پاکستان کی گیمنگ انڈسٹری

شائع March 7, 2014
اسلام آباد: گیم ڈیزائنر محسن علی افضل اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے۔ — اے ایف پی
اسلام آباد: گیم ڈیزائنر محسن علی افضل اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے۔ — اے ایف پی

لاہور: پاکستان کا شہر لاہور اپنی تاریخ اور ثقافت کے حوالے سے شہرت رکھتا ہے، لیکن موبائل فون گیم ڈیولپرز کی نئی نسل اسے ایک نئی شناخت دینے کی کوششوں میں مصروف ہے۔

روشن دفاتر کے تفریحی ماحول میں کام کرنے والے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں پرمشتمل دو اعشاریہ آٹھ ارب ڈالرز کی یہ چھوٹی سی آئی ٹی صنعت بابر احمد جیسی کاروباری شخصیات کی سربراہی میں ترقی کی منزلیں طے کر رہی ہے۔

امریکی ریاست ٹیکساس میں سرکٹ انجینئر کی ملازمت کو خیرباد کہنے کے بعد تینتیس سالہ بابر نے 2006 لاہور میں اپنے بھائی فراز کے ساتھ مل کر 'مائنڈ سٹارم' سٹوڈیو قائم کیا تھا۔

سن 2010 میں ان کی گیمنگ ایپ 'وکسی ٹیکسی' ایپل کے ایپ سٹور پر دنیا کے پچیس سے زائد ملکوں میں پہلے نمبر پر رہی۔

پھر 2011 عالمی کپ کے آفیشل گیم 'کرکٹ پاور' اور 2012 میں 'مافیا فارم' کی کامیابیوں کی وجہ سے آج ان کے سٹوڈیو میں 47 لوگ کام کرتے ہیں۔

بابر کہتے ہیں کہ ان کا مقصد پاکستان کو گیمنگ ورلڈ کے نقشے پر لانا تھا۔

'ہم امریکا میں پاکستانی تارکین وطن کے درمیان آبائی وطن کے لیے کچھ کر گزرنے کی باتیں سن سن کر تھک چکے تھے'۔

سمارٹ فونز کا انقلاب مائنڈ سٹارم کا شمار لاہور، اسلام آباد اور کراچی میں موجود متعدد گیمز ڈیولپمنٹ سٹوڈیوز میں ہوتا ہے اور سمارٹ فونز کے استعمال میں نمایاں اضافے سے ان سٹوڈیوز کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا ہے۔

بابر نے بتایا کہ آئی فون کی آمد کے بعد ایک گیم اور اس کے کھیلنے والے کی تعریف میں راتوں رات تبدیلی آ گئی ہے۔

روائتی طور پر گھروں میں کونسول سسٹم پر کھیلے جانے والے گیمز کی تیاری میں لاکھوں ڈالرز کا بجٹ اور درجنوں ڈیولپرز کی ٹیمیں درکار ہوتی ہے۔

اس کے برعکس سمارٹ فونز کے لیے بنائے جانے والے گیمز انتہائی کم لاگت سے ڈیزائن کیے جا سکتے ہیں۔

لاہور میں ہی کام کرنے والے ایک اور سٹوڈیو ٹنٹاش کے سی ای او جاذب ظاہر کے مطابق، اسی وجہ سے مشرقی یورپ کے ممالک، پاکستان اور فلپائنز سافٹ ویئر آؤٹ سورسننگ کے لیے اہم ترین مقام بن چکے ہیں۔

ٹنٹاش ٹاپ ٹین میں شامل گیم 'فشنگ فرنزی' کے بیک آفس کے طور پر کام کرتا ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت تقریباً چوبیس ہزار لوگ مالیاتی، صحت عامہ اور دیگر ایسے ہی سافٹ ویئر شعبوں کی برآمدات سے جڑے ہوئے ہیں۔

ٹیکنالوجی صحافت سے وابستہ ظاہر مزید بتاتے ہیں 'پاکستان میں کام کرنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ یہاں تربیت یافتہ اور سافٹ ویئر کی تیاری میں دلچسپی اور رجحان رکھنے والی زبردست افرادی قوت میسر ہے'۔

اسلام آباد شہر کے نواح میں ایک ویئر ہاؤس کو تبدیل کر کے 'وی آر پلے' نامی سٹوڈیو بنایا گیا ہے۔

یہاں جا بجا رنگ برنگے پوسٹرز، کھلونے اور تخلیقی ماحول میں تقریباً بیس لوگ اپنے اپنے کمپیوٹرز میں مگن ہیں۔

وی آر پلے کو محسن علی افضل اور وقار عظیم نے 2010 میں قائم کیا تھا۔

سن 2010 میں یو سی برکلے سے واپس آنے والے افضل نے بتایا کہ 'ہم نے شروع ہی سے اس بات کو یقینی بنایا کہ سٹوڈیوز میں لوگ علیحدہ علیحدہ کیوبز میں کام نہیں کریں گے اور نہ ہی میرا کوئی بہت بڑا آفس ہو گا'۔

لاہور میں ہی کام کرنے والے ایک اور سٹوڈیو کریمل ٹیک میں بھی انہی چیزوں کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔

سٹوڈیو میں ایک پلے روم بھی ہے جہاں پول اور فٹبال ٹیبل اور وڈیو گیم کونسول ایکس باکس بھی موجود ہیں۔

یہاں کے ملازمین کے لیے ضروری ہے کہ وہ شام چار بجے کے بعد پلے روم جائیں اور تفریح کریں۔

سن 2011 میں دو بھائیوں سعد اور عمار زعیم کا قائم کردہ یہ سٹوڈیو عالمی شہرت یافتہ گیم 'فروٹ ننجا' کی کوڈنگ کرتا ہے۔

یاد رہے کہ آسٹریلین سٹوڈیو کے اس گیم کے پچاس کروڑ سے زائد ڈاؤن لوڈ ہو چکے ہیں۔

ان سٹوڈیوز میں ایک اور قابل ذکر بات صنفی تفریق کا نہ ہونا ہے۔ یہاں پر کام کرنے والے مغربی جینز اور ٹی شرٹ سے لے کر حجاب میں بھی نظر آتے ہیں۔

سٹوڈیوز میں کام کرنے والے کچھ ملازمین کے لیے اپنے اہل خانہ کو یہ منوانا بہت مشکل تھا کہ وہ واقعی کوئی کام بھی کرتے ہیں۔

وی آر پلے میں کوالٹی کنٹرول شعبہ کی سربراہ چوبیس سالہ سعدیہ ضیاء نے ہنستے ہوئے بتایا کہ ان کے والدین سمجھتے ہیں کہ وہ یہاں آ کر بس کھیلتی رہتی ہیں۔

اپنے ملازمین کے اہل خانہ کا اعتماد جیتنے کے علاوہ ان سٹوڈیوز کو شدید لوڈ شیڈنگ کا بھی سامنا رہتا ہے۔

مائنڈ سٹارم کے بابر احمد نے بتایا کہ یہاں بجلی کام نہیں کرتی لہٰذا آپ کو گزارا کرنا پڑتا ہے۔

بابر اب روائتی طریقے سے بجلی کے بجائے شمسی توانائی استعمال کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔

اسی طرح ان سٹوڈیوز کو خراب ٹیلی فون لائنز، امن و امان کی خراب صورتحال اور بدعنوانی جیسے مسائل کا بھی سامنا ہے۔

'یہاں پر جنگل کا ماحول ہے، یہاں ہر کوئی نہیں رہ سکتا۔ اگر آپ اپنے ارد گرد ماحول سے امید لگائے بیٹھے ہیں تو ایسا نہیں ہونے والا۔ اگر آپ یہ سب برداشت کر سکتے ہیں تو بہت اچھا ہے'۔

کارٹون

کارٹون : 3 جولائی 2025
کارٹون : 2 جولائی 2025