ختم ہوتے ہوئے آپشن

شائع August 14, 2014
کیا وزیر اعظم صاحب اس طوفان سے کامیابی سے نکل جائیں گے، یا اس لہر کے ساتھ ہی بہہ جائیں گے؟
کیا وزیر اعظم صاحب اس طوفان سے کامیابی سے نکل جائیں گے، یا اس لہر کے ساتھ ہی بہہ جائیں گے؟

معرکے کے خدو خال تقریباً واضح ہو چکے ہیں۔ اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ طاہر القادری نے عمران خان کے ساتھ آزادی مارچ کے لیے ہاتھ ملا لیا ہے۔ ان کے انتہائی جوشیلے سپورٹر، جو زیادہ تر پنجاب کی لوئر مڈل کلاس سے تعلّق رکھتے ہیں، شاید عمران خان کی مڈل کلاس یوتھ، جسے گلیوں کی شورش کا کوئی تجربہ نہیں، کو مضبوط پشت فراہم کریں۔

لیکن طاہر القادری نے دھرنے کے دن کے حوالے سے ایک سخت موقف اپنایا ہے اور اپنے اتحادیوں اور کارکنوں کو خبردار کر دیا ہے کہ اب واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ یہ طاہر القادری اور عمران خان کی مہم جو سیاست کی ہی بنا پر ہے کہ دونوں سیاست دان اب ایک ہی پلیٹ فارم پر موجود ہیں۔

لیکن، طاہر القادری کا سخت گیر رویہ، اور تشدّد پر اکسانے والے ان کے بیانات پی ٹی آئی کے لیے مشکل کا سبب بن سکتے ہیں، جس کے وجہ سے آزادی مارچ شروع ہونے سے پہلے ہی ختم بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن پھر بھی یہ نیا اتحاد ہی ملک میں اس وقت جنم لینے والی سیاسی پولرائزیشن کو شکل دے گا۔

اس وقت جب ٹکراؤ بالکل قریب ہے، دوسری زیادہ تر سیاسی جماعتیں دور سے دیکھتے ہوئے اپنے آپشنز پر غور کرنے میں مصروف ہیں۔ وہ جماعتیں 14 اگست کو ہونے والے واقعات کے بعد ہی کوئی فیصلہ لیں گی۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس وقت مشکل میں گھرے ہوئے وزیر اعظم صاحب کے پاس کون سے آپشن موجود ہیں۔

کیا وزیر اعظم صاحب اس طوفان سے کامیابی سے نکل جائیں گے، یا اس لہر کے ساتھ ہی بہہ جائیں گے۔ نواز شریف کو اس وقت اقتدار میں باقی رہنے کے لیے ایک سخت مرحلہ درپیش ہے۔ یہ صرف ایک سیاسی جنگ نہیں، بلکہ جنرل مشرّف کے ٹرائل کے معاملے پر فوج سے تنازعہ اور دوسرے بہت سارے مسائل بھی اس کھیل میں نواز شریف کی مشکلات میں اضافہ کر رہے ہیں۔

دو دفعہ اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد یہ امید کی جارہی تھی، کہ نواز شریف بڑھتے ہوئے سیاسی مسائل سے نمٹنے کے لیے انتہائی دانشمندی کا مظاہرہ کریں گے۔ لیکن موجودہ سیاسی بحران ماضی کے دوسرے بحرانوں سے کافی مختلف ہے۔ پچھلے ادوار میں ان کی حکومت کے خاتمے کی وجوہات اوپری حلقوں میں موجود تھیں، پر اس دفعہ، اور پہلی دفعہ، انہیں سڑکوں پر ہونے والی ایجی ٹیشن کا سامنا ہے۔

بلا شبہ ان کی حکومت کو لاحق اس خطرے کے ساتھ اقتدار کے حلقوں میں کچھ اور مسائل بھی ہیں۔ نواز شریف کی ولولے سے خالی اور اکثر غیر حاضر رہنے والی شخصیت ان کے لیے موجودہ بحران سے نمٹنے کے لیے کوئی بڑی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ سیاست کیونکہ صرف ایک خاندانی سرکل تک محدود ہے، اس لیے حکومت پارٹی کیڈرز کو حالیہ چیلنج کا سامنا کرنے کے لیے ابھارنے میں ناکام ہے۔

لیکن اب بھی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وزیر اعظم کو معاملے کی سنگینی کا اندازہ نہیں۔ وہ اب بھی حیران ہیں کہ آخر ان سے غلطی ہوئی کہاں ہے۔ پیر کے روز ویژن 2025 کی لانچ کے موقع پر ان کی تقریر مکمّل طور پر دفاعی تھی، جس میں انہوں نے موجودہ بحران سے نمٹنے کے لیے اپنے کسی لائحہ عمل کا اظہار نہیں کیا۔

ایسا لگتا ہے کہ وہ اب بھی اس طوفان کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔ اور تقریر کے دوران غیر واضح الفاظ میں ملٹری کو بحران کا ڈائریکٹر قرار دینا پہلے سے کشیدہ سول ملٹری تعلقات کو مزید خراب کر سکتا ہے۔

پنجاب حکومت کی طاہر القادری کے مسئلے سے نمٹنے کی حکمت عملی، جس میں پہلے منہاج القرآن کے 14 کارکنوں کی ہلاکت، اور بعد میں سڑکوں کی کنٹینرز لگا کر بندش شامل ہیں، نے مسئلے کو بگاڑنے میں کافی کردار ادا کیا ہے۔ اپنی منزلوں تک پہنچنے کے لیے بیتاب لوگوں کی کنٹینرز کے نیچے سے رینگنے کی تصاویر نے شریف برادران کو سیاسی طور پر شدید نقصان پہنچایا ہے۔

کنٹینر حکمت عملی کامیاب ثابت نہیں ہوئی، اور اگر حکومت نے عمران خان اور دیگر قائدین کو نظر بند کرنے کی کوشش کی، تو بات انتظامیہ کے کنٹرول سے باہر نکل جائے گی۔ پورے پنجاب میں شدید فسادات بھڑک اٹھیں گے، جس سے طاہر القادری کو اپنے موقف کی تائید میں مزید لاشیں مل جائیں۔

سمجھداری کا فیصلہ یہ ہوتا کہ حکومت پہلے ہی عمران خان کو آزادی مارچ کرنے کی کھلی اجازت دے دیتی۔ ایسی صورت میں امن و امان قائم رکھنا مکمّل طور پر مخالف فریق کی ذمہ داری ہوتی۔ پر اب طاہر القادری کے مارچ میں شرکت کے اعلان کے بعد اب حکومت کی جانب سے کسی بھی لچک کا اعلان کمزوری دکھانے کے مترادف ہے۔ نواز شریف کے پاس اب وقت کم ہوتا جا رہا ہے۔

لیکن پھر بھی یہ شریف حکومت کے لیے بند گلی نہیں ہے۔ مشکلات کے شکار وزیر اعظم کے پاس اب بھی کچھ آپشن موجود ہیں، جنہیں وہ اپنے کھوۓ ہوئے سیاسی مقام کو واپس حاصل کرنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔

قومی اسمبلی ان کا ایک مضبوط قلعہ ہے، جہاں وہ فیصلہ کن اکثریت رکھتے ہیں۔ لیکن پارلیمنٹ کو غیر اہم سمجھنے کی ان کی عادت، ان کی مسلسل غیر حاضری، اور پالیسی معاملوں پر ان کی جانب سے بحث کی شروعات نا ہونا، ان سب نے مل کر پارلیمنٹ کو ایک غیر فعال ادارہ بنا دیا ہے، جس سے ان کی تنہائی میں مزید اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

پارلیمنٹ میں نمائندگی رکھنے والی سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنے میں انہوں نے بہت دیر کی۔ قومی سلامتی کانفرنس میں سیاسی جماعتوں کے قائدین کو دعوت دینا شاید ایک اچھا قدم ثابت ہو۔

لیکن سیکورٹی معاملات پر بحث کے ساتھ سیاسی معاملات پر بحث کرنا، وہ بھی فوج کی موجودگی میں، اس سوال کو جنم دیتا ہے، کہ آخر سول اور ملٹری قیادت کو ساتھ بٹھانے کا مقصد کیا ہے۔ جیسا کہ تصویر میں دکھایا گیا، جس میں سیاسی قائدین اور فوجی جنرل ساتھ بیٹھے ہیں، کیا اس لیے تھا کہ عوام تک پیغام پہنچا دیا جائے کہ فوج حکومت کے ساتھ ہے؟

آخر کیوں ایک ان-کیمرہ سیکورٹی بریفنگ کے دوران وزیر اعظم نے افتتاحی ریمارکس میں سیاسی بحران کا ذکر کیا؟

کیوں یہ ریمارکس لائیو ٹیلی کاسٹ کیے گئے؟ اس طرح کی حرکات خطرناک ثابت ہو سکتی ہیں، اور حکومت کو چاہیے کہ وہ اس طرح کے معاملات میں سنجیدہ رویہ اختیار کرے۔

نواز شریف کمزور ضرور ہوگئے ہیں، پر وہ کھیل سے باہر اب بھی نہیں۔ یہ نہ 1993 ہے، اور نہ 1999، جب انہوں نے طاقت کی جنگ ہار دی تھی۔ لیکن غلط اقدامات انھیں ویسی ہی صورتحال میں واپس پہنچا سکتے ہیں۔

یہ صرف قادری اور عمران کی جانب سے پیدا کردہ ایک چیلنج نہیں، بلکہ نواز شریف کو گورننس اور معیشت سے متعلق دوسرے مسائل پر بھی سنجیدگی سے توجہ دینی ہوگی، اگر وہ حکومت میں رہنا اور جمہوری نظام کو قائم رکھنا چاہتے ہیں۔

انگلش میں پڑھیں۔


زاہد حسین ایک لکھاری اور جرنلسٹ ہیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 13 اگست 2014 کو شائع ہوا۔

زاہد حسین

لکھاری صحافی اور مصنف ہیں. ان کا ای میل ایڈریس zhussain100@yahoo.com ہے.

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 8 جولائی 2025
کارٹون : 6 جولائی 2025