غزہ: فلسطینی بچے اسکول جانے سے خوفزدہ
غزہ: فلسطین کی آٹھ سالہ معصوم بچی 'ملک' حماس اور اسرائیل کے مابین کئی ہفتوں سے جاری جنگ کی وجہ سے خوفزدہ ہے۔
وہ اسکول نہیں جانا چاہتی اور اس کا کہنا ہے ‘مجھے اسکول جانے سے خوف آتا ہے کیوں کہ وہ دوبارہ بمباری شروع کردیں گے‘ ۔
بڑی بڑی سبز آنکھوں والی ملک نے دکھ اور کرب سے بھرے لہجے میں کہا 'میرے دوست مارے جا چکے ہیں اور میرا گھر تباہ ہو گیا ہے'۔
ملک کی بڑی بہن گیارہ سالہ آیت نے نہایت بہادر لہجے میں بتایا ‘ہم اسکول ضرور جائیں گے اور ہم ضرور پڑھیں گے، چاہے ہمیں ملبے پر ہی کیوں نہ پڑھنا پڑے۔ چاہے وہ ہمارا اسکول دوبارہ تعمیر کریں یا نہ کریں یا چاہے وہ ہم سب کو قتل ہی کردیں’۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے اقوام متحدہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ آٹھ جولائی سے جاری اس خونی جنگ میں کم از کم 2,038 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں ، جن میں سے 72فیصد عام شہری ہیں۔
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق جانی نقصان کے علاوہ بھی غزہ میں جا بجا تباہی کے آثار دیکھے جا سکتے ہیں، جہاں اسرائیلی فوج کی شیلنگ اور فضائی حملوں کے نتیجے میں تقریباً 230 اسکول ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں، جن میں 140 سرکاری اسکول ہیں جبکہ 90اسکول اقوام متحدہ کے زیر انتظام چلائے جا رہے تھے۔
اے ایف پی کے مطابق پچیس اسکول تو اس حد تک تباہ ہو چکے ہیں کہ وہاں دوبارہ تدریسی سرگرمیاں شروع نہیں ہو سکتیں۔
جبکہ وہ اسکول جو ابھی تک اپنی درست حالت میں موجود ہیں، ان میں سے بیشتر بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کے لیے جائے پناہ میں تبدیل ہو چکے ہیں۔
فلسطینی محکمہ تعلیم کے مطابق درجنوں طلبہ اور تقریباً 20 اساتذہ اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں ہلاک ہو چکے ہیں۔
عام طور پر غزہ میں نیا تعلیمی سال 24اگست کو شروع ہوتا ہے، تاہم حکام کے مطابق ایک پائیدار جنگ بندی کے معاہدے تک کم از کم دو ہفتے تک نئے تعلیمی سال کا آغاز نہیں کیا جائے گا۔
تاہم منگل کو سیز فائر کی خلاف ورزی اور اسرائیل اور حماس کے مابین جنگ کے دوبارہ آغاز سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں مزید وقت لگے گا۔
فلسطین میں تعلیم کی بحالی کے لیے کام کرنے والی اسرائیلی تنظیم گیشا کے مطابق اس جنگ سے پہلے بھی فلسطینی آبادی کی تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے 259 اسکولوں کی ضرورت تھی۔
یاد رہے کہ غزہ پر 2006 سےاسرائیلی پابندیاں عائد ہیں جن کی وجہ سے تعمیری میٹریل کو غزہ کی حدود میں لے جانے پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یہی وجہ ہے کہ نئے اسکولوں کی تعمیر تعطل کا شکار ہے۔
اے ایف پی نے ایک نہایت اہم انکشاف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس جنگ سے پہلے بھی اسکولوں کی تعداد میں کمی کی وجہ سے غزہ کے اسکول میں کلاسیں دو تین شفٹوں میں ہوتی تھیں، لیکن آٹھ جولائی سے جاری اس حالیہ جنگ نے غزہ میں تعلیمی سرگرمیوں کو نہایت بری طرح سے متاثر کردیا ہے۔
اقوام متحدہ کی ایک ایجنسی کی جانب سے غزہ میں 246 اسکول قائم کیے گئے ہیں جن میں 238,000 طلبہ کو تعلیم دی جاتی ہے، تاہم ان اسکولوں میں سے بھی 57 اسکول مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔
سینتیس سالہ فلسطینی شہری احمد کا کہنا ہے کہ ‘میرے چھ بچے اسکول جانے سے سخت خوفزدہ ہیں اور مجھے نہیں معلوم کہ انھیں تعلیم کی طرف دوبارہ راغب کرنے کے لیے مجھے کیا کرنا چاہیے’۔
احمد کےمطابق ‘ان کے دوست قتل کیے جا چکے ہیں ، اب یہ بچے اس تباہی اور خونی جنگ کو بھلا کر معمول کی زندگی کی طرف کیسے جائیں گے، مجھے علم نہیں’۔
جمعرات کو بھی تازہ اسرائیلی فضائی حملوں میں غزہ کے چھ شہری ہلاک ہو چکے ہیں ، جن میں چار معصوم بچے شامل ہیں۔