منافقت کے کھیل
غصّے کی حالت میں منہ سے جھاگ اڑاتے ہوئے ان کا مطالبہ ہے کہ مشرف اپنی غداری کے عمل کی پاداش میں ایک مثال بنادئے جائیں- وہ جمہوریت کی خوبیوں اور فوجی آمریت کی خرابیوں پر لمبے وعظ دیتے ہیں- کیا کوئی ان سے اختلاف کر سکتا ہے؟ بالکل نہیں- یقیناً بوناپارٹزم کے نظریے کا بھوت ہمیشہ کیلئے دفن کردینا چاہئے تاکہ اس پاک سرزمین میں جمہوریت محفوظ رہ سکے-
لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ جو لوگ اس بدنام سابقہ فوجی حکمران کے سر کا مطالبہ ٹی وی ٹاک شوز اور اخباری بیانات میں اتنی تندہی سے کررہے ہیں ان کے چہرے بے حد شناسا ہیں، ماضی میں مختلف فوجی حکمرانوں کا ساتھ دینے کے حوالے سے-
ان جانبازوں کی فہرست کافی لمبی ہے جس میں ہر نوع کے سیاست دان، ریٹائرڈ جنرل، حکومت کے ریٹائرڈ اعلیٰ عہدیداران، اور کسی سے پیچھے نہ رہنے والے ٹی وی کے میزبان اور دائیں بازو کے اخباروں کے کالم نگار شامل ہیں-
غداری، وہ چیختے ہوئے کہتے ہیں، کی سزا بہت ضروری ہے- مشرف، جو اکیلا گنہگار تھا، اسے اس کی سزا ضرور ملنی چاہئے- اس کے اس جرم میں ملوث ساتھیوں کا کیا ہوگا؟ نہیں کوئی اس کا ساتھی نہیں تھا، اس نے یہ جرم اکیلے کیا تھا-
زیادہ پرانی بات نہیں ہے، کیا ہمارے پاس ایک دوسرا فوجی آمر نہیں تھا جس کا نام ضیاءالحق تھا اور جس نے ایک منتخب وزیراعظم کو پھانسی دی تھی؟
ایک حقارت آمیز خاموشی چھائی ہوئی ہے- جنرل ضیاء ایک دیندار شخص تھے جنہوں نے اسلام کی سربلندی کے لئے کام کیا، کچھ لوگ کہینگے- مشرف ایک غدار تھا جو امریکہ کے ہاتھوں بک گیا تھا اور جہاد کے نام کو بدنام کیا-
لیکن کیا ضیاء نے بھی "کافر" امریکیوں کا ساتھ نہیں دیا تھا؟
وہ ایک 'مقدس' مقصد کیلئے تھا! جواب ملتا ہے-
اس کھیل کا نام 'منافقت' ہے جس میں ہر شخص مشکل میں پڑے شخص کے خلاف اپنا چاقو تیز کررہا ہے- اور یہ کیا تماشا ہے کہ آمریت کی یہ اولادیں جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کی چیمپئن بنی ہوئی ہیں، اور اپنے اپنے گناہوں کو دھونے کی کوشش کررہی ہیں-
ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل حمید گل کو کیسے کوئی بھول سکتا ہے جو جمہوریت اور انصاف کی خوبیوں پر وعظ دیتے نہیں تھکتے؟ آج کل تقریباً ہر چینل پر موجود ہوتے ہیں- یہ وہی سابق آئی ایس آئی کے چیف ہیں جو اپنے دور میں سیاسی جوڑ توڑ کیلئے بدنام تھے اور اس وقت مشرف کے اوپر آئین کو توڑنے کا مقدمہ چلانے کے لئے سب سے زیادہ بڑھ چڑھ کر بول رہے ہیں- کیا یہ ایک دلچسپ بات نہیں ہے کہ ضیاء کا ایک وفادار دستور اور آئین کے تقدس کی بات کررہا ہے جس کے مرشد نے آئین کی دھجیاں اڑادی تھیں؟
کیا یہ ایک عجیب سی بات نہیں لگتی کہ یہ ریٹائرڈ جنرل، جو بے شرمی کے ساتھ طالبان کے پاکستانی ریاست کو للکارنے کے عمل اور دہشت گردوں کے ہزاروں معصوم لوگوں کے قتل کی حمایت کرتے ہیں وہ صلہ چاہتے ہیں- ظاہر ہے کہ حمید گل جیسے لوگوں کی غداری کے مقدمے کی حمایت کوئی اصولی موقف پر نہیں ہے اور جمہوریت کے ساتھ محبت پر تو بالکل نہیں؛ ہاں انکا اپنا انحطاط پذیر نظریہ اس کی وجہ ہوسکتا ہے-
وہ لوگ جنہوں نے ضیاءالحق کی آمریت کی حمایت کی وہ حلق پھاڑ کر مشرف کے خون کے پیچھے پڑے ہوئےہیں دراصل ان کے اسلامی دہشت گردوں اور قبائلی علاقے کے باغی عناصر کے خلاف ان کے اقدامات کا بدلہ لینا چاہتے ہیں نہ کہ آئین کی بیخ کنی کی وجہ سے-
پھر ایک دوبارہ جنم لینے والے ڈیموکریٹ ہیں، ایک اعلی بیوروکریٹ جنہوں نے اپنی ریٹائرمنٹ سے پہلے 1980ء کے آخری سالوں میں ایک کے بعد دوسری فوجی حکومتوں میں خدمات انجام دیں-
1993ء میں نوازشریف کی پہلی حکومت کی برطرفی کے موقع پر اس وقت کے صدر کے مشیر کے طور پر ان کا کردار سب کے علم میں ہے- مجھے ان کا بی بی سی کی ایک ڈاکومنٹری میں انٹرویو یاد ہے جو 12 اکتوبر 1999ء کے انقلاب کے چند دنوں کے بعد دیا گیا تھا جس میں انہوں نے فوج کے حکومت پر قبضے کو سراہا تھا-
ہماری نجات فوجی حکومت میں ہے- ان کا پرزور طریقے سے کہنا تھا- لیکن اب وہ اسی انقلاب کے لیڈر کے خلاف مقدمہ چلانے کے سب سے پرجوش وکیل ہیں- دل کا اس طرح سے پلٹنا سیاسی موقع پرستی کہا جائیگا یا اس میں کوئی حقیقت ہے؟
بہت سارے وہ لوگ جو آخر دم تک مشرف کے ساتھ جڑے رہے اس نئے سیاسی نظام میں بہت محفوظ طریقے سے سکونت پذیر ہوگئے ہیں --- ان میں سے کچھ تو حکومت کے ساتھ ہیں بلکہ وفاقی کابینہ کا بھی حصہ ہیں یہ دیکھ کر بےحد حیرت ہوئی کہ ایک ریٹائرڈ جنرل اور مشرف کے ساتھیوں کی اوّلین ٹیم کے ایک اہم ممبر بھی اپنے دوست اور لیڈر کی مذمت کرنے والوں میں آگے آگے ہیں-
ایک وقت میں ملک کے سب سے طاقتور شخص، مشرف اس وقت بالکل تنہا ہیں جنہیں ان کے پرانے ساتھیوں اور پیرؤوں نے بے یار و مددگار چھوڑ دیا ہے- اقتدارکی سیاست کا ایسا کھیل اسلامی جمہوریت میں ہی ممکن ہے-
یقیناً مشرف کو اپنے غیر قانونی اور غیرآئینی اقدامات کا حساب دینا چاہئے- لیکن انصاف غیر جانبدار ہونا چاہئے یہ مقدمہ کسی ایک شخص کے خلاف انتقامی کارروائی نہیں نظر آنا چاہئے-
یہ سیاسی قیادت کے لئے بہت آسان بات تھی کہ اس مقدمے کو 3 نومبر2007ء تک ہی محدود رکھیں- یہ انکے مفاد میں نہیں تھا کہ 12 اکتوبر 1999ء کے اصل گناہ کو مقدمے کا حصہ بناتے-
اس راستے میں بہت سی مشکلات ہیں- عدالت نے اس انقلاب کو جائز قرار دیا تھا اور بعد میں منتخب پارلیمنٹ نے بھی فوجی حکومت کے سارے اقدامات کو قانونی تحفظ دیدیا-
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تقریباً ساری مخالف سیاسی پارٹیوں نے بھی نوازشریف کی حکومت کی برطرفی کو خوش آمدید کہا تھا اور چند ہی مہینوں میں پی ایم ایل-ن کی اکثریت نے فوجی حکومت میں شمولیت اختیار کرلی تھی-
پی ایم ایل- کیو کے جھنڈے تلے یہ منحرف عوامل نئی حکومت کا نیا چہرہ بن گئے تھے اور پانچ سال تک اقتدارمیں شرکت کے مزے لوٹتے رہے- اسمبلی کے قانون سازوں نے مشرف کو یونیفارم میں دوسری مدت کے لئے دوبارہ منتخب کیا- اور ان کے ایمرجنسی کے نفاذ کے فیصلے کی منظوری دی-
اس مقدمے کا کسی نتیجے پر پہنچنا انتہائی غیرمتوقع ہے- لیکن اگر اتفاق سے سابق حکمران کو سزا ہو بھی جاتی ہے تو بھی مستقبل میں کسی طالع آزما کوروکنے کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی ہے جیسا کہ زیادہ تر سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے- ہمیں اس سیاسی کلچر کو بدلنے کی ضرورت ہے جہاں غاصبوں کو خوش آمدید کہا جاتا ہے-
کسی نے حال ہی میں فیس بک پر ضیاءالحق کی ماضی کی ایک پرانی تصویر پوسٹ کی جس میں نوازشریف اور منظور وٹو جو آج کل پی پی پی پنجاب کے صوبائی سربراہ ہیں، ضیاء کے دونوں جانب کھڑے ہیں- یہ تصویر ہماری سیاسی قیادت کے ماضی اور حال کے بارے میں بہت کچھ کہہ دیتی ہے-
ترجمہ: علی مظفر جعفری