طاقت کے توازن میں تبدیلی
سول- ملٹری تعلقات پر تبصروں کا موسم ایک بارپھر لوٹ آیا ہے- اس موضوع پر، حالیہ سیاسی تناؤ کی بنا پر جس نے ملک کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے، پہلے ہی کافی بحث مباحثہ ہوچکا ہے- کیا ایک جمہوری نظام میں سویلین بالادستی سے کوئی انکار کرسکتا ہے؟ ہرگز نہیں- لیکن اس کا اصل مطلب کیا ہے، یہی تو سارے فساد کی جڑ ہے-
لبرل تبصرہ نگاروں میں ایک عام رجحان یہ ہے کہ وہ حقیقت کوعلامتی اظہار کا روپ دے دیتے ہیں- لہٰذا اس میں تعجب نہیں ہونا چاہئے کہ آئی ایس آئی کے خلاف یہ مہم جو میڈیا کا ایک حصہ چلا رہا ہے اور فوج کے ایک سابق سربراہ کے خلاف بغاوت کا مقدمہ یہ سب سویلین بالادستی کی نشانی کے طور پر پیش کیا جا رہا ہو-
اس قسم کے دعویٰ سے زیادہ غلط بات کوئی نہیں ہوسکتی - اور یہ پہلی بار نہیں ہے کہ مقدس گائے کو ذبح کیا گیا ہے- ہم نے ماضی میں سویلین وزرائے اعظم کے ہاتھوں فوج کے دو سربراہوں کو برخواست ہوتے ہوئے دیکھا ہے- ہم نے عوامی احتجاج کے نتیجے میں فوجی حکمرانوں کو اقتدارچھوڑتے ہوئے دیکھا ہے- لیکن کیا اس کے باوجود سویلین بالادستی حاصل ہوئی؟- اس کے بعد جو ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے-
لبرل عناصر کے اس شور شرابے کے باوجود، فوج میڈیا کی اس پراکسی جنگ کے نتیجے میں زیادہ طاقتور ہوئی ہے- اور فوج کی حمایت میں اتنے جوش اور جذبہ کی اہمیت کو کم نہیں سمجھنا چاہئے- اس سے پہلے کب ہم نے میڈیا اور سیاسی جماعتوں کو اتنی تندہی سےسیکیورٹی ایجنسیز کے ساتھ علی الاعلان وفاداری کا اظہار کرتے دیکھا ہے؟
یہاں تک کہ جن وفاقی وزراء نے پہلے کچھ تنقیدی بیانات دئے تھے وہ بھی فوراً پیچھے ہٹ کرفوج سے اپنی وفاداری جتانے لگے- درحقیقت، پچھلے چھ سالوں میں جمہوریت نے جو حاصل کیا تھا اس کے تناظر میں پچھلے دو ہفتوں کے واقعات پیچھے کی طرف ایک چھلانگ کی مانند ہیں- سیاسی طاقتیں اور عوامی رائے بہت زیادہ بٹی ہوئی اور منتشر ہے- ایک قبل ازوقت اور غیرضروری جھگڑے نے سویلین بالادستی کو بالکل بھی مضبوط نہیں کیا جیسا کہ چند مبصرین کا خیال ہے- بلکہ فوج کو دباؤ میں لانے کی کوششوں کا الٹا اثر ہوا ہے-
جو بات ہمارے لبرل دوست نہیں سجھ پا رہے وہ یہ ہے کہ سویلین بالادستی ایک ارتقائی عمل ہے- اور اس کا حصول بہتر حکمرانی سے وابستہ ہے، ایک صاف ستھری پالیسیوں کی سمت اور واضح اور موثر مطمع نظر- فوجی حکمرانی سے سول حکمرانی تک کا سفر ایک توازن چاہتا ہے- کسی کو یہ نہیں محسوس ہونا چاہئے کہ کہیں زیادتی ہو رہی ہے-
2007ء کے بعد فوج کی سیاسی طاقت کم ہو رہی تھی، اور یہی منتخب حکومت کے لئے مناسب وقت تھا کہ وہ اپنی بالادستی کو صحیح پالیسیاں نافذ کر کے منواتی- اگرچہ کہ فوج کا اثر نیشنل سیکیورٹی اور خارجہ پالیسی کے معاملات پر باقی تھا، لیکن اس کا سیاسی اثر کافی کم ہو گیا تھا-
اس سے منتخب حکومت کو آزادانہ سیاسی کام اورحکومت کے اہم مسائل پر اپنی توجہ مرکوز کرنے کا اورجمہوری اداروں کو مضبوط کرنے کا موقع ملا- ایک خودمختار عدلیہ بھی طاقت کے توازن پر اثر انداز ہوئی، جس کی وجہ سے ماورائے دستور مداخلت کا امکان کافی کم ہو گیا-
لیکن یقیناً اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ فوج نے اپنی طاقت مکمل طور پر کھودی تھی- نہ ہی یہ کہ پی پی پی کے دور حکومت میں فوج اور سویلین تعلقات مکمل طور پر ہموار تھے- تاہم جمہوری نظام کو درہم برہم کرنے کے کوئی امکانات نہیں تھے- مسائل کے باوجود، فوج سیاست سے دور، اپنی بیرکوں ہی میں رہی-
جنرلوں نے، بہرحال، جب بھی کسی مسئلے کی وجہ سے ان کے ادارے کے مفادات پراثر پڑا ہمیشہ اپنے موقف کا مضبوطی سے دفاع کیا- کم از کم ایسے دو اہم مسئلے تھے--- کیری لوگر بل اور' میموگیٹ' --- جس کی وجہ سے سویلین حکومت اور فوج کے درمیان ٹکراؤ کی نوبت آ گئی تھی-
لیکن اس صورت حال نے تصادم کو جنم نہیں دیا- پی پی پی کی حکومت نے حکمرانی اورمعیشت میں کوئی کارکردگی دکھائی ہوتی تو اپنے اقتدار کو بہترطریقے سے فوج پر قائم کرسکتی تھی- ملک میں ایک جنگ جاری تھی فوج کے ہزاروں جوان طالبان کی بغاوت کے خلاف جنگ میں مصروف تھے- اندرونی سلامتی کے معاملات میں فوج کا وسیع تر رول اہمیت کا حامل ہوتا ہے-
یہ بلاشبہہ، جمہوریت کی جانب ایک بڑا قدم تھا، جب 2013ء میں پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک سے دوسری منتخب جمہوری حکومت کو اقتدار کی منتقلی ہوئی- یہ ملک میں جمہوری نظام کے استحکام کی ایک علامت تھی- یہ تاریخی تبدیلی، بہرحال، فوج کے جمہوری عمل کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں تھی-
لیکن ایسا لگتا ہے کہ صورت حال پچھلے چند ہفتوں میں بدل گئی ہے اور فوج ایک بار پھر اپنا سیاسی کردارادا کرنے کیلئے بیرکوں سے باہرآنے پر مجبورہو گئی ہے- اگرچہ کہ جنرلوں کو شاید اس میں دلچسپی نہیں ہے کہ جمہوری نظام کو درہم برہم کر دیں، لیکن ایسا نہیں لگتا ہے کہ وہ خاموشی سے سیاست اور اقتدار کا کھیل ایک طرف ہوکر دیکھتے رہیں گے اور موجودہ بحران بھی اسی طرح برقرار رہے گا-
یقیناً، فوج اورسویلین بالادستی ایک اہم مسئلہ ہے جس کا حل مکمل جمہوریت کیلئے ضروری ہے- لیکن بڑھتی ہوئی عسکریت اور مذہبی انتہا پسندی زیادہ بڑے مسائل ہیں اور ملک ان رجعت پسند طاقتوں سے نبرد آزما ہوئے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا - اس موقع پرضروری ہے کہ باغیوں سے لڑنے کیلئے ساری طاقتیں متحد ہوں-
بدقسمتی سے، سیاسی طاقتیں اس اہم مسئلے پر جوجمہوری نظام کیلئے خطرے کا باعث ہے، متفق نہیں ہیں- صورت حال اس لئے بھی اور زیادہ گمبھیر ہوگئی ہے کہ شریف حکومت گومگو کا شکار ہے- اور اب سویلین اور فوجی ارباب اختیار میں کسی قسم کا اختلاف باغیوں اور غیر جمہوری طاقتوں کا ہاتھ مضبوط کریگا- اس لئے یہ بے حد ضروری ہے کہ جب پاکستان اپنی بقا کی جنگ لڑرہا ہو تو دونوں اداروں کی سوچ یکساں ہو- ان دونوں کے درمیان کسی قسم کا اختلاف تباہ کن ہوسکتا ہے-
یقیناً یہ موسم گرما شریف حکومت کیئے ایک مشکل لیکر آیا ہے جہاں ابھرتی ہوئی نئی سیاسی وابستگیاں طاقت کے توازن کو واپس فوج کی جانب جھکا رہی ہیں- اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعظم دوبارہ یہ کام کرسکیں گے یا نہیں-
لکھاری: زاہد حسین
ترجمہ: علی مطفر جعفری
تبصرے (1) بند ہیں