آخر سمجھوتے میں ہے کیا؟

جس بات کو پاکستانی حکام کی جانب سے ایک بڑی سفارتی فتح قرار دے کر گھمایا جا رہا ہے، وہ درحقیقت ایک ہذیمت بھری تنزلی ہے۔ دراصل ہمارے ملکی وقار، بلند وبالا دعووں اور غیرت کو پگھلانے کے لئے ایک مبہم سی معذرت ہی کافی تھی۔
سات مہینوں کے مسلسل مقابلے کے بعد پچھلے ہفتے پاکستان نے افغانستان میں امریکہ اور نیٹو افواج کے لئے رسد کھولنے پر آمادگی ظاہر کر دی اور اس طرح ان دونوں ممالک کے درمیان سردمہری کا خاتمہ ہوا۔
امریکی وزیرخارجہ ہیلری کلینٹن نے اپنی پاکستانی ہم منصب سے فون پر رابطہ کیا اور پہلے سے تحریر شدہ ایک بیان پڑہ دیا جس میں کہا گیا تھا کہ:
"ہمیں افسوس ہے اس نقصان پر جس کا سامنا افواج پاکستان کو کرنا پڑا۔"
اور ان کے اس بیان کے چند گھنٹوں بعد نیٹو رسد کے ٹرک حرکت میں آگئے۔
مس کلنٹن نے ناصرف لفظ "معافی" بولنے سے گریز کیا، جسکے لئے پاکستان اپنے چوبیس سپاہیوں کی نومبر میں امریکی فضائی حملوں کے نتیجے میں ہلاکتوں کے سلسلے میں متمنی تھا، بلکہ وہ اس امریکی موقف پہ بھی مصر رہیں کہ یہ حادثہ دونوں جانب سے کی جانے والی غلطیوں کا نتیجہ ہے۔
اطلاعات کے مطابق پاکستانی وزیرخارجہ نے امریکی موقف کی حمایت کی جو کہ پاک افواج کی تفتیشی کمیٹی کی اس رپورٹ کی نفی کرتا ہے جس کے مطابق سلالہ پوسٹ پہ حملہ جانتے بوجھتے کیا گیا تھا۔
یاد رہے کہ حملے کا یہ تنازعاتی پہلو اس پاکستانی فیصلے کا محرک تھا جس کے تحت نیٹو رسد کے راستے بند کر دئے گئے تھے اور واشنگٹن کے ساتھہ تعلقات پر نظر ثانی شروع کر دی گئی تھی۔
کیا ہم اپنی ہی مرتب کر دہ رپورٹ مسترد کر چکے ہیں؟ اگر ہاں، تو کیا ہمیں اپنی اس غلطی کا اعلان نہیں کر دینا چاہیے؟ اور ہلاک ہونے والے سپاہیوں کے خاندانوں سے معافی نہیں مانگ لینی چاہیے؟ حملے کے بعد ہمارے ردعمل پر بھی سوالات جنم لے رہے ہیں۔
بلا شبھ، وزیر خزانہ حفیظ شیخ اور امریکی انڈر سیکریٹری تھامس نائیڈس کے درمیان ہفتوں پردے کے پیچھے ہونے والے مزاکرات کے بعد یہ امریکی بیان سامنے آیا ہے۔ یہ دونوں حکام، فوجی قیادت کی جانب سے جو کہ کابینہ کی دفاعی کمیٹی میں بھی موجود ہیں، منظور کئے گئے تھے۔
دراصل مئی میں شکاگو میں ہونے والی صدر ذرداری اور ہیلری کلنٹن کی ملاقات کے دوران ان دونوں حکام کے ناموں کی منظوری دی گئی تھی اور یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ وہ نیٹو رسد بحالی کے لئے ایک سمجھوتہ مرتب کریں۔ اس کے بعد کے آٹھہ ہفتوں تک ان دونوں حضرات نے ایک مصالحتی سمجھوتے پر کام کیا تاکہ اس انتہائی پیچیدہ معاملےکا حل نکالا جا سکے۔
صرف انتہائی اعلیٰ قیادت بشمول صدر، وزیراعظم اور آرمی چیف ہی کو اس معاملے سےآگاہ رکھا گیا۔ اس تمام تر محنت کے باوجود جو اس معاملے میں کی گئی، دراصل امریکی بیان میں ایسا کچھہ بھی نہیں ہے جس سے کسی بڑی ڈرامائی تبدیلی کی امید رکھی جاسکے۔
یہ اسلام آباد کی جانب سے بمشکل حسب سابق حالات پہ رضامندی ہے جو کہ واشنگٹن کی پاکستان پہ کی جانے والی سختی کے نتییجے میں سامنے آئی ہے۔
پاکستانی حکومت اس سمجھوتے کو جلد از جلد نبٹانے کے سلسلے میں اتنی شوقین نظر آئی کہ امریکی وزیرخارجہ کو رسد بحالی کے بارے میں ڈی سی سی اور کابینہ اجلاس سے بھی پہلے ہی مطلع کر دیا گیا۔
امریکی صدارتی انتخابات سر پر ہونے کی وجہ سےاس بات کی دور دور تک کوئی امید نہیں تھی کہ اوبامہ انتظامیہ اس معذرت والے معاملے سے اپنا کوئی تعلق رکھے گی۔
اس کے بجائے واشنگٹن میں پاکستان کے لئے حالات ذیادہ مخالفانہ ہوگئےہیں اور امداد بند کرنے کی بازگشت بھی زور پکڑ چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وائٹ ہاوس نے بھی اپنے موقف میں سختی پیدا کر لی ہے۔
فروری میں امریکہ معافی مانگنے سے خاصہ قریب آگیا تھا جب مس کلنٹن کی وزیرخارجہ حناربانی کھر سے لندن میں ملاقات متوقع تھی۔ اس وقت بلاشبہ وائٹ ہاوس کے موقف میں نرمی دیکھی جا سکتی تھی مگراس وقت پاکستانی حکومت نے واشنگٹن کو پارلیمانی پالیسی پہ نظرثانی مکمل ہو جانے تک رک جانے کا مشورہ دے دیا تھا۔
اسکے بعد دونوں ممالک کے دوطرفہ تعلقات پر نظرثانی پہ پارلیمانی بحث میں کئی مہینے ضائع ہوگئے۔ اور پینتیس نکاتی پارلیمانی تجاویز نےاس سلسلے کو طویل اور مذاکراتی عمل کو مذید پیچیدہ بنا دیا۔
اور پھر جب حقانی گروپ کی جانب سے اپریل میں کابل میں ہونے والے فوجی حملے کے بعد، جسے امریکی حکام نے آئی ایس آئی اور پاکستانی افواج کی سرپرستی کا الزام لگایا، تو معافی منگوانے کا ایک اور سنہری موقع ہاتھہ سے نکل گیا اور اوبامہ انتظامیہ نے معافی مانگنے کا ارادہ ترک کر دیا۔
درحقیقت پاکستان نے ازخود اپنے آپ کو ایک بند گلی میں قید کر لیا جہاں سے شراکت داری کے نئے قوانین پہ مذاکرات کرنا اور بھی دشوار ہوگیا۔
عوامی اور فوجی قیادت بےبسی کی تصویر بنی سی آئی اے کے ڈرون حملے دیکھتی رہی جو پاکستانی سرزمین پر اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لئے کئے گئے پارلیمانی قرارداد کو روند کر کئے جا رہے تھے۔
اس اہم دوطرفہ تعلقات کے حوالے سے ایک دو رس حکمت عملی مرتب کرنے کے بجائے پاکستانی حکام نے مذاکرات کے شروعاتی دور میں پاکستان کے اندر سے رسد گزارنے کے لئے ذیادہ سے ذیادہ منتقلی فیس حاصل کرنے پر توجہ مرکوز رکھی۔ اس کے نتیجے میں ناصرف امریکہ بلکہ دوسرے نیٹو ممالک کی جانب سے بھی سخت ردعمل سامنے آیا۔
اور اس غیراخلاقی دولت بٹورنے والی حکمت عملی نے دوسرے اہم معاملات پر سے توجہ ہٹا کر باہمی تعلقات مزید بگاڑ دئے۔
رسد منتقلی کی ذیادہ فیس کا مطالبہ سمجھوتے کے حصے کے طور پر چھوڑ تو دیا گیا مگراس کے باعث جو نقصان پہنچنا تھا پہنچ چکا تھا۔
اسی طرح، معافی ضروری تو تھی مگر یہ وہ واحد معاملہ نہیں تھا جو دونوں ممالک کے درمیان جمود توڑنے کے لئے اہم تھا۔
سلالہ حملہ محرک نہیں تھا بلکہ ایک مہلک مسئلے کی علامت تھا جس کے باعث دوطرفہ تعلقات میں مکمل رکاوٹ حائل ہوگئی۔
جہاں اوبامہ انتظامیہ کی تشدد آمیز پالیسی شاید اس اجنبیت کی ایک اہم وجہ تھی، وہیں پر پاکستانی عوامی اور فوجی قیادت کا غلط حساب کتاب، صحیح سمت میں ایک واضح پالیسی کی کمی اور شمالی وزیرستان میں حقانی گروپ کے خلاف کاروائی کرنے میں ہچکچاہٹ نے بھی اس بڑھتے ہوئے عدم اعتماد کو فروغ دیا۔
رسد کے راستوں کی بحالی سے دوطرفہ تعلقات میں شاید بہتری تو ضرور آئے گی مگر واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان تناو کے سب سے اہم محرکات اب بھی باقی ہیں۔
سمجھوتے کے چند روز کے اندر ہی شمالی وزیرستان میں ڈرون حملوں کے نتیجے میں ہونے والی تقریبا دو درجن اموات لوگوں کے پاکستانی حکام کے اوپر بھروسے کو مذید کم کرتا ہےجو یہ کہتے ہیں کہ دونوں ممالک کے تعلقات بہتری کی جانب گامزن ہیں۔
بہتر تعلقات اس وقت تک استوار نہیں ہو سکتے جب تک اہم پالیسی اختلافات پر قابو نہیں پالیا جا تا۔
زاہد حسین صحافی اور ادیب ہیں