کھیلوں کا شعبہ حکومتی توجہ کا منتظر

20 مارچ 2015
ہمارے کھلاڑی کب تک محض اپنی ذاتی کوششوں اور شوق کی بنیاد پر آگے بڑھتے رہیں گے؟ — فوٹو بشکریہ عاطف انورآفیشل فین کلب فیس بک پیج
ہمارے کھلاڑی کب تک محض اپنی ذاتی کوششوں اور شوق کی بنیاد پر آگے بڑھتے رہیں گے؟ — فوٹو بشکریہ عاطف انورآفیشل فین کلب فیس بک پیج

ابھی کچھ ہی دن پہلے کھیلوں کی دنیا میں پاکستان نے بین الاقوامی طور پر ایک اور اعزاز حاصل کیا ہے۔ اس بار پاکستان کے افق پر جگمگانے والے ستاروں میں یہ اضافہ 'عاطف انور' ہیں جنہوں نے آسٹریلیا میں ہونے والی آرنلڈ کلاسک باڈی بلڈنگ چیمپئین شپ کی اوور 100 کلوگرام کیٹگری میں ٹائٹل جیتا ہے۔ انہیں باڈی بلڈنگ کی دنیا کے نامور ستارے اور معروف فلمی اداکار آرنلڈ شوارزنیگر نے یہ اعزاز پیش کیا اور ان کی قابلیت اور محنت کو سراہا۔

پاکستان میں یہ خبر نہ صرف نہایت مسّرت کے ساتھ سنی گئی، بلکہ میڈیا نے بھی اس خبر کو بہترین کوریج دی اور حوصلہ افزائی کی۔ پاکستان میں کھیلوں میں حکومتی اداروں کی عدم دلچسپی اور ناسازگار حالات کے باعث کسی ایسے مقابلے یا کھیل میں کسی پاکستانی کی اعلیٰ کارکردگی جہاں امید کا تازہ جھونکا ثابت ہوتی ہے، وہیں ایک اہم سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے کھلاڑی کب تک محض اپنی ذاتی کوششوں اور شوق کی بنیاد پر آگے بڑھتے رہیں گے؟

دنیا بھر میں اسپورٹس کے شعبے کو کسی بھی دیگر تعلیمی و پروفیشنل شعبے کی طرح اہمیت دی جاتی ہے۔ حکومتیں نہ صرف اسپورٹس کے مختلف شعبوں کے لیے گرانٹس کا انتظام کرتی ہیں اور بہترین تربیت یافتہ افراد کی زیرِ نگرانی ٹریننگ اور کوچنگ کی بہترین سہولتیں فراہم کرتی ہیں، بلکہ اس بات کو بھی ممکن بناتی ہیں کہ دنیا بھر میں ہونے والے ایسے مقابلوں میں بہترین کھلاڑیوں کی شرکت ہو، جو نمایاں نام اور مقام بنا سکیں۔ حکومت کی زیرِ نگرانی ٹریننگ اکیڈمیوں کا قیام، تربیت دینے کے لیے کوچز اور انسٹرکٹرز کے علاوہ بین الاقوامی مقابلوں اور گیمز میں حصّہ لینے کا بھی انتظام کیا جاتا ہے۔

پاکستان ان خوش نصیب ممالک میں سے ایک ہے جہاں ٹیلنٹ کی کمی نہیں۔ یہ سرزمین کرکٹ، ہاکی، اور اسکواش کی نامور کھلاڑیوں کے علاوہ ٹینس کے اعصام الحق، باکسنگ کے محمد حسین، فٹ بال کے کلیم اللہ، ایتھلیٹکس کی نسیم حمید، اسنوکر کے محمد آصف اور اب باڈی بلڈنگ کے عاطف انور جیسے بے شمار جگمگاتے ستاروں سے بھری ہوئی ہے۔ انِ میں سے کچھ اپنی ذاتی محنت، شوق اور لگن کے بل بوتے پر میدان میں پہنچ کر شائقین اور بین الاقوامی دنیا کی توّجہ کا مرکز بنتے ہیں، تو کئی ایسے بھی ہیں جو سہولتوں کی عدم فراہمی، وسائل کی کمیابی اور حکومتی سرپرستی نہ ہونے کے سبب گمنامی کے اندھیروں میں کھو جاتے ہیں۔

ایک دور تھا جب پاکستان نہ صرف کرکٹ، ہاکی اور اسکواش بلکہ کئی دوسرے کھیلوں میں بھی ایک نمایاں مقام رکھتا تھا۔ وسائل تب بھی کم تھے لیکن دیگر عوامل کھلاڑیوں کے حق میں تھے۔ پاکستان کا تاثر عالمی دنیا میں بہت بہتر تھا اور کھلاڑی اور ٹیمیں پاکستان کی سرزمین پر آنے اور کھیلنے کے لیے تیاّر ہوتے تھے، نیز پاکستانی کھلاڑیوں کو مدعو بھی کیا جاتا تھا۔

