!نگرانوں کے کارنامے
نگراں حکمرانوں کا معاملہ تو ایسا ہے کہ کسی بینک نے چوکیداروں کو رکھا خزانے کی حفاظت کے لئے وہی چوکیدار خزانہ لوٹ کر لے گۓ ۔ ہمارے نگراں وزیراعظم گو کہ قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھے ہیں لیکن انہوں نے آخرت کی بجائے دنیا کی عیش و عشرت کو ترجیح دی اور مختصر سے عرصے حکمرانی میں ایسے کام کئے کہ اب سات پشتوں کو فکر نہیں ہوگی۔
یاد رکھئے یہ نگراں حکمران وہ لوگ ہیں جنہیں اٹھارہ کروڑ عوام میں سے سخت جانچ پڑتال کے بعد متقی، پرہیز گار اور ایمانداری جیسی صلاحیتیں رکھنے پر منتخب کیا گیا تھا۔ اپنے انتخاب کے کچھ عرصہ ہی بعد وزیر اعظم صاحب نے اپنے چھوٹے بھائی کو کینڈا سے پاکستان منتقل کروا کر سترہ گریڈ کی سرکاری نوکری عطا کر دی۔ اور یہی نہیں دوسرے ہی دن ترقی دے کر انہیں انیسویں گریڈ کا آفیسر بھی بنا دیا گیا۔ سبحان اللہ! کیا ایمانداری ہے! اٹھارہ کروڑ میں سب سے زیادہ ایماندار آدمی!
چلیں بات یہیں تک رہتی تو بھی قابل قبول تھی۔ لیکن الیکشن کے بعد جب نگرانوں کا ڈبہ گول ہونے والا ہے پاکستان کے تیرہ اہم اداروں کے سربراہوں کی تقرریوں کا اعلان وزیر اعظم ہاؤس سے کر دیا گیا۔ یہ وہ تیرہ ادارے ہیں جنہیں پچھلے حکمرانوں نے بھی خوب نچوڑا ہے۔ لیکن یہ سونے کا انڈہ دینے والی مرغی ابھی بھی زندہ ہے اور ملک کی غریب نوکر شاہی اور ان کے سرپرستوں کو کروڑوں روپے کما کر دے سکتی ہے۔
جس دن الیکشن کمشین نے نگران وزیر اعظم کا نام منتخب کیا ان کے آبائی شہر میں جیسے جشن کا سماں ہوگیا، لوگ گھروں سے نکل آئے اور مٹھائی تقسیم ہونے لگی۔ اب ہمیں سمجھ میں آرہا ہے وہ مٹھائی کس خوشی میں تقسیم کی جا رہی تھی۔
کرپشن ہماری قوم کی اب ایسی صلاحیت بن چکی ہے جو قابل ندامت نہیں قابل فخر چیز ہے۔ ہمارے یہاں شریف آدمی وہ نہیں ہوتا جو کرپشن نہیں کرتا شریف آدمی وہ ہوتا ہے جو کرپشن کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اب ہمارے نگراں حکمراں فخر کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں انہیں خدا نے موقع دیا تو اسے ضائع کر کے نعمت خداوندی سے انکار نہیں کیا بلکہ خود بھی مستفید ہوئے اور اوروں کو بھی مستفید کیا۔
نگراں حکمراں ہم سے یہ سوال بھی کر سکتے ہیں کہ جب ہر حکومت کرپشن کرتی ہے تو وہ کیوں نہ کریں؟
پھر جمہوری حکومت کی طرح انہیں عوام کو جوابدہ تھوڑی ہونا ہے یا پھر نئے الیکشن میں عوام سے انہیں ووٹ چاہیے؟ نگراں حکمرانی تو اس ملک کا سب سے مزیدار کام ہے بہت ہی قلیل عرصے میں آپ بڑے بڑے ہاتھ مار سکتے ہیں۔
ہمارا میڈیا نے بھی نگراں حکمرانوں کی ان حرکتوں پر صرف مسکرانے پر اکتفا کیا ہے جیسے جب کوئی بچہ غیر متوقع طور پر منہ سے کوئی گندہ لفظ نکال دیتا ہے تو لوگ صرف حیرت اور مسکرانے کے کچھ اور نہیں کرتے۔ یا ایسے جب کوئی جوان ہوتا ہوا لڑکا کھانے کے بعد محفل سے اچانک کچھ دیر کے لئے غائب ہو جائے تو آپ کے لبوں پر مسکراہٹ آجاتی ہے کہ بچہ اب بڑا ہو گیا ہے اور سگریٹ پینے لگا۔
ہماری قوم بھی نگراں حکمرانوں کی پرفارمنس پر یہ کہنے پر مجبور ہو گئی ہے "واہ ڑے" یا لوگ مشہور ٹی وی کردار مومو کی طرح بے ساختہ کہہ اٹھتے ہیں "آئی شاباشے"
آخر میں ہم خراج تحسین پیش کرنا چاہتے ہیں پنجاب کے وزیر اعلیٰ جناب نجم سیٹھی صاحب کو جنہوں نے اپنا دامن ہر طرح کی کرپشن اور جانبداری سے بچا کر رکھا اور عوام کی نظروں کے سامنے سرخرو ہو گئے۔ اسی طرح وفاقی وزیر اطلاعات جناب عارف نظامی صاحب نے بھی اپنی غیر جانبداری نہایت ایمانداری سے برقرار رکھی اور سرکاری میڈیا پر سیاسی پارٹیوں اور سیاستدانوں کو کوریج دی۔
خرم عباس ایک ڈرامہ نگار ہیں اور کراچی کی دنیا ان کا خاص موضوع ہے












لائیو ٹی وی