کھیل ختم، پیسہ ہضم؟
"مذاکرات کے اس پورے عمل کو عملاً مذہبی سیاسی جماعتوں اور ان انتہا پسند ملاؤں کے رحم کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے جن کے عسکریت پسندوں گروپوں کے ساتھ قریبی مراسم ہیں-"
پاکستانی طالبان کی جانب سے فرنٹیئر کورپس کے سپاہیوں کا بہیمانہ قتل عام جو کہ کراچی میں پولیس کمانڈوز کی ہلاکت کے بعد کیا گیا، مذاکرات کا ڈھونگ اور دکھاوا ختم ہو جانا چاہئے تھا- تاہم لگتا ہے کہ خون کی یہ تازہ ترین ہولی بھی ہماری قومی قیادت کو اس خواب سے جگانے میں ناکام رہی ہے جس میں انہیں اتنے بڑے قاتل بھی تہذیب کے دائرے میں جاتے دکھائی دیتے ہیں-
شاید کوئی ایک بھی دن ایسا نہ گزرا ہو جب سے یہ نام نہاد مذاکرات شروع ہوئے ہیں کہ ایک کے بعد ایک دہشت گرد حملے نہ ہوئے ہوں اور جن میں ہلاکتوں کی تعداد اور تباہی بڑھی ہی ہو- گو کہ ٹی ٹی پی نے زیادہ تر حملوں کی ذمہ داری قبول بھی کی ہے تاہم اس نے نہایت چالاکی سے چند موقعوں پر تردید کرنے یا اپنے اتحادی گروپوں کو ان حملوں کا ذمہ دار قرار دینے کی پالیسی بھی اپنائی ہے-
مثال کے طور پر، ایف سی سپاہیوں کے قتل عام کی ذمہ داری مہمند ٹی ٹی پی نے قبول کی تو پشاور میں ایک ہوٹل میں کئی شیعوں کی ہلاکت کی ذمہ داری تنظیم کی شہری شاخ نے لی-
سب سے زیادہ ستم ظریفی بہرحال یہی ہے کہ حکومت اور اس کی مذاکراتی ٹیم جانتے بوجھتے اس جال میں آ گئی بلکہ عسکریت پسندوں کی کاروائیوں کی معذرت بھی کرتے دکھائی دی- اگر متحارب گروہ اور تحریک طالبان پاکستان کی مختلف شاخیں اتنی ہی خودمختار اور اپنے فیصلوں میں آزاد ہیں تو حکومت کس سے مذاکرات کر رہی ہے اور آخر کس لئے؟
بظاہر مذاکرات میں مشغول رہتے ہوئے بھی، ٹی ٹی پی تشدد کو حکومت پر دباؤ بڑھانے کیلئے استعمال کر رہی ہے- یہ حکمت عملی ان کے لئے کام بھی کرتی دکھائی دیتی ہے کہ ہر حملے کے بعد، حکومت کا رویہ مزید مدافعانہ ہوتا جا رہا ہے-
ہر حملے کے بعد، حکومتی مذاکراتی ٹیم کا جواب یہی ہوتا ہے کہ مذاکرات صحیح سمت میں بڑھ رہے ہیں اور جلد کسی بڑے بریک تھرو کی امید ہے- ہو سکتا ہے فوجیوں کے وحشیانہ قتل کے بعد حکومت کے لہجے اور اس کے بیانات میں سختی آ گئی ہو لیکن لیکن مذاکرات کے نتائج کی امیدیں اب بھی وہی ہیں-
ستم ظریفی تو دیکھیں کہ یہ دونوں دہشت گردی کی کاروائیاں اس مشہور دورے کے بعد ہوئیں جو طالبان کے نمائندوں نے چوٹی کے عسکریت پسند کمانڈروں سے مشاورت کیلئے شمالی وزیرستان کا کیا- بتایا جا رہا تھا کہ اس ملاقات میں ٹی ٹی پی کی قیادت نے مثبت جواب دیے ہیں لیکن اس کے بعد ہونے والے ان دہشت گرد حملوں سے ان دعووں کی نفی ہوتی ہے- چاہے کچھ بھی ہو کسی بھی صورت میں ایسا نہیں لگتا کہ خود فریبی کا شکار انتظامیہ کو اس سے کوئی فرق پڑا ہو-
مذاکرات کا یہ عمل شروع سے ہی خامیوں سے بھرپور رہا ہے- جہاں ایک طرف تو طالبان ایک واضح حکمت عملی رکھتے ہیں تو دوسری جانب حکومت، مذاکرات کی میز پر اپنا کوئی پلان بنائے بغیر ہی بیٹھ گئی ہے- اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ مذاکرات کے اس پورے عمل کو عملاً مذہبی سیاسی جماعتوں اور ان انتہا پسند ملاؤں کے رحم کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے جن کے عسکریت پسندوں گروپوں کے ساتھ قریبی مراسم ہیں- ان کی کوشش ہے کہ اس بحث کا رخ دہشت گردی سے موڑ کر، پاکستان میں شریعت کے نفاذ کے غیر متعلق ایشو پر کر دیا جائے-
اس عمل کے دوران، لال مسجد کے شعلہ بیاں امام، مولانا عبدالعزیز نے طالبان کے مطالبات کی غیر منظوری پر پانچ سو خواتین خودکش بمباروں کی دھمکی دی ہے- لال مسجد کے 2007 میں ہوئے محاصرے کے دوران، عورتوں کا برقعہ پہنے، سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد، مولانا صاحب نے کئی سال گوشہ گمنامی میں گزارے- لیکن اب وہ طالبان کا معیار تھامے خبروں کی زینت ہیں-
ان کے انتہا پسند نظریات سے تو زیادہ تر قدامت پسند ملا بھی گھبرا جاتے ہیں- وہ جمہوریت کو غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے یکسر مسترد کرتے ہیں اور شریعت کے خود ساختہ سخت گیر ورژں کا فوری نفاذ چاہتے ہیں اور اس "مقدس" مقصد کے حصول کیلئے طالبان کی جانب سے تشدد کے استعمال کو بھی جائز قرار دیتے ہیں-
کسی بھی تہذیب یافتہ ملک میں، تشدد کا ایسے پرچار کرنے والا قانونی کاروائی کا سامنا کرتا لیکن اس "اسلامی جمہوریہ" میں ایسا نہیں ہو سکتا جہاں بہت سے انسانوں کا قتل بھی ریاست کی طرف سے قانونی قرار دیا جا سکتا ہے- لیکن یہاں تو یہ ہو رہا ہے کہ آگ اگلنے والا یہ ملا ہر ٹیلی ویژن شو میں اپنی منہ سے لاوا اگلے ہی چلے جا رہا ہے اور کوئی اسے روکنے والا نہیں-
اس سب سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریاست کتنی کمزور ہو چکی ہے اور قانون کے نفاذ میں بالکل ناکام-
عسکریت پسندوں کے لئے اس سے زیادہ اچھی بات کیا ہو گی کہ پنجاب اور کے پی میں مرکزی سیاسی قوتیں ان کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہیں- نہ صرف وفاقی حکومت بلکہ اس کا مرکزی مخالف گروپ جس کی قیادت عمران خان کے پاس ہے، طالبان ہی کا راگ الاپتے معلوم ہوتے ہیں-
اپنی پارٹی کی 'صلح جو' پالیسی کے جواز کیلئے ان کی جانب سے سابق آرمی چیف جنرل کیانی کی خفیہ بریفنگ کے الفاظ کو توڑنا مڑوڑنا بھی افسوسناک ہے- بظاہر تو اس تجزیے میں کوئی ابہام نظر نہیں آتا کہ شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کے خاتمے سے ملک میں دہشت گردی کی کاروائیوں میں چالیس فیصد کمی آ سکتی ہے-
تاہم ملک کے دیگر حصوں میں عسکریت پسندی پر قابو پانے کیلئے حکومت کو انسداد دہشت گردی کی ایک جامع حکمت عملی وضع کرنی ہو گی- یہی وہ گمشدہ کڑی ہے جسے دہشت گردی کے خلاف جاری قوم کی جنگ میں استعمال کرنے کی ضرورت ہے-
دکھاوے کے ان مذاکرات کو مزید طول دے کر، حکومت شاید وہ موقع کھو دے جسے ہماری فوج شمالی وزیرستان میں دہشت گردی کے منبع ٹھکانوں کی تباہی کیلئے استعمال کر سکتی ہے- سیکورٹی حکام کے مطابق، معاملات شاید پہلے سے زیادہ مشکل تر ہو جائیں اگر اگلے چند ہفتوں میں یعنی گرمیوں کے آغاز سے پہلے، اس بارے میں فیصلہ نہیں کیا گیا- فیصلہ کرنے میں تاخیر کی بہت بھاری قیمت چکانی پڑ سکتی ہے-
آپریشن میں مزید تاخیر، نہ صرف عسکریت پسندوں کو ری گروپ ہونے کا موقع فراہم کرے گی بلکہ اس سے فوج کی بے چینی میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے جو پہلے ہی شورش پسندوں کے ہاتھوں اپنے بہت سے سپاہی کھو چکی ہے-
اعتماد سازی کے قدم کے طور پر، جنوبی وزیرستان کے کچھ حصوں سے فوج کی واپسی کا ٹی ٹی پی کا مطالبہ، یقیناً فوج کے لئے قابل قبول نہیں- لیکن سول اور فوجی قیادت کے درمیان، یہ بڑھتی ہوئی خلیج، دہشت گردی کے خلاف قوم کی اس جنگ کے لئے کسی طور بھی اچھا شگون نہیں-
لکھاری ایک مصنف اور صحافی ہیں-
ترجمہ: شعیب بن جمیل