مذاکرات کا ڈھونگ
اب جب کہ طالبان نے بھی مذاکرات کیلئے اپنے نمائندوں کو نامزد کردیا ہے، ایک عجیب و غریب صورت حال سامنے آرہی ہے جس میں دونوں ٹیمیں تقریباً ایک ہی جانب کھڑی نظر آرہی ہیں اور ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے یہ مذاکرات غیر قانونی شدت پسندوں کے درمیان ہورہے ہیں-
حکومت دراصل بڑے آرام سے طالبان کے جال میں آچکی ہے جہاں وہ اپنی شرائط کے تحت اس کھیل کے قوانین طے کررہے ہیں اور اب ملک کو اس انتہائی خطرناک صورت حال سے نجات دلانا واقعی ایک مشکل کام ہوگا- اگریہ واقعی ایک تماشا ہے توکافی آگے بڑھ چکا ہے-
جب سے نوازشریف نے تشدد پسندوں کے ساتھ مذاکرات کیلئے اپنی چار رکنی ٹیم کا انتخاب کیا ہے اس سے اوربھی ڈرامائی تاثّر پید اہوا ہے-
جو ٹیم انہوں نے منتخب کی وہ ایک انتہائی متنازعہ سابق انٹیلیجنس افسر، ایک ریٹائرڈ سفارت کار، ایک سینیئر صحافی اورایک ان کے اسپیشل معاون پر مشتمل ایک دلچسپ گروپ ہے- ان کے دلوں میں دہشت گردوں کے موقف کیلئے جو نرم گوشہ ہے اسے دیکھتے ہوئے، طالبان کی طرف سے ٹیم کے بارے میں کسی اعتراض کی گنجائش نہیں ہے، دہشت گرد اس سے بہتر مذاکراتی ٹیم کی خواہش نہیں کرسکتے جس میں ان کے ہمخیال بھرے ہوئے ہوں-
وہ ایک ہی زبان بولتے ہیں اور ایک ہی طرح کی بات کرتے ہیں- بظاہر کچھ نہ کرنے کے علاوہ اس ٹیم کے ممبران زیادہ تر ٹی وی ٹاک شوز پر اپنی امیج بناتے نظر آتے ہیں- پی ٹی آئی کے نامزد رستم شاہ مہمند طالبان کے موقف کی جس طرح حمایت کرتے نظرآتے ہیں اس پر حیرت ہوتی ہے- وہ کہتے ہیں 'ہر چیز بالکل ٹھیک ہو جائیگی آپ بس ایک مرتبہ قبائلی علاقہ کا کنٹرول طالبان کے حوالے کردیں اور اپنی فوجیں وہاں سے ہٹالیں'!
تو، یہ کیا بڑی بات ہے؛ ٹی ٹی پی کو قبائلی علاقے میں ایک اسلامی امارات بنانے کی اجازت دے دیں- اس سے کیا فرق پڑتا ہے اگر وہ اپنی حکومت کے پی کے اطراف کے علاقوں تک بڑھانا چاہیں- بلکہ اگر سوات بھی واپس مُلّا فضل اللہ کے حوالے کردیا جائے تو بھی کوئی حرج نہیں ہے اور کراچی کا کچھ حصہ بھی ٹی ٹی پی چاہے تو اپنے کنٹرول میں رکھ سکتی ہے؛ آخر کو وہ ہمارے بھائی ہی تو ہیں!
اور آخر کیوں ہم تشدد پسندوں کی راہ میں روڑے اٹکائیں اگر وہ اپنے افغان بھائیوں کو غیرملکی فوجوں کے خلاف "جہاد" میں مدد دے رہے ہیں اور دوسرے مسلم ممالک سے جہادیوں کو دعوت دے کر بلاتے ہیں، آخر مذہبی فریضہ بھی کوئی چیز ہے- اس سے کیا فرق پڑتا ہے اگر کسی خودکش بمبار کی وجہ سے کچھ عورتیں اور کچھ بچے مارے جاتے ہیں اور کچھ اسکول اڑادئے جاتے ہیں- 'امن کو ایک موقع دینا ضروری ہے' کیا ہم سب اس بات پر متفق نہیں ہیں؟ یہ دلیل چلتی رہتی ہے-
جب سے طالبان نے اپنی پانچ ممبروں کی مذاکراتی ٹیم کے ناموں کا اعلان کیا ہے یہ بات فہم و فراست کے اور زیادہ خلاف ہوتی جارہی ہے ہے- ایک نہایت ہی شاطرانہ چال میں، انہوں نے اپنے نمائندے باہر سے چنے ہیں، بجائے اپنی صفوں کے اندر سے اور سب سے بڑا استادانہ قدم ٹیم میں عمران خان کا انتخاب ہے جن کے ساتھ کٹر اور سخت گیر قسم کے مذہبی انتہا پسندوں کا گروپ جن کے تشدد پسندوں کےساتھ قریبی روابط کے بارے میں سب کو پتہ ہے-
اس غیرقانونی گروپ کی طرف سے نامزدگی شائد تحریک انصاف کے سربراہ کیلئے سیاسی پشیمانی کا باعث ہوئی ہو، لیکن ٹی ٹی پی کا یہ فیصلہ اچھی طرح سوچا سمجھا تھا- نہ صرف یہ کہ عمران خان مذاکرات کے پرجوش حامیوں میں سے ایک تھے بلکہ کے پی میں ان کی پارٹی کی انتخابی کامیابی کیلئے کسی حد تک تشدد پسندوں کے ممنون احسان تھے- اگرچہ کہ انہوں نے ان کی ٹیم کا حصہ بننے سے انکار کردیا ہے- لیکن ٹی ٹی پی ہمیشہ ان کی حمایت پر بھروسہ کرسکتی ہے-
یہ سیاسی طور پر طالبان کی ایک نہایت شاطرانہ چال ہے کہ ان کی بجائے اسلامی جماعتوں کے قائدین اور دوسرے مذہبی علماء کو اس میں شامل کرلیا جائے- اس سے نہ صرف ان کی حمایت میں اضافہ ہوتا ہے- بلکہ اس کے ذریعہ تشدد پسند عوامی رائے عامہ پر بھی اثر انداز ہوسکتے ہیں.
