انتخابات میں بدنظمی: کون ذمہ دار ہے؟

اپ ڈیٹ 07 جون 2015
لکھاری پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹیو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے صدر ہیں۔
لکھاری پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹیو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے صدر ہیں۔

پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے حملے، جس میں 150 بچوں اور دیگر افراد کی جان گئی، کے صرف چھ ماہ بعد کم از کم 60 لاکھ ووٹر خیبر پختونخواہ کے بلدیاتی انتخابات میں اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرنے کے لیے اپنے گھروں سے باہر آئے۔ ان بہادر لوگوں نے نہ صرف دہشتگردوں کو نیچا دکھایا، بلکہ شدید گرمی کی بھی پرواہ نہ کی۔

جمہوری نظام کے تیسرے اور سب سے اہم حصے کی تکمیل کرتے ہوئے دیہی اور ہمسایہ کونسلوں کے لیے 40,000 کونسلرز منتخب کیے گئے۔ اس حساب سے خیبر پختونخواہ نے دو بڑے صوبوں، پنجاب اور سندھ کو پیچھے چھوڑ دیا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان، خیبر پختونخواہ کے عوام، اور صوبے کی انتظامیہ درپیش زبردست چیلنجز کے باوجود پیچیدہ ترین انتخابات کے کامیاب انعقاد پر مبارکباد کے مستحق ہیں۔

اتوار کے دن ہونے والے انتخابات میں دہشتگردی اور جلا دینے والی گرمی ہی واحد چیلنجز نہیں تھے۔ ہر ووٹر کو 7 بیلٹ پیپرز پر ووٹ کاسٹ کرنے تھے، جس کے لیے 26,000 پولنگ بوتھ ناکافی ثابت ہوئے۔ کئی مقامات پر انتخابی عملہ دیر سے پہنچا، جبکہ کئی مقامات پر پولنگ کا سامان پہنچنے میں تاخیر ہوئی۔

عمومی طور پر انتخابی عملے کو انتخابات کی تربیت نہیں دی گئی تھی۔ کچھ صوبائی وزراء اور دیگر بااثر سیاستدانوں نے طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انتخابی عملے پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی۔ کچھ جگہوں پر انتخابی عملے کی جانبداری کے کیسز بھی رپورٹ ہوئے۔ انتخابی انتظامات میں ان خامیوں، ان کے نتیجے میں جنم لینے والی بے چینیوں، اور گرمی میں طویل انتظار کے سبب جھگڑے اور ہاتھا پائی بھی دیکھنے میں آئی۔ اطلاعات کے مطابق مختلف واقعات میں 11 لوگ ہلاک ہوئے۔

پڑھیے: کے پی بلدیاتی الیکشن، فائرنگ سے چھ ہلاکتیں

کیا غلط ہوا، اور کون ذمہ دار ہے؟

آئین کی شق 218 (3) کے تحت آزادانہ، منصفانہ، اور شفاف انتخابات کی ذمہ داری مکمل اور واضح طور پر الیکشن کمیشن آف پاکستان کے کندھوں پر ہے۔ لہٰذا ووٹروں کی تعداد کا پہلے سے اندازہ کرنا اسی کی ذمہ داری تھی۔ الیکشن کمیشن کو کچھ مشقیں کرنی چاہیئں تھیں تاکہ ہر ووٹر کے 7 بیلٹ پیپرز پر ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے درکار وقت کا اندازہ لگایا جا سکتا۔ اس کی بنیاد پر یہ آسانی سے انتخابات کے 9 گھنٹے طویل دن کے لیے پولنگ بوتھس کی مطلوبہ تعداد کا اندازہ لگا سکتا تھا۔

یا تو یہ مشقیں نہیں کی گئی تھیں، یا پھر لگائے گئے اندازے غلط تھے، کیونکہ کئی پولنگ اسٹیشنز پر پولنگ بوتھس کی تعداد مطلوبہ سے نہایت کم تھی۔ زیادہ تر پرتشدد واقعات ان پولنگ اسٹیشنز پر پیش آئے، جہاں رش زیادہ تھا، ووٹ کاسٹ کرنے میں تاخیر ہورہی تھی، اور پولنگ اسٹاف لوگوں کی رہنمائی کرنے اور نظم و ضبط قائم کرنے میں ناکام تھا۔ ایک جگہ جب تشدد شروع ہوا، تو یہ بڑھتا ہی گیا، جس کے نتیجے میں کئی جگہوں پر اموات ہوئیں۔ الیکشن کمیشن کو اس بدنظمی کے لیے اپنی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔

