!کوئی ہے سننے والا
کراچی انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر دہشت گردی کا وحشیانہ حملہ ایک ایسا بھیانک واقعہ ہے جو ایک ایسی محصور ریاست کا تصور پیش کرتا ہے جس کے پاس اپنے بچاؤ کی اب کوئی امید باقی نہیں رہی ہے- سیکیورٹی فورسز نے ایئرپورٹ کو کئی گھنٹوں کی گھمسان کی جنگ کے بعد جب خالی کرایا تو بیس سے زیادہ لوگ ہلاک ہو چکے تھے اور کئی طیاروں کو نقصان پہنچا تھا-
نقصانات کو روکنے اور کامیابی کے دعووں کے باوجود، یہ واقعہ ایک مرتبہ پھر ہمارے سیکیورٹی نظام کے کھوکھلے پن کی نشاندہی کرتا ہے جو ایسے منظم اور بے باک دہشت گردی کے حملوں کو روکنے میں ناکام ہے-
سب سے زیادہ افسوس ناک پہلو قومی سظح پر قائدانہ صلاحیتوں کے مکمل فقدان کا تھا، ایسے وقت جب کہ ملک کو سنجیدہ ترین سیکیورٹی چیلینجز کاسامنا ہے-
ملک کے سب سے اہم ایئرپورٹ پر ایسے شدید بحران کے بعد اسلام آباد میں ایسی بے چینی نہیں نظر آرہی تھی جیسی صورت حال کا تقاضا تھا جب کہ ہزاروں مسافر اس کی لپیٹ میں آگئے تھے- وفاقی وزیر صاحب اگلی صبح کو یہ کہتے ہوئے نمودار ہوئے کہ ہم نے انکوائری کا حکم دے دیا ہے- 22 گھنٹے کے بعد جب وہ کراچی پہنچے تو سوالوں کے خاطر خواہ جواب بھی نہیں دے پائے-
وزیراعظم نے اپنے طرزعمل سے مایوس کیا، اور سوائے اپنے پیشروؤں کے طریقے پر عمل کرتے ہوئے ایک مذمتی بیان دینے کے، ٹی وی پر آنے کی زحمت تک نہیں گوارا کی کہ بحران کے دوران یا بعد میں لوگوں کی حوصلہ افزائی کا سبب ہوتا-
ان کے اس طرزعمل سے کچھ حلقوں میں یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ وزیراعظم کی تشویش اپنے صوبے پنجاب کے علاوہ دوسرے علاقوں میں توقع سے بہت کم ہوتی ہے-
حالانکہ تمام جماعتوں نے امن کو ایک موقع دینے پرآمادگی ظاہر کی تھی، موجودہ حکومت کی بےعملی جو تقریبأ اطاعت کا تاثر دیتی ہے اور جس نے دہشت گردوں کو مزید طا قتور کیا ہے اور ابھی تک ٹی ٹی پی سے براہ راست ٹکرلینے کا کوئی ارادہ ظاہر نہیں کیا ہے جس نےاتوار کی رات کے حملے کی براہ راست ذمہ داری قبول کرلی ہے-
کراچی ایئرپورٹ پر حملہ اور اس سے پہلے کے مہران اور کامرہ ایئر بیس پر حملوں میں بہت مشابہت ہے- ان تمام حملوں میں انتہائی تربیت یافتہ خودکش بمبار استعمال ہوئے تھے جو جدید ترین اسلحوں سے لیس تھے اور زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتے تھے- ایسے اہم ٹارگٹس کو نشانہ بنانے کی دوسری وجہ یہ تھی کہ انہیں زیادہ سے زیادہ عالمی توجہ مل سکے-
لگتا ہے کہ دہشت گرد اپنے دونوں مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے- کیونکہ ملک کے سب سے بڑے ایئرپورٹ اور معیشت کے راستوں پر حملے کے ملکی معیشت اور اس کی شناخت پر دور رس اثرات ہوتے ہیں اس حادثے کے زیر اثر عالمی فضائی ادارے پاکستان میں اپنے آپریشنز پر نظر ثانی بھی کرسکتے ہیں بلکہ کچھ عرصے کیلئے ہمیں غیرملکی سرمایہ کاری کو بھی بھول جانا ہوگا-
یہ بات بھی دہلا دینے والی ہے جس طرح سے دہشت گرد اتنی آسانی سے اسلحے اور آتش گیر مادے کے اتنے بڑے ذخیرے کے ساتھ اتنے حساس سیکیورٹی کے علاقے سے گذر کر ایئرپورٹ کے اندر داخل ہوگئے-
اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے پاس ہوائی اڈے کے بارے میں ساری متعلقہ معلومات موجود تھیں --- جو اندرونی تعاون کے بغیر ممکن نہیں-
طالبان کے ایک ترجمان کے مطابق وہ ایک مسافر طیارہ اغوا کرنا چاہتے تھے- ان کی اس کوشش کو سیکیورٹی فورسز کی وجہ سے ناکامی ہوئی لیکن حملہ آور اپنا مقصد حاصل کرنے کے کافی قریب پہنچ گئے تھے-
حکومت اور سیکیورٹی ایجنسیز نقصان کو کم کر کے بتارہے ہیں جیسا ایک ٹی وی فوٹیج سے پتہ چلتا ہے جو گہرے دھوئیں کی چادر سے جہاز کے اطراف کی آگ اور رن وے کو چھپائے ہوئے تھی-
زیادہ اہم بات یہ ہے، کہ اس حملے سے تشدد پسندوں کے اس گٹھ جوڑ کے بارے میں پتہ چلتا ہے جو اس وقت کراچی میں سرگرم عمل ہیں- ملک کا یہ سب سے اہم مالیاتی مرکز کافی عرصے سے طالبان اور فرقہ وارانہ تشدد پسندوں، جہادی سرمایہ کاروں اور القاعدہ کی غیر فعال ٹیم کا گڑھ بنا ہوا ہے- یہ قاتلوں کا گروہ اس طرح کے بڑے بڑے حملوں کا ذمہ دار لگتا ہے جیسے کہ کراچی ایئرپورٹ پر حملہ، کچھ عرصہ پہلے مہران بیس-
سیکیورٹی افسران کا خیال ہے کہ حملہ آور ازبک تھے یا ان میں قبائلی علاقے کے لوگ شامل تھے- اس بات کا کافی امکان ہے کہ بڑی تعداد میں غیر ملکی جنگجو شمالی وزیرستان میں پناہ لے کر وہیں مقیم ہیں- لیکن ان غیر ملکیوں کیلئے اس طرح کے منظم اور پیشہ ورانہ طریقے سے ترتیب دئے ہوئے حملے بغیر کسی طاقتور اور منظم نیٹ ورک کی مدد کے جو شہر میں پہلے سے موجود نہ ہو ممکن نہیں- اتنی ماہرانہ دہشت گردی کی کارروائی کیلئے اتنی ہی جامع اور ہمہ گیر منصوبہ بندی، مالیاتی اور لاجسٹک سپورٹ ضروری ہے-
ایسے ہمہ گیر اور خطرناک نیٹ ورک کی موجودگی شہر کو بےحد غیر محفوظ اور کمزور بنا دیتی ہے- خصوصاً جب دہشت گردی کے خلاف کوئی حکمت عملی موجود ہی نہ ہو- انتظامی معاملات اور قانون کا نفاذ کرنے والی ایجنسیوں کا تقریباً معطل نظام عموما دہشت گردوں کو اپنی کارروایوں کیلئے ایک سازگار ماحول فراہم کرتا ہے اور وہ من مانی کارروائیاں آزادی سے کرتے ہیں-
کراچی میں جو ہوا اسے ایک علیحدہ واقعے کے طور پر نہیں دیکھنا چاہئے- تشدد پسندوں کا یہ سخت رویہ حکومت کے امن مذاکرات کے نام پر خوشامدانہ طرزعمل کا لازمی نتیجہ ہے- اس رویے نے جارحیت پسندوں کے تشدد کو جائز بنا دیا ہے اور دہشتگردی کرنے والوں کو ایک کھلا میدان فراہم کردیا ہے-
اس حقیقت کے باوجود کہ دہشت گردوں کے حملوں میں سینکڑوں فوجی مارے گئے ہیں، حکومت نے فوج کو شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کا صفایا کرنے کیلئے ابھی تک اجازت نہیں دی ہے- دہشت گردوں کے خلاف کارروائی نہ کرنے کی ایک سب سے بڑی وجہ پنجاب میں ان کے ردعمل کا ڈر ہے-
نتیجہ یہ کہ بڑھتی ہوئی تشدد پسندی کا خطرہ بہت زیادہ بڑھ گیا ہے- 'پنجاب کی سلامتی سب سے پہلے' کا تصور ملک کی وحدت اور استحکام کیلئے کوئی اچھا شگون نہیں ہے- ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ بے عملی پنجاب کو بعد میں اور زیادہ غیر محفوظ بنا دیگی- یہ صوبہ انتہا پسند فرقہ پرستوں اور جہادیوں کی سب سے بڑی پرورش گاہ ہے-
پنجاب کے بہت سارے تشدد پسند گروہوں نے شمالی وزیرستان کو اپنا ٹھکانہ بنا لیا ہے اور ٹی ٹی پی اور القاعدہ کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں- یقیناً ان تشدد پسند گروہوں کو وقت چاہئے اور اس دوران میں پنجاب سے ان کی توجہ ہٹ گئی ہے- لیکن ان کو اپنے صوبے کی طرف توجہ مبذول کرنے میں بہت دیر نہیں لگے گی- تھوڑے عرصے پہلے ہی انہوں نے لاہور اور راولپنڈی میں چند بڑے حملے کرکے اپنی طاقت دکھا ہی دی ہے-
فرقہ وارانہ تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات نے بھی ملک کو مزید غیر مستحکم کردیا ہے- کراچی ایئرپورٹ پر حملے سے چند گھنٹے پہلے فرقہ وارانہ انتہا پسندوں نے 20 شیعہ زائرین کو تافتان میں ایرانی سرحد کے قریب قتل کردیا- فرقہ وارانہ انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کے درمیان جو سیکیورٹی فورسز پر حملے کررہی ہیں ایک نہایت واضح قسم کا نزدیکی ربط ہے-
حالیہ تشدد کے واقعات میں تیزی نے حکومت کو یہ موقع فراہم کیا ہے کہ وہ پورے ملک کو ایک ساتھ لے کر چلے اور دہشت گردی کے خلاف ایک فیصلہ کن جنگ کیلئے قوم کو متحد کرے- لیکن کیا کوئی یہ سب کچھ سن رہا ہے؟
ترجمہ: علی مظفر جعفری