تبدیلی کا چیلنج

شائع May 11, 2013

فائل فوٹو --.
فائل فوٹو --.

کہا جاتا ہے کہ انتخابات جمہوریت کی ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہوتے ہیں لہذا شفاف اور منصفانہ انتخابات ہوں تو جمہوریت کا قد بلند ہوتا ہے۔ اس دفعہ پاکستان کی تاریخ میں نویں بار عام انتخابات منعقد ہوں گے۔ 1970 میں پہلی دفعہ عام انتخابات کا انعقاد بالغ رائے دہی (Adult Franchise) کے اصول پر ہوا تھا۔

یہ مرحلہ اس لحاظ سے تاریخ ساز ہے کہ اس بار کسی آمر کا سایہء مطلق انتخابات پر حاوی نہیں اور الیکشن کمیشن بہت حد تک خود مختار ہے۔

ان انتخابات میں قومی اسمبلی کی دو سو بہتر (272) اور صوبائی اسمبلیوں کی پانچ سو ستتر (577) نشستوں پر مختلف سیاسی جماعتوں کے مابین ٹاکرا ہو گا۔

گزشتہ ایک ماہ کے دوران سیاسی سرگرمیاں عروج کو پہنچ گئیں اور عوام تک پہنچنے کے لیے ہر طرح کے جتن کیے گئے۔ جلسے جلوس صوبہ پنجاب کی حد تک محدود رہے کیونکہ دوسرے صوبوں میں تحریک طالبان نے قتل و غارت گری کا بازار گرم کیے رکھا۔

ان انتخابات کو ہماری تاریخ کے خونی ترین انتخابات کا نام بھی دیا جا رہا ہے جو کہ ایک حقیقت ہے۔ مختلف دھماکوں اور حملوں میں عوامی نیشنل پارٹی سینکڑوں کارکن کھو چکی ہے جبکہ کراچی اور خیبر پختونخواہ میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے کارکنان کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔

چند مبصرین کے خیال میں اس بار انتخابات میں براہ راست نہیں بلکہ بالواسطہ انداز میں دھاندلی کی جا رہی ہے۔ کچھ احباب کے خیال میں الیکشن کمیشنر فخرو بھائی نہیں بلکہ حکیم اللہ محسود ہے۔

انتخابی مہم کے دوران پیش آنے والے چند واقعات پر نظر دوڑانی ضروری ہے؛

ن لیگ کے سربراہ کے طیارے کی ونڈ شیلڈ کو دوران پرواز نقصان پہنچا اور وہ کسی حادثے کا شکار ہونے سے بال بال بچ گئے۔

کچھ ہی روز بعد جب سونامی پارٹی کے سربراہ لاہور میں ایک حادثے کا شکار بنے تو گویا قیامت ہی برپا ہو گئی۔ جناب کو پہلے سرکاری اور پھر پرائیوٹ ہسپتال پہنچایا گیا۔ راقم سمیت تمام ملک کے لوگوں نے انکی خیریت کی دعا کی۔

دو روز بعد ملتان سے سابق وزیر اعظم کے بیٹے کو اغوا کر لیا گیا۔

پہلے اور تیسرے واقعات پر نہ صرف میڈیا نے جانب داری کا مظاہرہ کیا بلکہ سوشل میڈیا پر بھی مقدور بھر ہی اہمیت دی گئی۔

سیاست صرف کسی ایک جماعت سے جانثارانہ وابستگی کا نام نہیں بلکہ دوسری جماعتوں اور انکے کارکنوں کا احترام کرنے کا بھی نام ہے۔

یہ بات ذہن نشین کرنی چاہیے کہ صرف آپ ہی حق کے اکیلے علم بردار نہیں، معاشرے میں موجود دوسرے لوگوں کو بھی جماعتوں کے انتخاب کا اتنا ہی حق حاصل ہے جتنا آپ کو۔

ابھی یہ سب تماشا چل ہی رہا تھا کہ مذہبی جماعتوں نے حسب معمول اپنی ٹانگ اڑائی۔ جمعت علمائے اسلام کے سربراہ نے اپنی جماعت کے علاوہ کسی کو ووٹ ڈالنے کے خلاف فتوی صادر کیا۔ دوسری جانب جماعت اسلامی کے سربراہ نے فرمایا کہ یہ ملک لبرل لوگوں کے لیے نہیں بنا۔ اب کوئی معقول انسان ان افراد سے کیا بحث کرے؟

الیکشن کمیشن نے بھی عجب حکم جاری کیا کہ مذہب کے نام پر ووٹ نہ مانگے جائیں۔ تو بھائی یہ جماعتیں اور جمیعتیں آخر کس کے نام پر ووٹ مانگیں؟

خواتین کے حقوق کے نام پر یا زرعی اصلاحات کے نام پر؟ ان جماعتوں کا تو مدار ومہام ہی مذہب یا فرقے کی بنا پر سیاست کرنا ہے، آخری عمر میں مومن کیا خاک مسلماں ہوں گے؟

انتخابات سے متعلق سینکڑوں تبصرے ہو چکے ہیں اور ان میں سے بیشتر ہم سے زیادہ علمیت کے حامل افراد نے کیے ہیں، لیکن ایک اہم سوال جس کا جواب ہمارے ملک اور اسکی سا لمیت سے متعلق ہے، بہت کم پوچھا جا رہا ہے۔ سوال صرف اتنا کہ یہ جو تحریک طالبان والے بھائی ہیں، ان کا کیا علاج کیا جائے؟

’تبدیلی‘ کے متوالوں سے ہماری تاریخ کے ادنی طالب علم کی حیثیت سے یہ گزارش ہے کہ خدارا تاریخ کا مطالعہ کریں، تبدیلی صرف ایک انتخاب یا ایک جماعت کے مرہون منت نہیں ہوتی بلکہ یہ ایک مشکل امر ہوتا ہے اور اس کے لیے استقامت کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ صرف تبدیلی کی خواہش رکھنے اور چہروں کی تبدیلی کا ارادہ کرنے سے تبدیلی آ نہیں جاتی، اس کے لیے دن رات ایک کرنا پڑتا ہے، اگر یقین نہیں آتا تو جاپانیوں یا جرمنوں سے پوچھ لیں۔

بہت ہو گئی اِدھر اْدھر کی باتیں، میں تو چلا ووٹ ڈالنے، آپ بھی باہر نکلیں اور یہ قادری جیسوں کی باتوں میں مت آئیں، خدا آپ کا حامی و ناصر ہو۔


majeed abid 80عبدالمجید کا تعلق سیالکوٹ سے ہے اور انہیں تاریخ، سیاست اور معاشیات کے مضامین میں دلچسپی ہے۔

عبدالمجید عابد

لکھاری میڈیکل کے طالب علم ہیں اس کے ساتھ تاریخ، سیاسی معیشت اور ادب میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
ان کے بلاگز یہاں پڑھیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: abdulmajeedabid@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

A. wahab May 11, 2013 06:17pm
i agree

کارٹون

کارٹون : 8 جولائی 2025
کارٹون : 6 جولائی 2025