الیکشن کمیشن نے حال ہی میں انکشاف کیا ہے کہ وہ خیبر پختونخواہ کے مقامی انتخابات مرحلہ وار کروانا چاہتا تھا، لیکن صوبائی حکومت کے دباؤ میں آ کر اسے پیچھے ہٹنا پڑا۔ یہ الیکشن کمیشن کی جانب سے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ ہے۔ الیکشن کمیشن کے اندر خود احتسابی کا عمل ہونا چاہیے، جس کے بعد اقدامات اور منظم اصلاحات ہونی چاہیئں۔

مزید پڑھیے: بلدیاتی انتخابات میں بدانتظامی اور بے ضابطگیاں

لیکن یہ بات بھی ماننی چاہیے کہ الیکشن کمیشن گذشتہ تین سالوں سے شدید پریشر کے تحت کام کر رہا ہے۔ جو عزت و تکریم اس آزاد ادارے کا حق ہے، اور انتخابی حکام کو جو عزت و تکریم دیگر انتخابی جمہوریتوں والے ممالک، مثلاً ہندوستان میں حاصل ہے، عدلیہ کے ایک حلقے نے اسے وہ عزت نہیں دی۔ الیکشن کمیشن میں اپنی کمزوریاں اور خامیاں ہیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ الیکشن کمیشن کو آزادانہ طور پر کئی اہم سرگرمیوں کی تاریخیں متعین نہیں کرنے دی گئی تھیں۔

مثال کے طور پر، الیکشن کمیشن پر شدید دباؤ ڈال کر اسے تازہ کمپیوٹرائزڈ انتخابی فہرستیں تیار کرنے کے لیے ایک ناممکن حتمی تاریخ دی گئی۔ مقامی انتخابات کے لیے بھی اعلیٰ عدلیہ نے بار بار وہ تاریخیں متعین کیں، جو الیکشن کمیشن کے نزدیک ناممکن اور حقائق سے پرے تھیں۔

کچھ سیاسی جماعتوں نے کھلے عام الیکشن کمیشن کو بدنام کیا، اور غیرمنصفانہ طور پر اس پر 2013 کے عام انتخابات میں ہونے والی مبینہ دھاندلی میں شریک قرار دیا۔ اس مہم نے الیکشن کمیشن اور اس کے عملے کے جذبے کو بہت حد تک کم کیا ہے۔

ایک منظم اور پرامن انتخاب کے انعقاد کی ذمہ داری سیاسی جماعتوں پر بھی عائد ہوتی ہے، جس سے وہ بری الذمہ نہیں ہو سکتیں۔ انہیں اپنے کارکنوں اور ووٹروں کو انتخابی مرحلے کے حوالے سے تربیت دینی چاہیے، اپنے پولنگ ایجنٹس کو تربیت دینی چاہیے، اور اپنے کارکنوں کو برداشت سکھانی چاہیے۔ حالیہ انتخابات سیاسی جماعتوں میں ان سب چیزوں کی شدید کمی کے عکاس ہیں، اور یہ کمی سب سے زیادہ پاکستان تحریکِ انصاف کے کارکنوں میں نظر آتی ہے۔

پولیس اور مقامی انتظامیہ پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ انہوں نے مخالف سیاسی جماعتوں کے دفاتر کے سامنے منائے جانے والے جیت کے اشتعال انگیز جشن کنٹرول نہیں کیے۔

جانیے: خواتین اور جمہوریت

ایسا لگتا ہے کہ الیکشن کمیشن اور دیگر اسٹیک ہولڈر 2013 کے عام انتخابات سے سبق سیکھنے، اور ان سیکھے گئے اسباق کو خیبر پختونخواہ کے مقامی انتخابات میں استعمال کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں۔ امید ہے کہ اب اتوار کے روز سیکھے گئے سبق فراموش نہیں کیے جائیں گے، اور پنجاب اور سندھ میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات خیبر پختونخواہ کے بلدیاتی انتخابات سے زیادہ منظم اور پر امن ہوں گے۔

انگلش میں پڑھیں۔

لکھاری پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹیو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے صدر ہیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 3 جون 2015 کو شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں