک کامیاب فوجی انقلاب ازخود ایک نیا نظامِ قانون ہوتا ہے، جج اور عدالتیں اس قانون کے پابند ہوتے ہیں لہٰذا اس کے خلاف عدالت کسی رٹ کی سماعت نہیں کر سکتی۔‘‘

یہ جسٹس منیر کے وہ تاریخی الفاظ تھے، جس کو انہوں نے مولوی تمیز الدیں کیس میں اپنے تفصیلی فیصلے کا حصہ بنا کر گویا وردی پوش بٹالین کے لیئے ایوانِ اقتدار تک اسقبالیہ کا سرخ قالین بچھا دیا۔ جس کے بعد وردی کو سلیوٹ کرنا، ہماری ریاستی تاریخ کا یوں حصہ بنا ھے کے آج سویلین ڈریس میں ابھی تک اکڑے ہوئے ریٹائرڈ جنرل کو اپنی میڈیا اسکرین پہ ملک کی سینکڑوں گنہگار سویلین آنکھوں نے جدید اسلحہ سے مسلح ریاستی سیکیورٹی افراد کے حفاطتی گھیرے سے گاڑی تک پہنچتے دیکھا مگر اس کے برعکس میڈیا اسے فرار ہونا قرار دیتی رہا جبکہ یہ بھی سب کو معلوم ہے کے ان کے گرد گھیرا ڈال کر حفاطت پہ مامور سپاہی امریکی بلیک واٹر کے نہیں اپنی ہی فوج کو سلیوٹ کرنے والے اور وہیں سے تنخواہ پانے والے ہیں۔

یہ دوسرا کیس تھا جس میں منصفِ اعلیٰ نے اپنے فیصلے میں مسلحہِ افراد کو اقتدار پہ قبضہ گیری کے لئے خفیہ راہداری دکھائی اور اقتدارِ اعلیٰ پہ براجمان ہونے کے لئیے ٹرپل ون برگیڈ کو داخلے کے لیئے ’کھل جا سم سم‘ کا اسمِ اعظم بھی یوں عطا فرمایا کہ؛

’’وہ واحد بنیاد جس پر غیر قانونی امور کو قانونی قرار دیا جا سکتا ہے وہ ضرورتِ حالات ہے۔ گورنر جنرل نے ایک فوری تباہی کو روکنے کے لیئے ریاست اور معاشرے کو سقوط ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔‘‘

یہ یاد دلانا بھی پرانے زخم کھرچنے کے برابر ہے کے اس فیصلے کے خالق جسٹس منیر اے کیانی کی ترقی بھی عدالت کے بنیادی محکماتی اصولوں کی پامالی سے ممکن ہوئی تھی یعنی کتنے ہی سینئر جج صاحبان کو نظر انداز کر کے انھیں سپریم کورٹ کا جج بنایا گیا تھا اور اسی ناجائز ترقی کے احسان کا بدلہ جسٹس کیانی نے نظریہِ ضرورت کی صورت میں یوں ادا کیا کہ اب کسی وقت بھی اسکے استعمال کا ڈر ڈراؤنے خواب کی طرح قوم کے حواسوں پہ سوار رہتا ہے۔

شاید وہ کوئی ضمیر کی خلش تھی یا احساسِ جرم کی شدت کہ بلآخر موصوف نے 22 اپریل 1960 میں لاہور ھائی کورٹ سے خطاب میں اقرار کر ہی ڈالا کہ مولوی تمیزالدین کیس کا فیصلہ لکھتے وقت ان کو بڑی تکلیف ھوئی۔

اب کیا یاد دلانا کہ ان غازیوں اور عدالتوں کا بہت پرانہ یارانہ ہے۔ طاقت کے توازن پہ بات کرنا اس لیئے بھی فضول ہی ٹھرے گا کے ظاھر ہے طاقت اسی کی جس کا توپخانہ ہوگا، اب سپریم کورٹ کے پانچ، آٹھ ججوں کی یہ ہمّت کیونکر ھوگی کہ وہ اس توپخانے سے الجھتے پھریں، سو انہوں نے چکلالہ سے آئے کسی بھی بوٹوں والے سربراہ کو فرشی سلام کرنا فریضہِ ایمان کی طرح نبھایا۔

بارہا یہ موقعہ آتا رہا کہ عوامی اقتدار پہ قبضہ گیری اور معاملات ریاست میں ٹینکوں اور بوٹوں سمیت گھس آنے کی روایت کو ایک قابلِ دید سزا کے ساتھ بند کیا جائے مگر بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنے کی ھمت نہ عدلیہ نے کی اور نہ ھی یہ ھمت کسی سیاستدان میں آئیَ.

سقوطِ ڈھاکہ کے بعد حمودالرحمان کمیشن کا قیام کا سہرا بھی البتہ اس وقت کے سویلین صدر کے سر جاتا ھے اور یہ کمیشن کی رپورٹ تھی جس میں بوٹوں کی حکمرانی کی اپنے شعبہ میں مہارت سمیت انکی سیاسی و اخلاقی گراوٹ کا وہ احوال پایا جاتا ہے جس کو شرم کے مارے کئی دہائیوں تک قوم سے چھپایا گیا۔ بہتر ہوتا کہ اس وقت کمیشن میں نامزد چھ ٹاپ براس کے جرنیلوں بنام جنرل یحیٰ خان،جنرل عبدالحمید خان، لیفتینٹ جنرل پیرزادہ، لیفتینٹ جنرل گل حسن، میجر جنرل عمر اور میجر جنرل مٹھا کے خلاف کاروائی کی سفارش پر سر خم کیا جاتا کہ انہوں نے خلاف قانون و آئین اپنے رنگیلے جنرل یحیٰ خان کو سازش سے پاور میں لانے کے لئے ایک طرف ایوب خان کے خالف سازشیں کیں اور دوسری جانب سیاسی پارٹیوں کو ڈرانے دھمکانے اور للچانے کا کام کیا۔

1970 کے الیکشن میں اپنے من پسند نتائج کے حصول کے ساتھ وہ منتخب نمائندگان کو ڈھاکہ اسمبلی اجلاس میں جانے سے روکنے کے لیے بھی یہی حربے استعمال کرتے رہے۔

حمودالرحمان کمیشن نے مندرجہ بالا جنریلوں کے علاوہ بھی بشمول جنرل نیازی دیگر فوجی افسران پہ عائد ذمّہ داری سے ہٹ کر بہت ایسے غیر ٓاخلاقی و غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث پائے جانے پہ کورٹ مارشل کی تجویز دی گئی۔

مگر پھر ہم نے حمود الرحمان کمیشن قائم کرنے والے سیویلین صدر کو تختہِ دار پہ چڑھتے دیکھا اور باقی جرنیلوں کے سفرِ آخرت کو 20 توپوں کی سلامی کے فوجی اعزاز کے ساتھ دنیا سے رخصت ھوتے بھی دیکھا۔

سندھی میں کہتے ھیں کہ گندا کام ہمیشہ ڈھیڈ سے کرایا جاتا ہے اور یوں سیویلین صدر کو تارا مسیح کے حوالے کرنے کا کام ھماری عدالتِ عالیہ نے ڈھیڈ کی طرح سر انجام دیا۔

حمودالرحمان کمیشن پہ عمل درآمد نہ کرانے کا اثر فوجی حکومتوں میں ڈھیڈ کا کام کرنے والی اس عدالت عظمیٰ پہ یوں بھی پڑا کہ جب جنرل ضیا کے حکم پر ٹرپل ون برگیڈ عوامی منتخب کردہ وزیرِ اعظم کے گھر کی دیوار پھلانگنے کے بعد جب جنرل ضیا اس وقت کے وفاقیِ سیکرٹریِ قانون جسٹس عبدالحئی کو ساتھ لئے اس وقت کے چیف جسٹس سے ملاقات کے لئے گئے تو موصوف نے نہ صرف چائے پانی سے انکی خاطر مدارت کی بلکہ کہنے والے کہتے ہیں کہ مارشل لا کو جاری و ساری رکھنے کے لئے بارہ تیرہ صفحوں کے آئین کو ٹشو پیپر کی سی حیثیت دینے کی ترغیب بھی ھمارے ماڈل ڈکٹیٹر کو وہاں سے ہی ملی۔

جسٹس انوار الحق نے جسٹس منیر کیانی کے فلسفے کو نصرت بھٹو کیس میں یوں زبان دی؛

’’عدالت واشگاف الفاظ میں بیان کرتی ہے کہ وہ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے اقدام کو جائز قرار دیتی ہے۔ اور یہ صرف اس وجہ سے نہیں کہ اس نے گمبھیر ماورائے آئین قسم کے قومی و آئینی بحران کے موقع پہ ملک کو بچایا بلکہ اس کی طرف سے ایک سنجیدہ وعدہ بھی کیا گیا کہ آئینی تعطل کو جتنا جلد ممکن ہوا ختم کردیا جائے گا۔‘‘ اور پھر ھم نے یہ بھی دیکھا کہ فوجی حکمرانوں کو آئینی تعطل کو ختم کرنے کی کبھی بھی جلدی نہیں رہی۔

اس لئے لے دے کر یہ کام ڈرٹی سیویلین کے ھی سر ٹھہرا کہ وہ آئین و قانون کی بالادستی کے کیئے لیے اور کچھ نہیں تو عدل کی زنجیرِ جہانگیری ہلاتے ضرور رہتے۔ مگر مجال ھے کہ وردی پوش پہ کوئی چھینٹا بھی پڑے۔

بات یہاں تک پہنچی ہے تو یاداشت کا تھوڑا سا امتحان یوں بھی لیتے چلیں کہ اکتوبر میں فضائی سرحدوں میں چیف ایگزیکیٹو بن جانے والے باوردی جنرل کی آمد کی مرحبا اسی موجودہ چیف جسٹس نے کس طرح کی ھوگی۔ صاحب ظفر علی شاہ کیس میں اپنے فیصلے میں عدلیہ کے موقف کی یوں لب کشائی کی؛

’’12 اکتوبر 1999 کو جو صورتحال تھی 1973 کا آئین اس کا کوئی حل پیش نہیں کرتا اس لئے مسلح افواج کا ماورائے آئین اقدام ناگریز تھا۔‘‘ پھر یہ بھی اپنا جوتا اپنے سر پر مارنا ھوگا کہ باوردی مشرف کے ریفرنڈم فراڈ کو بھی موصوف نے ہی آئینی تحفظ فراہم کیا اور ایمرجنسی کے خلاف اپنے آخری فیصلے مین بھی 12 اکتوبر کے کامیاب فوجی انقلاب کو عدالتی تاریخ مین من و عن نظریہ ضرورت کے غلاف میں ڈھکا رھنے دیا۔

سدا ڈھیڈ کا سا کام کرنے والی عدلیہ کی اس ادا کا کیا کہنا کہ جب سے آزاد ہوئی ہے سیویلین کا سر ھی ان کے لئے آسان نشانہ ٹھہرا ھے۔ آپ عدالت عالیہ کے فیصلوں سے انحراف نہیں کر سکتے ورنہ ایک ہتھکڑی آپ کی منتظر ھو سکتی ھے مگر گواہ رہیے گا کہ وہ جو آپ کے ہمارے ووٹ سے منتخب وزیرِ اعظم کے لیے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں لیے اسی عدالت کے ایوان میں کھڑے تھے، کل انہوں نے عدالت کے فیصلے کے باوجود انہی ھاتھوں سے بنا وردی کے جنرل کو بھی بجا کے سلیوٹ مارے۔

جناب! مشرّف کا ایوانِ عدالت سے یوں سرکاری پروٹوکول میں واپس جانا عدالت کی نہیں، آپ کی، ھماری توہین ھے! چنے ہوئے وزیرِ اعظم کو گھر بھیجنے والی آزاد عدلیہ سے بس اب کچھ اور نہیں غاصب جنرل کے ھاتھوں ھونے والی اپنی ھتک کا حساب چاہتے ہیں تو کیا یہ مطالبہ غلط اور ماورائے آئیں ھوگا؟


amar sindhu80   امرسندھو ایک لکھاری، ایکٹوسٹ اور کالمنسٹ ہیں اور ہمارے سماج میں ابھی تک ان فٹ ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

مختیار لاشاری Apr 19, 2013 11:54am
امر سندھو ایک سماجی کارکن ہے جو ھمیشہ انسانی حقوق کے لیے آواز بلند کی اور اپنے قلم کا بھی سہارا لیا ایسے معاشرے میں امر سندھو ان فٹ نہیں ہوتی بلکہ معاشرہ ان فٹ ہے. اس کالم میں لیکھکہ نے تاریخی حقیقت پیش کی ہے . اور یہ بھی حقیقت ہے ہمارے ملک میں کبھی بھی حقیقی جمھوریت نہیں رہی ، جو رہی ہے وہ ھمیشہ اسٹبلشمینٹ کے ذیرے سایہ رہی ہے ، جہاں تک عدلیہ کے ایکٹو ہونے کی بات اس نے مشرف کو گرفتاری حکم دے کر ایک قدم بڑھایہ ہے مگر قدم رکے ہوئے ہیں تو وہ انتظامیہ کے اگر اس معاملے میں خاموشی اختیار کی ہوئی ہے تو وہ سیاستدانوں نے مگر ضرورت ہے سیاستدانوں کے مضبوط فیصلوں کی جن سے چھپی ہوئی طاقتوں کی غیر ضروری مداخلتوں کو فل اسٹاپ لگ جائے.
turky Apr 20, 2013 06:01pm
Amar SINDHU you are bewildred woman and havs not values. An agent of socalled judicial activism. shame on you by writing against PAK ARMY OFFICER.