یہ ہماری بد قسمتی کہ بدلتے وقت کے ساتھ جہاں دنیا بھر میں پاکستان کا تاثر دہشت گردی کے حوالے سے متاثر ہوا، وہیں اکثر ممالک نے اپنی ٹیموں اور کھلاڑیوں کو پاکستان بھیجنے سے صاف انکار کر دیا۔ حکومتی بے حسی کے باعث نوبت یہاں تک آ پہنچی تھی کہ پاکستان پر اولمپک گیمز میں شرکت کے لیے بھی پابندی لگنے والی تھی۔

دوسری جانب پڑوسی ملک کی مثال لے لیجیے جسِ نے اسِ خطّے میں کرکٹ کے کھیل کو IPL (انڈین پریمئر لیگ) کی شکل میں ایک نیا رجحان دیا، بلکہ اسی طرز پر ہاکی اور فٹبال جیسے عالمی نوعیت کے کھیلوں کے علاوہ کبڈی جیسے مقامی کھیل کو بھی ورلڈ کبڈی لیگ کے ذریعے عالمی شہرت کا حامل بنا دیا ہے۔

گذشتہ دنوں ورلڈ کپ کے حوالے سے قومی کرکٹ ٹیم کی سلیکشن اور پی سی بی چیئرمین کی تعیناتی کے ضمن میں جو چہ مگوئیاں ہوئیں اور افواہیں اور سچائیاں سننے میں آئیں، نیز ایک کرکٹ کھلاڑی کو ٹیم میں کھلانے یا نہ کھلانے کے فیصلے پر جو تنازعات سامنے آئے، انہوں نے ایک عام پاکستانی کے ذہن میں کئی سوالوں کو جنم دیا ہے۔

پڑھیے: سرفراز کو نہ کھلانا سمجھ سے بالاتر

پاکستان اسپورٹس بورڈ اور اس کے زیرِ انتظام آنے والے دیگر اسپورٹس کے ذیلی بورڈز کی انتظامیہ، ان کی تعیناتی، اور پرچی کی بنیاد پر کھلاڑیوں کا سلیکشن نہایت متنازع معاملات بن چکے ہیں۔ ماضی میں بھی اکثر ایسی سوالات اور افواہیں جنم لیتی رہی ہیں جن کا تاحال کوئی تسلی بخش جواب سامنے نہیں آ سکا ہے۔

تعلیم، صحّت، بنیادی ضروریاتِ زندگی کی عدم فراہمی اور دیگر شعبہ جات میں تو عوام کو حکومت اور متعلّقہ اداروں کی عدم دلچسپی کا سامنا ہے ہی، اسپورٹس بھی ایک ایسا ہی شعبہ ہے جس میں حکومت کی دلچسپی محض بورڈز بنانے اور ان میں من چاہے افراد کی تعیناتی تک ہی محدود نظر آتی ہے۔ کرکٹ جیسا کھیل جسِ میں پاکستانی عوام سب سے زیادہ دلچسپی لیتی ہے، جب اس پر ہی تنازعات سامنے نظر آتے ہوں تو باقی کھیلوں کا حال کیا کہیے۔

اسپورٹس کسی بھی صحت مند معاشرے کا ایک اہم حصّہ ہوتے ہیں جو معاشرے میں مثبت رجحانات اور صحّت مند مقابلے کو پروان چڑھاتے ہیں، اسی لیے دنیا بھر میں ممالک اور قومیں اسپورٹس میں نہ صرف خاص دلچسپی لیتے ہیں، بلکہ اپنے ملک کو اس شعبے میں آگے بڑھانے کے لیے قابلِ قدر کارنامے بھی انجام دیتے ہیں، جسِ کی ایک مثال پڑوسی ملک میں شروع ہونے والے لیگ گیمز سے دی گئی۔

اسِ کے برعکس پاکستان میں اسِ ضمن میں بہت کم کام دیکھنے میں آتا ہے۔ کالج اور یونیورسٹی لیول پر طالبِ علموں کے لیے محض اسپورٹس کوٹہ ہی کافی نہیں، بلکہ ان اسپورٹس کی باقاعدہ تربیت کے لیے ایسے ٹریننگ کیمپس اور ادارے بنانے کی بھی ضرورت ہے جہاں سے نوجوان استفادہ کر سکیں۔

ہمیں اسپورٹس کے پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کو ایک روشن خیال، پرعزم، اور مثبت معاشرے کے طور پر دنیا کے سامنے لانا ہے، جو اسپورٹس کی اہمیت سے واقف ہے اور بلا تخصیص جنس و مذہب ٹیلنٹ کو پروان چڑھاتا ہے۔

ضرورت اسِ بات کی ہے کہ ہمیں ایسے لیڈرز اور پالیسی ساز ملیں جو اسپورٹس کی اہمیت کو سمجھیں اور ہمارے نوجوانوں میں بسے ٹیلنٹ کو ابھاریں، سینچیں اور آگے بڑھائیں تاکہ آنے والے کل میں پاکستان کا نام کھیلوں کی دنیا میں بھی اسی طرح روشن ہو جسِ طرح آج سے صرف چند دہائیوں پہلے ہوا کرتا تھا۔

ورنہ اگر حکومتی سرپرستی نہ ملی، تو کئی ستارے گمنامی کی نذر ہوتے رہیں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں