اسلام آباد: میرٹ کے معاملے میں پڑے بغیر سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کی جذباتی اپیل پر محتاط انداز میں توجہ دی، جس میں انہوں نے پنجاب کے کم ازکم چار انتخابی حلقوں میں ووٹروں کے انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق کا مطالبہ کیا تھا۔

عدالت نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو حکم دیا کہ وہ دو انتخابی ٹریبیونلز سے رپورٹ طلب کرے کہ اس نے کمیشن کی ہدایت پر مقررہ وقت میں فیصلے کیوں نہیں کیے۔

قومی اسمبلی کے یہ انتخابی حلقے جہاں کی رپورٹ طلب کی گئی ہے، ان میں سے ایک این اے-125 لاہور کا ہے، جہاں سے ریلوے کے وزیر خواجہ سعد رفیق نے کامیابی حاصل کی تھی، دوسرا این اے-154 لودھراں کا ہے، جہاں سے صادق خان بلوچ جیتے تھے۔ یہ دونوں پاکستان مسلم لیگ نون کے سرگرم رہنما ہیں۔

عمران خان کا فوری ردّعمل تھا ”زبردست“، جنہوں نے اپنی پارٹی کے دیگر رہنماؤں کے ساتھ عدالتی کارروائی میں شرکت کی اور عدالت کی اجازت سے مختصر خطاب بھی کیا، اگرچہ اس مقدمے میں پی ٹی آئی کے نائب صدر ایڈوکیٹ حامد خان کی جانب سے دلائل دیے گئے تھے۔

چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی، جسٹس عامر ہانی مسلم اور جسٹس اعجاز افضل خان پر مشتمل تین ججز کے بینچ نے پی ٹی آئی کے ایڈیشنل سیکریٹری سیف اللہ نیازی کی متفرق درخواستوں پر یہ معاملہ اُٹھایا تھا۔

سیف اللہ نیازی نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ وہ چار انتخابی حلقوں بشمول این اے-110 سیالکوٹ جہاں سے وزیرِ دفاع اور پانی وبجلی کے وفاقی وزیر خواجہ محمد آصف منتخب ہوئے تھے اور این اے-122 لاہور جہاں سے قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق نے انتخاب جیتا تھا، میں دوبارہ گنتی اور انگھوٹے کے نشانات کی جانچ کے احکامات جاری کرے۔

الیکشن کمیشن کے سیکریٹری نے الیکشن ٹریبیونلز سے رپورٹ طلب کی اور کہا کہ پندرہ دن کے اندر اندر پٹیشن کے ہر پیراگراف پر تبصرے کرکے جمع کرائے جائیں۔

ایڈوکیٹ حامد خان نے افسوس کا اظہار کیا کہ ایک سو بیس دن میں انگوٹھے کے نشانات کی جانچ کے حوالے سے الیکشن کمیشن کی جانب سے واضح ہدایات کے باوجود یہ معاملہ تاحال التوا کا شکار ہے۔

عمران خان نے گیارہ مئی کے الیکشن کو ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ دھاندلی والے انتخابات قراردیا، اور کہا کہ ان کی پارٹی کی یہ اپیل بنیادی حقوق کی خلاف ورزی سے متعلق ہے، اس لیے کہ بیلٹ کی حرمت کو انتخابات میں بڑے پیمانے پر پامال کیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اعلٰی عدالتوں نے کم از کم چار انتخابی حلقوں میں دھاندلی کا نوٹس لیا ہے، اس طرح اگلے عام انتخابات کے منصفانہ، شفاف اور آزاد بنیادوں پر انعقاد میں مدد ملے گی۔ دوسری صورت میں اس بات کا فیصلہ کرنے میں الیکشن ٹریبیونلز کو تقریباً چار سال لگ جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ”یہ کسی ایک پارٹی کا مخصوص مقدمہ نہیں ہے، یہ جمہوریت کے مستقبل اور آئندہ نسلوں کا سوال ہے۔“

تاہم چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت اس مرحلے پر اس مقدمے کے میرٹ پر تبصرہ نہیں کرسکتی، اور یہ بھی کہا کہ سپریم کورٹ ایک مثالی عدالت تھی۔ ”اگر ہم اس مقدمے کی اجازت دیتے ہیں تو خیبر سے لے کر کراچی تک دیگر معاملات بھی عدالت کے سامنے آئیں گے۔“ چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا ہوگا، جب ہم اس کو روک دیں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں