!میڈیا آزاد ہے
ڈر اور خوف کے ذریعہ حکومت کرنے کا نام دہشت گردی ہے- دہشت پسند اس کا استعمال ان گروہوں کی ہمت پست کرنے کیلئے کرتے ہیں جن کی تعداد روز بروز بڑھتی ہوئی نظر آتی ہے- بے رحمانہ قتل و غارت گری کا یہ سیلاب جس نے خوف کی یہ فضا پیدا کردی ہے، دہشت گردی سے لڑنے کے عزم کو روز بروز کمزور کررہا ہے-
غیر محفوظ زندگی کے خوف نے کافی عوامی شخصیات کو، جس میں صحافی اور لکھاری دونوں شامل ہیں، محتاط راہوں پر سفر کرنے پر مجبور کردیا ہے تاکہ وہ دہشت پسندوں کے غیض وغضب کا نشانہ نہ بنیں- اور زیادہ ڈرنے کی بات تو یہ ہے، کہ کچھ لوگ دہشت گردوں کے مقاصد کے محافظ بن بیٹھے ہیں-
لیکن کیا یہ شترمرغ جیسا انداز زیادہ عرصہ تحفط کی ضمانت دے سکتا ہے؟
اس بے حس قتل و غارتگری پر خاموشی انسان کو اور زیادہ غیر محفوظ بنا دیتی ہے- اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کا صرف ایک طریقہ ہے، اس ڈر اور خوف کے حصار کو توڑ دیں-
اس شروعات کی پہلی وجہ سیاست دان ہیں، جن میں سے زیادہ تر نے اسوقت خاموشی اختیار کی جب انتخابات کے دوران طالبان نے ان کے مخالفین کو نشانہ بنانا شروع کیا- اس وقت بھی وہ خاموش رہے جب ہمارے فوجیوں کی گردنیں کاٹی جارہی تھیں، جب انتہا پسند شیعوں اور دوسری مذہبی اقلیتوں کا قتل عام کررہے تھے تو وہ دوسری طرف دیکھ رہے تھے- بلکہ، ان درندہ صفت قاتلوں کی دل داری کررہے تھے- اب وہی دہشت گرد ان کے پیچھے پڑ گئے ہیں- وہ کسی کو بھی نہیں چھوڑینگے، ان کا پیغام بالکل واضح اور صاف ہے- لکیریں کھینچی جا چکیں ہیں: یا تو تم ہمارے ساتھ ہو یا ہمارے خلاف-
اب دہشت پسندوں نے اپنی بندوقوں کا رخ صحافیوں کی جانب پھیر دیا ہے- ایکسپریس ٹی وی چینل کے تین کارکنوں کو دن دہاڑے بے دردی سے قتل کردیا گیا اور یہ پہلی مرتبہ نہیں تھا کہ انہوں نے میڈیا کے لوگوں کو اس ملک میں تشدد کا نشانہ بنایا ہو، جو بالکل بجا طور پر صحافیوں کیلئے دنیا کا خطرناک ترین ملک سمجھاجاتا ہے- لیکن حالیہ قتل عام غالباً سب سے زیادہ ہیبتناک ہے-
یہ پاکستانی طالبان کا واضح ترین اعلان جنگ ہے، ان لوگوں کے خلاف جو دہشت گردوں کی درندگی کے خلاف آواز اٹھانے کی جرات کرتے ہیں- مقصد ان آوازوں کو خاموش کرنا تھا جو عقل، ہوش اور خردمندی کی علامت ہیں جو اب اس ملک میں عنقا ہیں جہاں اظہار رائے کی آزادی بڑھتی ہوئی دہشت ناک انتہا پسندی کے سائے میں خوف سے لرز رہی ہے-
طالبان نے فتویٰ جاری کیا ہے جس میں انہوں نے میڈیا پر الزام لگایا ہے کہ وہ 'بے دین ملحدوں' کا ساتھ دے رہے ہیں اور انہوں نے عہد کیا ہے کہ جو ان کے مقاصد کے خلاف ہیں ان کا نام و نشان مٹادینگے-
دہشت گردوں کی تنظیم نے خبروں کے مطابق ان میڈیا ہاؤسز اور صحافیوں کی ایک فہرست بھی بنا لی ہے جو ان کے مطابق 'غیرمسلموں' کو 'اسلام کی طاقتوں' کے خلاف جنگ شروع کرنے کیلئے اکسا رہی ہیں- اپنی اس آزادی کو حاصل کرنے سے پہلے، جسے آج یہ منا رہے ہیں، پاکستانی میڈیا کو سخت مشکل حالات اور ظالمانہ قوانین کے تحت کام کرنا پڑتا تھا-
آج، ستم ظریفی ہے کہ غیر ریاستی عوامل اور دہشت گرد صحافیوں کو ایک مرتبہ پھر انکی آزادی پر پابندی لگا کر اپنی شرائط پر کام کرنے کیلئے مجبور کررہے ہیں- یقیناً، ان کا اصل مقصد میڈیا کو دہشت زدہ کرکے اپنے قابو میں کرنا ہے- یہ میڈیا کی آزادی کے لئے ملک میں سب سے بڑا خطرہ ہے اور اس حملے کے خوف نے صحافیانہ غیرجانب داری کو پہلے سے ہی کافی متاثر کیا ہے- اور یہ خوف کراچی کے حالیہ حادثے کے بعد اور زیادہ شدید ہوگیا ہے، جس کے نتیجے میں میڈیا ہاؤسز کے لہجے میں دہشت گردی کے خلاف تنقید میں نرمی نمایاں ہے-
ایک بےحد عجیب و غریب تماشہ کراچی حادثہ کے چند دنوں بعد دیکھنے میں آیا جب ایک اینکر نے احسان اللہ احسان --ٹی ٹی پی کے ایک ترجمان-- سے ٹیلی فون پر اپنے ٹاک شو میں، براہ راست بات کی-
احسان اللہ نے نہ صرف بڑی ڈھٹائی سے صحافیوں کے قتل کی ذمہ داری قبول کی، جو اتفاق سے اسی چینل سے متعلق تھے، بلکہ یہ دھمکی بھی دی کہ اگر وہ اپنی غیرمنصفانہ رپورٹنگ بند نہیں کرینگے تو مستقبل میں وہ پھر اپنے اس عمل کو دہرائینگے-
اس سے بھی زیادہ افسوسناک اس اینکر کا ذلت آمیزانداز تھا جس سے وہ اس دہشت گرد کمانڈر کو خوش کرنے کی کوشش کررہا تھا اور اس کی رائے پوچھ رہا تھا کہ اس کے خیال میں'متوازن رپورٹنگ' کیا ہے- اس نے اس سے وعدہ کیا کہ وہ طالبان کی خبروں کو کافی جگہ دیگا اور ان کے خیالات کو آئندہ بھی باقاٰعدہ طور پر نشر کرتا رہیگا- مگر ان باتوں سے بھی دہشت گردوں کے ترجمان کو کوئی خوشی نہیں ہوئی کیونکہ وہ مسلسل ان کو برے نتائج کی دھمکیاں دیتا رہا، اگر انہوں نے ان کے کہنے پر عمل نہ کیا-
اس طرح کا رویہ صحافیوں کو اور زیادہ مشکل میں ڈال سکتا ہے- متوقع طور پر، طالبان کے ردعمل کے ڈر کی وجہ سے کچھ اخباروں نے ایسے مضامین اور رپورٹیں چھاپنا کم کردیا ہے جس میں طالبان کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہو-
سب سے خراب بات یہ ہےکہ دہشت گردوں کے جوابی انتقام کے ڈر نے چند صحافیوں کو ان کے خیالات کی ترویج کے راستے پر ڈال دیا ہے اور ان میں سے کچھ نے تو باقاعدہ ان کے اعمال اور ان کی حرکتوں کا دفاع بھی کرنا شروع کردیا ہے-
جس طرح سے پاکستانی میڈیا اور خصوصاً ٹی وی چینلوں کے ایک حصہ نے طالبان کےموقف کو گلے لگایا ہے اور ان کی بہیمت اور درندگی پر پردہ ڈال رہے ہیں یہ بے حد کراہت انگیز ہے- یہ شرف پاکستان کو حاصل ہے کہ اجتماعی قتل کے دعویدار بنفس نفیس ٹیلیویژن شوزمیں حاضر ہوتے ہیں اور ان کے بیانات کو اخباروں میں بڑی بڑی جگہیں ملتی ہیں- دہشت گردوں کو ایسی تعظیم اور عزت دینے سے دہشت گردی جائز ہوجاتی ہے-
انصاف کی بات یہ ہے، صرف میڈیا اورصحافیوں پر اکیلے الزام ڈالنا کہ انہوں نے دہشت گردوں کے ڈر کے آگے ہتھیار ڈال دیے ہیں جبکہ قومی قیادت نے بھی ان کے آگے اپنی شکست تسلیم کرلی ہے- کون چاہیگا کہ اپنی گردن بلاوجہ آگے کرے جبکہ ریاست سے کسی کو کوئی امید نہیں ہے کہ وہ کسی طرح کا تحفظ دے سکتی ہے؟
صحافیوں کیلئے عدم تحفظ کے دوسرے عوامل بڑھتی ہوئی مذہبی انتہاپسندی اور معاشرے میں موجود عدم برداشت ہے-
انتقامی کاروائیوں کے ڈر سے ملک کے اندر عقلی بحث و مباحث کا سلسلہ بند ہوچکا ہے- یہ صرف دہشت گردوں کا ڈر نہیں ہے جس نے میڈیا کی آزادی کو متاثر کیا ہے بلکہ دائیں بازو کی طالبان کی حامی سیاسی جماعتوں نے جو مہم آزاد خیال پریس کے خلاف چلائی ہے وہ بھی اس کی وجہ ہے-
یہ یقیناً میڈیا اور جمہوری آزادی کے لئے بہت برا وقت ہے- ہم یہ جنگ یقیناً ہار جائینگے اگر میڈیا دہشت گردوں کے خوف کے آگے ہار مان لے- اگر ہم اپنی آزادی برقرار رکھنا چاہتے ہیں اور قوم کی روح کو جیتنا چاہتے ہیں تو دہشت گردوں کے اس خوف کے حصار کو توڑنا ضروری ہے -
ترجمہ: علی مظفر جعفری