کسی نہ کسی طرح حکومت دہشتگردی کے مسئلے پر اپنا سر ریت سے نکالنے میں کامیاب ہوچکی ہے، اور اس کی کوششوں کا ایک حصہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کی میٹنگ ہے، جس کا مقصد دہشتگردی کے خلاف جاری جنگ میں میڈیا کے کردار پر سفارشات تیار کرنا تھا۔

میں جانتا ہوں ہمارے پارلیمانی ممبران کی نیتیں اچھی تھیں، لیکن ان کی 'میڈیا کے لیے نفسیاتی سماجی گائیڈلائنز' بالکل سادہ سے لے کر مضحکہ خیز تک ہیں۔ (مکمل لسٹ مضمون کے اختتام میں موجود ہے)۔


کچھ سفارشات کا دائرہ اتنا وسیع ہے، کہ ان میں کچھ بھی سما سکتا ہے۔

 تیسرے گول کے بعد میچ مزید نہیں دکھانا چاہیے تھا۔
تیسرے گول کے بعد میچ مزید نہیں دکھانا چاہیے تھا۔
 خبردار: یہ دیکھنے کے بعد شاید آپ اپنا ٹی وی توڑ دینا چاہیں۔
خبردار: یہ دیکھنے کے بعد شاید آپ اپنا ٹی وی توڑ دینا چاہیں۔

لیکن یہ ہماری سکیورٹی فورسز کے معاملات اور ان سے متعلق معلومات کو خفیہ رکھ سکتی ہیں جس کی ویسے بھی بہت ضرورت ہے۔

میڈیا کی کچھ تخلیقی ایڈیٹنگ کسی ممنوعہ چیز کے لیے دوسرا راستہ بھی نکال سکتی ہے۔

لیکن ہوسکتا ہے کہ اس کی وجہ سے کئی افراد کو وہ نام ملیں، جو ہمارے گمان میں بھی نہ ہوں۔

 بیٹ مین: میں وہ ہیرو ہوں جس کی کراچی کو ابھی ضرورت نہیں ہے۔
بیٹ مین: میں وہ ہیرو ہوں جس کی کراچی کو ابھی ضرورت نہیں ہے۔

بہرحال اس کے کچھ فوائد بھی ہوسکتے ہیں۔

 انہوں نے میرا مارننگ شو بند کردیا۔
انہوں نے میرا مارننگ شو بند کردیا۔

میڈیا کے لیے نفسیاتی سماجی گائیڈلائنز (جو اب قومی اسمبلی کی ویب سائٹ سے ہٹا دی گئی ہیں)

  • سب سے پہلے اچھی خبر دکھائیں۔

  • اگر ہوسکے تو رات کو نیند کے وقت بھی۔

  • صبح 9 بجے سے پہلے کوئی بھی پریشان کن تصاویر نہ دکھائیں۔

  • خونی تصاویر نہ دکھائیں۔

  • بری خبریں بار بار نہ دہرائی جائیں۔

  • دہشتگردوں کے نام اور تصاویر نہ دکھائی جائیں۔

  • فرقہ وارانہ مسائل میں جانبداری کرنا غلط ہے۔

  • دشمنوں کی دھمکیوں کو نمایاں نہ کیا جائے۔

  • ملک کے سکیورٹی اداروں کے خلاف بولنا درست نہیں ہے۔

  • فوجی افسران اور اقدامات کو میڈیا پر نہیں ہونا چاہیے۔

  • اچھے رول ماڈلز کو نمایاں کیا جائے۔

  • اسپورٹس میں کامیابیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جائے۔

  • معاشرے کا اچھا رخ دکھایا جائے، جیسے کہ وہ لوگ جو خودکشی نہیں کرتے۔

  • انٹرٹینمنٹ بہت اہم ہے، لوگ اس کے لیے بیتاب رہتے ہیں۔

  • حالاتِ حاضرہ کے پروگرام زیادہ۔

  • ڈسپلن سکھایا جائے۔

  • نوجوانوں کی کردار سازی کی کوششیں۔

  • ڈسپلن کا کلچر۔

  • زندگی میں کامیابی کی کہانیاں۔

  • جنسی زیادتی، قتل، اور ڈاکے جیسے چھوٹے واقعات کو زیادہ اہمیت نہ دی جائے۔ چھوٹے واقعات بڑا اثر ڈال سکتے ہیں۔

  • بچوں کا انٹرویو نہ کیا جائے۔

  • ہر نیوز بریکنگ نیوز بنانے کی حوصلہ شکنی کی جائے۔

  • سانحے کے بعد میڈیا ناظرین کو راحت پہنچانے کا کردار ادا کرسکتا ہے۔

  • متاثرین کو مختلف خدمات کے بارے میں معلومات فراہم کرسکتا ہے۔

  • ملک بھر میں آگاہی کے پروگرامز۔

  • اس کے تحت اسلام آباد میں میڈیا ہاؤس مالکان کے لیے دو گھنٹے کا سیشن۔

  • گائیڈ لائنز کو تمام اسٹیک ہولڈرز کی مدد سے نافذ کیا جائے گا۔

  • گائیڈ لائنز مینوئل شائع کیا جائے گا۔

  • میڈیا کو عمومی ذہنی بیماریوں کے بارے میں آگاہ کیا جائے گا، خصوصاً وہ جو سانحے کے بعد جنم لیتی ہیں۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں