ہندوستانی شرعی عدالتوں پر پابندی کی درخواست مسترد
نئی دہلی: ہندوستانی سپریم کورٹ نے پیر کے روز شرعی عدالتوں پر پابندی کی درخواست کو مسترد کردیا تاہم فیصلے میں کہا گیا کہ شرعی عدالتوں کو مسلمانوں یا ان سے متعلق فیصلوں پر کوئی قانونی اختیار نہیں۔
ہندوستان کے 15 کروڑ سے زائد مسلمانوں پر ذاتی نوعیت کے مسائل مثلاً شادی، طلاق وغیرہ پر الگ قوانین کا اطلاق ہوتا ہے جبکہ شرعی عدالتیں اسی نوعیت کے مسائل کو حل کروانے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔
عدالت عالیہ کے فیصلے کے مطابق قاضی صرف اپنی مرضی سے آنے والے لوگوں کو مدد فراہم کرسکتے ہیں جبکہ فتوؤں کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔
فیصلہ پڑھتے وقت جج سی کے پراساد نے کہا،' اس ملک میں شرعی عدالتوں یا فتوؤں کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔'
ہندوستانی اقلیتوں کی جانب سے ذاتی نوعیت کے مسئلوں پر مختلف قوانین کی پیروی کرنا ایک حساس سیاسی مسئلہ ہے۔ نئی ہندوستانی قوم پرست حکومت کوشش کررہی ہے کہ تمام شہری ایک ہی قانون کی پیروی کریں۔
پیٹیشن دائر کرنے والے وشوا لوچن مدن نے اے ایف پی کو بتایا کہ شرعی عدالتوں پر پابندی عائد کرنے سے متعلق ان کی درخواست کو مسترد کردیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ شرعی عدالتوں کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، لیکن اگر لوگ وہاں جانا چاہتے ہیں تو یہ ان کی مرضی ہے۔
انہوں نے یہ پیٹیشن 2005 میں اس وقت دائر کی تھی جب ایک کیس میں ایک خاتون کو اپنے شوہر اور بچوں کو چھوڑ کر اپنے سسر کے ساتھ رہنے کو کہا گیا تھا جس نے انہیں ریپ کیا تھا۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ کسی مذہب کو بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
مسلم پرفسنل لاء بورڈ کے قاسم رسول نیازی نے کہا کہ عدالت نے ان کے موقف کی تائید کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ شرعی عدالتیں ملک کی دیگر عدالتوں کی برابری نہیں کرسکتیں۔
انہوں نے این ڈی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ قاضی بھی ملک ہی کے قانون کی پیروی کرتے ہیں اور شرعی عدالتوں کے فیصلوں کی قانونی حیثیت نہیں۔