مینگو ٹینگو
آموں کو درختوں پر پکنے کیوں نہیں دیا جاتا؟ انہیں مناسب سائز کا ہوتےہی کیوں اُتار لیا جاتا ہے؟ بعض اوقات تو اس کی بھی نوبت نہیں آنے دی جاتی۔
ایسے کچے آموں کو عموماً کیری کہا جاتا ہے جو آج بھی چٹنی، مربع یا اچار کی صورت میں ہمارے کھانے کی میزوں کو سجاتے ہیں۔
کسانوں کا ماننا ہے کہ پھل کو جلد از جلد اتار لینے سے درختوں پر بوجھ کم ہو جاتا ہے اور نئے پتے آنے لگتے ہیں۔ شرارتی بچوں سے بھی پھل کو بچانا ان کا ایک مقصد ہوتا ہے۔
لاٹھائیاں اٹھائے یہ بچے ٹہنیوں اور پھل کو اتنا ہی نقصان پہنچا سکتے ہیں جتنا کیڑے مکوڑوں سے ہو سکتا ہے۔
آپ کیڑوں مکوڑوں کو تو سپرے کے ذریعے دور رکھ سکتے ہیں لیکن ان بچوں کو دور رکھنا آسان نہیں، لہٰذا بہتر یہی ہے کہ کیریوں کو جلد از جلد اُتار لیا جائے۔
پھل تیار ہونے سے پہلے ہی جب اس کی ڈیمانڈ سامنے آنے لگتی ہے تو ایسے میں کیلشیم کاربائڈ اپنا جادو چلاتا ہے اور پھر پھل منڈی آموں سے بھر جاتی ہے۔
گھروں میں آموں کو پکانے کے لیے مختلف طریقے اپنائے جاتے ہیں جن میں ان کو آٹے یا چاولوں کے کنستروں میں دبانا سر فہرست ہے اورکچھ تو انہیں کمبلوں یا الماریوں میں رکھ کر بھی پکا لیتے ہیں۔
اگر آپ کراچی سے میر پور خاص میں منعقدہ 'قومی آم اور گرمیوں کے پھلوں' کے میلےکے لیے نکلیں تو حیدر آباد سے کچھ آگے آپ کو جا بجا آموں سے لدے درخت نظر آنے لگتے ہیں۔
لوگوں کو عموماً آموں کی مشہور اقسام سندھڑی، لنگڑا، انور رٹول، چونسا اور دسہری کا ہی علم ہوتاہے لیکن اس سالانہ میلے میں کچھ جج حضرات آم کی ان گنت اقسام کو چکھتے نظر آتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ یہ جج تین روزہ میلے کے دوران کچھ اور نہیں کھاتے کیونکہ انہیں آموں کی ان گنت اقسام کو چکھنا ہوتا ہے۔
چونکہ یہ پھلوں کا میلہ ہے لہٰذا آم کے علاوہ کیلا، کھجور، چیکو، آلو بخارہ، خوبانی اور دوسرے پھل بھی نمائش کے لیے رکھ جاتے ہیں۔
میلے میں ان پھلوں سے تیار ہونے والی مصنوعات بھی رکھی جاتی ہیں۔
سندھ کے علاوہ پنجاب میں بھی آموں کے عروج کے موسم میں ایک میلہ منعقد کیا جاتا ہے۔ ملک بھر میں آموں کی قیمت یکساں نہیں ہوتی۔
مثلاً کراچی میں مئی اور جون کے دوران سندھ سے آنے کی وجہ سے آم سستے ہوتے ہیں لیکن ایک مرتبہ جب پنجاب سے آم آنے لگتے ہیں تو قیمتیں مزید بڑھ جاتی ہیں ۔ آخر میں خیبر پختونخوا سے آنے والے آم سندھ اور پنجاب کے آموں کی نسبت زیادہ مہنگے دام پر فروخت ہوتے ہیں۔
ان قیمتوں میں اضافے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ انہیں ملک کے دور دراز علاقوں سے لایا جاتا ہے جس کی وجہ سے ان کے ٹرانسپورٹ اخراجات زیادہ ہوتے ہیں۔