مذاکرات پر نظر رکھنے کا کام ایک 10 آدمیوں پر مشتمل طالبان کی ایک شوریٰ کرے گی جس میں کٹّر اور سخت گیر شدت پسند طالبان ہیں جن کے سروں پر لاکھوں روپے کے انعامات لگے ہوئے ہیں- فضل اللہ کے سر کی قیمت 50 ملین روپے ہے جو طالبان کے موجودہ سربراہ ہیں-
اس سے مذاکرات کے عمل کی قانونی حیثیت پر بھی سوال اٹھتا ہے- ٹی ٹی پی ایک غیر قانونی اور کالعدم دہشت گرد جماعت ہے اور اس قسم کی کسی جماعت سے کسی طرح کا کوئی رابطہ رکھنا پاکستان کے آئین اور دستور کے منافی ہے-
اس گروہ نے پاکستان کی ریاست کے ساتھ اعلان جنگ کیا ہوا ہے اور فوج کی سیکیورٹی تنصیبات پر حملوں اور فوجیوں کو قتل کرنے کی ذمہ داری بھی قبول کی ہے- حکومت کا ان کے ساتھ غیرمشروط مذاکرات کرنے کا مطلب ان کی دہشت گردی کے تمام واقعات کو جائز قرار دینا ہے- اس بات کا کوئی اشارہ ابھی تک نہیں ملا ہے کہ یہ گروہ تشدد کے راستہ کو چھوڑ کر ریاست کے آئین کو ماننے کیلئے تیار ہے-
تشدد پسند دراصل چاہتے ہیں کہ جن علاقوں میں ان کی عمل داری ہے وہاں سے ریاست کی حکمرانی ختم کردی جائے- ان قبائلی علاقوں میں حکومت کی دوبارہ رٹ قائم کرنے میں ہزاروں جانوں کی قربانی دی گئی ہے اور وہاں سے فوجوں کو واپس بلانے کا مطلب ملک اور علاقائی سالمیت کیلئے تباہ کن نتائج کا سبب ہوگا-
ہمارے کئی سیاسی لیڈروں کے خیال میں ٹی ٹی پی قبائلی علاقے کے معاشی اور جمہوری حقوق کی جنگ لڑ رہی ہے- سچ کا اس بات سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے- سچ تو یہ ہے کہ قبائلی لوگوں نے بڑھتی ہوئی تشدد پسندی کے ہاتھوں بہت دکھ سہے ہیں- تشدد پسندوں نے سینکڑوں سرداروں کو ہلاک کردیا ہے اور بہت سارے قبائلی جرگوں پر خودکش حملوں میں مارے گئے ہیں- اس سّفاکی نے لوگوں کو اپنا گھر بار چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور کردیا ہے-
یہ بات یقیناً تباہ کن ہوگی اگر طالبان کو قبائلی علاقوں میں کنٹرول حاصل کرنے اور اپنی مرضی کی شریعت اس علاقے میں رائج کرنے کی اجازت دی گئی جیسا کہ حکومت کی مذاکراتی ٹیم کے ممبروں کی طرف سے اور کئی سیاسی لیڈروں کی جانب سے تجاویز دی جارہی ہیں-
قبائلی علاقوں کے عوام اس زیادتی کے سب سے بڑے شکار ہونگے-
دہشت گردوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے امن کبھی نہیں حاصل ہوتا- ٹی ٹی پی کے مطالبوں کے سامنے سر جھکانے کا مطلب ریاست کا ٹوٹ پھوٹ کر بکھر جانا ہوگا- اور یہ صرف اکیلے قبائلی علاقے نہیں ہونگے بلکہ سارا ملک خطرے میں ہوگا-
ترجمہ: علی مظفر جعفری
تبصرے (4) بند ہیں